تحریر: سید بدرسعید۔۔
آج کل لکھنے والوں کی اکثریت کا ایک بڑا مسئلہ خود پسندی ہے ۔ خود پسندی انسانی شخصیت کی خوبصورتی ہے لیکن جب یہ تحریر کے حوالے سے آنے لگے تو زوال کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔مجھے بہت سے نوجوان لکھنے والوں کے یہاں یہی مسئلہ نظر آتا ہے ۔کسی ایڈیٹر نے کوئی تحریر شائع نہیں کی تو اس کی برائیاں اور الزامات شروع ہو جاتے ہیں ۔ کسی ایڈیٹر نے جملے کاٹ دیے تو اس کے خلاف گفتگو شروع ہو جاتی ہے ۔ اکثر لکھاریوں کی خواہش ہوتی کہ جو وہ لکھ دیں وہی مستند مانا جائے ۔ ان کے لکھے کسی جملے کی کانٹ چھانٹ نہ کی جائے ۔ کئی احباب تو اس اخبار یا میگزین کو دوبارہ تحریر ہی نہیں بھیجتے جس کے ایڈیٹر نے ان کا کوئی جملہ کاٹ دیا ہو ۔
سوال یہ ہے کہ جو لکھا جائے وہ ویسے ہی چھپ جائے تو لکھنے کا سفر کیا ہوا ؟ بہتر سے مزید بہتر کا سفر کیسے طے ہو گا ،کتھارسز کیسے ہو گا ،جملوں کی بناوٹ اور کہانی کی بنت میں بہتری کیسے آئے گی ۔
یاد آیا ہے ، لگ بھگ دس برس پرانی بات ہے ۔روزنامہ دنیا کا آغاز ہوا تو میں اس کی ایڈیٹوریل ٹیم میں گھس گیا ۔ لگ بھگ 8 افراد کی اس ٹیم میں فیض بخش مرحوم جیسے دانشور اور اسلم کولسری جیسے بڑے شاعر شامل تھے ،اسد اللہ غالب کے بیٹے عمار چودھری بھی وہیں تھے ۔یہ پوری ٹیم اس وقت کے بڑے کالم نگاروں کے کالم کئی کئی بار ایڈیٹ کرتی ،ایک ایک جملے کو 7 سے آٹھ لوگ پڑھتے تھے ، ہر ممبر اس میں کوئی نہ کوئی تبدیلی کرتا تھا ۔ اس کے بعد ایک ایسا کالم سامنے آتا جو اگلے روز اخبار میں شائع ہوتا ۔رؤف کلاسرا اس وقت بھی انتہائی. سینئر صحافی تھے ،ان کا طوطی بولتا تھا ۔ یہ روزنامہ دنیا میں ایڈیٹر انویسٹی گیشن تھے ۔ ادارے میں بھی ہم سے زیادہ سینئر اور زیادہ بااثر تھے۔۔مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ ان کا کالم کس حد تک کاٹ دیا جاتا تھا ۔ سب سے پہلے میں یہ کام کرتا پھر غلطیاں لگوا کر فیض بخش مرحوم اس کالم کا تین چار بار پوسٹ مار کرتے ، ان کے بعد اگلے ایڈیٹر کی باری آ جاتی ،اسلم کولسری الگ نشتر چلاتے ۔۔۔
میں تب ایک جذباتی اور آئیڈیلسٹ لڑکا تھا ،میں ہر بار فیض مرحوم سے لڑتا کہ آپ نے کلاسرا صاحب کے کالم کا ڈنگ” ہی نکال دیا ،اس پھوکے کالم پر بھلا کیا ریڈر شپ ملے گی ۔وہ دن بھر مجھے یہی کہتے کہ یہاں ایسے ہی چلتا ہے ۔ان بڑے کالم نگاروں کو توپ ہم بناتے ہیں ،شام میں مجھے بٹھا کر سمجھاتے کہ ہم نے ادارے کی پالیسی بھی دیکھنی ہوتی ہے ، سکینڈل میں کسی کا نام چلا جائے تو بھگتنا ہمیں پڑے گا ۔وہ وزیر کا نام کاٹ کر ایک وزیر اور محکمے کا نام کاٹ کر ایک محکمہ لکھ دیا کرتے ۔ میں روز بحث کرتا کہ اتنا بڑا سکینڈل پھوکا کر دیا ہے۔ ایک بڑے محکمے کے وزیر کا سکینڈل جنرل سکینڈل میں بدل دیا ہے ۔خیر فیض بخش مرحوم کی ٹریننگ بھی جاری تھی اور رؤف کلاسرا صاحب کا صبر بھی دیدنی تھا۔ جہاں اوریا مقبول جان ، حسن نثار اور دیگر کالم نگار کانٹ چھانٹ پر طوفان برپا کر دیتے تھے وہاں ہمارے لیے سب سے آسان حدف رؤف کلاسرا تھے جو اپنے حصہ کا کام مستقل مزاجی سے کرتے تھے لیکن کبھی ہمارے حصہ کے کام میں دخل نہیں دیا اور نہ اعتراض کیا ۔ایک بار ان کا آدھا کالم کٹ گیا ۔مجھے لگا صبح طوفان آ جائے گا لیکن کچھ بھی نہ ہوا ۔رؤف کلاسرا جانتے تھے کہ ادارے نے ایڈیٹرز کس لیے بھرتی کیے ہوئے ہیں ۔
پندرہ برس قبل ماہنامہ چاند اور آداب عرض میں لکھتا تھا تو اس کے دفتر میں نشستیں ہوتی تھیں ۔ اپنے وقت کے ان معروف رسائل کے مدید خالد بن حامد صاحب کو دیکھا جو تن تنہا دو جرائد کی ایک ایک سطر پڑھتے اور اسے ایڈیٹ کرتے تھے ۔ کئی نسودے صرف اس لیے کئی کئی ماہ پڑے رہتے کہ ایڈیٹ کیے بنا چھاپتے نہیں تھے ۔۔ماہنامہ حکایت کے مدیر عارف محمود بھی ایسا ہی کرتے ہیں ۔یہ پرانے وقتوں کے مدیر ہیں جو لکھاری کو پالش کرتے ہیں ورنہ اب ہیرے تراشنے کا یہ رواج بھی ختم ہوا جاتا ہے ۔ اب سیکھنے سکھانے کا دور ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ رسائل لکھاری کی تربیت گاہ تھے جو اب نہیں رہے ۔ شاید اسی لیے اب اچھی تحریر مشکل سے ملتی ہے ، آئڈیاز سے لے کر اسلوب تک وہی گھسا پٹا چل رہا ہے ۔ہمارے لکھاریوں کے پاس ورائٹی ختم ہو رہی ہے کیونکہ اب نہ تو ایسے ایڈیٹر کو پسند کیا جا رہا ہے جو تحریر کو ایڈیٹ کرے اور نہ ہی ایڈیٹرزسے مشورہ کر کے لکھا جا رہا ہے ۔
لکھاریوں کی خود پسندی ہمیں اچھی تحریروں سے محروم کر رہی ہے ۔آپ خود بتائیں اس صدی کی ان دو دہائیوں میں ایسا کونسا افسانہ ،، ناول یا شاعری ہے جو اگلی صدی تک زندہ رہے گی ؟؟؟آپ کے جواب میں ایک نوحہ چھپا ہے ۔اس پر غور کیجیے گا (سید بدر سعید)