seedha faisla karen social media karden

اچکزئی سے زیادہ پاورپالٹیکس کسی کو نہیں آتی، رؤف کلاسرا۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور اینکرپرسن رؤف کلاسرا دنیانیوزمیں اپنے  کالم میں لکھتے ہیں کہ۔۔محمود خان اچکزئی کی یکم مارچ کو قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے میں اس طرح متاثر نہیں ہوا جیسے 2002ء میں ہوا تھا جب انتخابات کے بعد اسمبلی اجلاس میں وہ پہلی دفعہ کھڑے ہوئے اور ایسی تقریر کی کہ پورا ہاؤس دم بخود رہ گیا۔ میں نے محمود اچکزئی کا نام تو سُن رکھا تھا لیکن انہیں سُن پہلی دفعہ رہا تھا۔ میں سیاسی رپورٹنگ شروع کر چکا تھا اوراُن تمام بڑے سیاستدانوں کو براہِ راست سننے اور ملنے کا موقع مل رہا تھا جنہیں اس سے پہلے صرف ٹی وی پر سنا تھا۔ بڑے بڑے نام تھے جو محض دُور سے بڑے لگتے تھے لیکن جوں جوں سیاسی رپورٹنگ کرنا شروع کی اور ان کے سیاسی اور ذاتی کردار سامنے آنا شروع ہوئے تو دھیرے دھیرے وہ سارا رومانس سائیڈ پر ہو گیا اور وہ مجھے عام سے لوگ لگے جو اپنی چالاکی اور ذہانت سے دوسروں کو سنہرے خواب دکھا کر یہاں پہنچ گئے تھے اور اب وہ ان کی زندگیاں بدلنے کے بجائے سب کچھ اپنے خاندان کیلئے اکٹھا کررہے تھے۔مجھے محمود اچکزئی دوسرے اسمبلی ممبران سے مختلف لگے کہ وہ پنجاب اور سندھ کے سیاستدانوں کی طرح اقتدار کے بھوکے نہیں تھے۔ انہیں اور ان کے خاندان کو پاور میں حصہ نہیں چاہیے تھا۔ وہ ایک ایسے باغی تھے جو پرومیتھیس کی طرح زمینی دیوتاؤں سے لڑنے آئے تھے۔انہیں تقریر کرتا دیکھ کر قدیم روم کی سینیٹ کے سینیٹرز یاد آ جاتے تھے۔ جس دن ظفراللہ جمالی کو وزیراعظم کا ووٹ ڈالنا تھا‘ اس دن سب ممبران اُٹھ کر گیلریوں میں چلے گئے تاکہ گنتی ہو سکے کہ وہ کس کو ووٹ دے رہے ہیں لیکن محمود اچکزئی اکیلے ہاؤس کے اندر بیٹھے رہے۔ انہوں نے بلوچستان سے ایک بلوچ وزیراعظم کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ظفر اللہ جمالی خود چل کر اُن کے پاس گئے۔ بلوچستان سے پہلا وزیراعظم بن رہا تھا‘ لیکن بلوچستان کے پختون محمود اچکزئی نے ایک بلوچ وزیراعظم کو ووٹ نہ دیا۔ ان کا جواز یہ تھا کہ جمالی مقتدرہ کے امیدوار ہیں‘ اس لیے میں انہیں ووٹ نہیں دوں گا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ محمود اچکزئی اسلام آباد کے صحافیوں کے لاڈلے تھے۔ سب انہیں ہیرو مانتے تھے‘ جو اقتدار کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ اس لیے محمود اچکزئی ہاؤس کے اندر تقریر کرنے کھڑے ہوتے تو سب صحافی دوڑے دوڑے پریس گیلری میں چلے جاتے‘ اور اگلے دن اخبارات محمود اچکزئی کی سرخیوں اور پارلیمنٹ ڈائریز سے بھرے ہوتے۔ اس دوران محمود اچکزئی نے نواز شریف سے قربت بڑھائی کیونکہ انہیں لگا کہ وہ مقتدرہ کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ نواز شریف بھی محمود اچکزئی کی تقاریر سے متاثر تھے۔اتنے متاثر کہ 2013ء میں محمود اچکزئی کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نواز شریف جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے محمود اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر بلوچستان لگا دیا۔ زرداری صاحب اس وقت صدرِ پاکستان تھے جنہوں نے اس تقرری کی منظوری دی تھی۔ تب محمود اچکزائی بارے خبریں آنے لگیں کہ ان کے رشتہ داروں میں سیٹیں اور وزارتیں بٹنے لگی ہیں۔ اس دوران محمود اچکزئی نواز شریف کے پاس مری اور رائے ونڈ چکر لگانے لگے۔ نواز شریف نے ہی بلوچوں اور پختونوں کی ڈیل کرائی کہ بلوچستان میں اڑھائی سال بلوچ اور اڑھائی سال پختون وزیراعلیٰ ہو گا۔ پہلی باری ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو دی گئی۔ محمود اچکزئی اس پاور پالیٹکس ڈیل میں شریک تھے اور اپنے خاندان کیلئے اقتدار میں حصہ بھی لے رہے تھے۔رؤف کلاسرا مزید لکھتے ہیں کہ محمود اچکزئی پانچ برس نواز شریف حکومت کے اتحادی بن کر اسمبلی میں تقریریں کرتے رہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہی گیلری جو اُن کی تقاریر سننے کیلئے بھری ہوتی تھی‘ خالی رہنے لگی۔ کسی صحافی کو دلچسپی نہ رہی کہ بلوچستان سے آیا پختون اب کیا انقلابی تقریر کرتا ہے‘ کیونکہ سب کو پتہ تھا کہ وہ نواز شریف کے اتحادی بن چکے ہیں۔ وہ اپنا ڈنک اپنے بھائی کو گورنر بلوچستان لگوا کر نکلوا چکے تھے۔ آج محمود اچکزئی نے عمران خان کو اپنی ایک تقریر سے مجبور کر دیا ہے کہ وہ انہیں صدارتی امیدوار بنا دیں‘ جیسے نواز شریف نے اُن کی تقاریر سے متاثر ہو کر 2013ء میں انہیں نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مان لیں کہ محمود اچکزئی پنجاب کے دونوں بڑے لیڈروں سے زیادہ سمجھدار اور پاور پالیٹکس کے ماہر ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان جیلیں بھی بھگت رہے ہیں اور محمود اچکزائی بغیر جیل جائے ان دونوں سے پاور میں شیئر بھی لیتے ہیں اور بلے بلے بھی کروا لیتے ہیں۔ 2002ء میں محمود اچکزائی کی نواز شریف کے حق میں کی گئی تقریر نے انہیں ہیرو بنا دیا تھا۔ اب 20سال بعد محمود اچکزئی کی ایک تقریر نے انہیں پھر ہیرو بنا دیا ہے۔ اس دفعہ ان کے آئیڈیل عمران خان ہیں۔ محمود اچکزئی سے بہتر پاکستانی سیاست‘ سیاستدانوں‘ میڈیا‘ عوام اور مقتدرہ کو کوئی نہیں جانتا۔ پاور پالیٹکس بھی کرنی ہے اور انقلابی بھی رہنا ہے۔ یہ فن صرف محمود اچکزئی کو ہی آتا ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں