تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ایک شخص نیکر پہن کر بیری سے بیر اتار رہا تھا۔ کسی نے پوچھا ’’جناب! کیا ہو رہا ہے‘‘ بولے زندگی میں دو ہی کام کیے ہیں‘ اچھا پہننا اور اچھا کھانا‘‘ ۔۔بیر کو چھوڑیے اب تو کھیرے کی اہمیت کس قدر بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ ایک مرتبہ ایک شخص نے کھیرا پھانکوں میں کاٹ کر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں بانٹ دیا اور خود آرام سے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک دوست نے کہا ’’یار تم خود کھیرا کیوں نہیں کھا رہے؟‘‘ اس نے ترت جواب دیا یہ کوئی بندے کھاتے ہیں؟
بس یہ سمجھ لیں کہ پوری قوم اس وقت نیکر میں ہے اوربیرکھانے پر مجبور ہے۔۔ مہنگائی بے پناہ ہوچکی ہے۔۔معروف بین الاقوامی جریدے ‘دی اکانومسٹ’ نے 43 ممالک میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کردیے۔ دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 43 ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے، پاکستان میں گذشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 9 فیصد رہی۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں مہنگائی کی شرح 4.3 فیصد ہے اور بھارت کا نمبر سولہواں ہے۔پچھلے تین سال میں ہونے والی مہنگائی پچھلے 70 سالوں میں ہونے والی مہنگائی سے زیادہ ہے۔ جو گھی کا پیکٹ پچھلے 70 سالوں میں 135 روپے تک مہنگا ہوا وہ پچھلے تین سالوں میں بڑھ کر 370 روپے کا ہو گیا ہے۔70 سالوں میں چینی 45 روپے فی کلو تک مہنگی ہوئی لیکن پچھلے تین سالوں میں اس کی قیمت 110 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ ملک کی تاریخ میں چینی پہلی بار 150 کا ہندسہ عبور کرگئی ہے۔ملک میں ہوشرباء مہنگائی اور چینی کی بڑھتی قیمتوں کو روکنے کیلئے حکومت کی جانب سے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں تاہم مہنگائی کا عفریت کسی صورت قابو میں آکر نہیں دے رہا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو مہنگائی کی وجہ قرار دے کر جان چھڑانا مناسب نہیں ہے۔ادارہ برائے شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آٹے کی قیمت میں انیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کوکنگ آئل کی قیمت اڑتیس فیصد بڑھی ہے۔ بجلی بائیس فیصد مہنگی جبکہ گیس سلنڈر کی قیمت میں پچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے مگر متوسط طبقے اور کم آمدن والے خاندان سب سے زیادہ مشکل کا شکار نظر آتے ہیں۔عام خاندان اپنی آمدن کا نصف سے زیادہ حصہ کھانے پینے اور بجلی، گیس کے بلوں پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ خان صاحب نے کہا تھا سکون قبر میں ملے گا۔ اب ہم یہی سوچتے ہیں کہ واقعی قبر میں ہی سکون ملے گا۔
کہتے ہیں کہ جس طرح کی رعایا ہوتی ہے ویسے حکمران اس پر مسلط کردیئے جاتے ہیں۔۔یہ سب قدرت کا خودکار نظام ہے، قدرت کا انصاف ہمیشہ میرٹ پر ہوتا ہے جہاں کسی کی پرچی بالکل نہیں چلتی۔ آج ہمارے ملک میں دنیا کی کون سی کرپشن یا جرم ہے جو نہیں ہورہا؟ ذخیرہ اندوزی عروج پر ہے، ناپ تول میں کمی کا پوچھیں مت۔۔ کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ جاری ہے۔ دونمبری، رشوت ستانی عام ہے۔ جس کا جہاں ’’دا‘‘ لگتا ہے وہ باز نہیں آتا۔ ہر بندہ شارٹ کٹ کے چکر میں ہے، سب کو گھر بیٹھے پیسہ چاہیئے ،چاہے اس کا حصول کسی بھی طریقے سے ہو۔۔ لیکن اس کے باوجود یہ قوم اتنی خوش باش ہے کہ زیادہ گرمی اور زیادہ سردی میں ان سے کام نہیں ہوتا اورجب موسم خوشگوار ہوتو ویسے ہی کام کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔ایک دفعہ ایک دیہاتی نے لاٹری میں ایک فلم کا ٹکٹ جیتا۔ فلم دیکھنے کے بعد اس نے اپنے دوست کو وہ فلم دکھانے کی دعوت دی۔ فلم کے دوران ایک سین میں جب ویلن ہیرو کے گھر کی طرف جا رہا تھا تو دیہاتی نے اپنے دوست سے کہا کہ میں تم سے ہزار روپے کی شرط لگاتا ہوں کہ ویلن ہیرو کے گھر کے دروازے سے واپس چلا جائے گا۔ اس کے دوست نے کہا کہ تم یہ فلم پہلے دیکھ چکے ہو، یقینا ایسا ہی ہو گا۔ لیکن دیہاتی کے بار بار ضد کرنے پر اس کے دوست نے اس سے شرط لگا لی۔ سین میں آگے چل کر ویلن ہیرو کے گھر میں دروازہ توڑ کر داخل ہوتا ہے اور اسے ہیرو سے خوب مار بھی پڑتی ہے۔ اس پر وہ دیہاتی مایوس ہو کر اپنے دوست سے کہتا ہے کہ میں نے تو سوچا تھا کہ ایک دفعہ پٹنے کے بعد ویلن دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔۔باباجی سے تو آپ سب لوگ اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔۔وہ فرماتے ہیں۔۔ خربوزے کی آنکھیں ہوتی ہیں کیا؟ نہیں نا؟پھر کیوں کہتے ہیں خربوزہ خربوزے کو دیکھ کے رنگ پکڑتا ہے۔۔باباجی کا ہی فرمان عالی شان ہے۔۔کسی کو اْدھار دیں تو یادداشت بہتر رکھنے والی ادویات بھی ساتھ ہی دے دیا کریں۔۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔ جب دو نفسیاتی لوگ خوش قسمتی سے ایک دوسرے کے دوست بھی ہوں تو ان کے درمیان بیٹھا تیسرا نارمل شخص پاگل ہوتا ہے۔۔باباجی کا ہی اقوال زریں ہے کہ۔۔نکلا ہوا پیٹ تو واپس آ جاتا۔۔۔لیکن نکلے ہوئے دانت کبھی واپس نہیں آئے، اس لیے ہمیشہ اپنی زبان کو احتیاط سے استعمال کیجئے۔ ۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۔۔لوگوں کو عزت دیں لیکن ساری ہی نہ دے دیں۔۔۔!!
معروف ناول نگار ابن صفی بہت عمدہ شاعر بھی تھے۔ ایک بار ان سے کسی نے کہا۔۔آپ اسٹینلے گارڈنر کی طرح لکھا کریں۔۔ ابن صفی نے کہا۔۔آپ اسٹینلے گارڈنر کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیتے کہ وہ میری طرح لکھا کرے۔۔کوئٹہ میں احمد ندیم قاسمی کی زیرِ صدارت مشاعرہ ہو رہا تھا۔ قاسمی صاحب کے ہر شعر کو سوچے سمجھے بغیر ایک شخص باربار داد دے رہا تھا کہ ’’سبحان اللہ، سبحان اللہ ماشا اللہ‘‘۔ قاسمی صاحب کی طبیعت پر بات گراں گزری تو بولے ’’میاں! اتنے زور زور سے اللہ کو یاد کر رہے ہو، اللہ نے دھیرے سے بھی یاد کر لیا نا تو یہ مشاعرہ آپ کا آخری ہو جائے گا‘‘۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ سیاستدانوں اور آئین کی آنکھ مچولی کا اگر ہم جائزہ لیں تو نتیجہ میں ہمیشہ مارشل لاء ہی بر آمد ہوا ہے۔ہر مارشل لاء کے بعد اگر جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے تو آئین میں ترامیم سے، سیاستدانوں نے جمہوریت کے چہرے کو مسخ کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔جمہوری روح پر یہ پیوند کاریاں اتنی لگیں کہ اب پیاز کے چھلکے کی طرح اوپر سے اتار کر جمہوریت کو دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔اب تو جمہوریت عام آدمی کے لئے ’’لارا‘‘ متوسط کے لئے ’’وعدہ‘‘ ا ور خاص کے لئے’’ فائدہ ہی فائدہ‘‘ ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔