تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔
’’دیوسائی سے اگر آپ بھارتی سرحد کی طرف جانا شروع کریں تو راستے میں ایک وادی آتی ہے جس کا نام وادی گُلتری ہے ، اب تو خیر وہاں تک پہنچنے کے لیے کچی پکی سڑک موجود ہے مگر جس وقت کی بات میں بتا رہاہوں تب یہاں صرف پیدل ہی پہنچا جا سکتا تھا۔ پہلے آپ اسکردو سے چِلم تک جاتے تھےجوضلع استور کاایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور پھر وہاں سے تقریباً بارہ دن پیدل سفر کرکے وادی گُلتری پہنچتے تھے ۔بارہ دن تک مسلسل پیدل چلنے کے بعد جب میں پہلی مرتبہ اُس وادی میں پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ کوئی اور ہی دنیا ہے ۔چاروں طرف بلند و بالا پہاڑ تھے اور درمیان میں چھوٹا سا گاؤں۔ یہاں سال کے آٹھ مہینے برف پڑتی تھی اور باقی چار ماہ تھوڑی بہت برف پگھلتی تھی ، اِس کی وجہ وادی کا حدود اربع تھا، یہ وادی مستطیل شکل میں تھی جہاں سورج کی روشنی بمشکل ہی پہنچ پاتی تھی ۔چونکہ میری یہا ں تعیناتی ہوئی تھی اِس لیے مجھےمقامی لوگوں سے ملنے ملانے کا موقع ملا، انہی میں ایک ستّراسّی سال کا بابا بھی شامل تھا۔ یہ بابا جی کبھی وادی گُلتری سے باہر نہیں گئے تھےسو انہیں بالکل اندازہ نہیں تھاکہ اِس وادی کے باہر کی دنیا کیسی ہے۔میں نے بابا جی سے پوچھا کہ مرنے کے بعد اگر آپ جنت میں گئے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ جنت کیسی ہوگی ؟ اِس پر بابا جی نے جواب دیا کہ’’ جنت میں آگ جل رہی ہوگی ،اورمیں اُس آگ کے پاس بیٹھ کر ہاتھ تاپ رہا ہوں گا۔اِس پر میں نے بابا جی سے پوچھا کہ پھر دوزخ کیسی ہوگی ، باباجی نے جواب دیاکہ دوزخ میں تو چاروں طرف برف ہی برف ہوگی جہاں لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں گے۔‘‘یہ واقعہ مجھے شاعر اور ادیب میجر شہزاد نیر نے سنایا تھا۔میجر صاحب کا بیان یہاںختم ہوا۔
گزشتہ کئی دنوں سے ملک میں گرمی کی جو لہر ہےاُس نے ہر بندے کو ہلکان کر دیاہے، رہی سہی کسر لوڈ شیڈنگ نے پوری کر دی ہے ،ایسے میں ایک دل جلے نے’پوسٹ‘ بھیجی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ ائیر کنڈیشنرکے موجد وِلس کیرئر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔‘‘ ساتھ میں ولس کیرئر کی تصویر ہے۔میں نے یہ پوسٹ اپنے ایک کٹر قسم کے مذہبی دوست کو ’فارورڈ‘کر دی ، جواب میں اُس نے مجھے لال بھبوکے چہرے والی ’ایموجی‘ بھیجی جس کے نیچے لاحول ولا قوۃ لکھا تھا ۔اِس کے بعد وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے ، ہماری بحث شروع ہوگئی ، اُس کا موقف تھا کہ کوئی بھی غیر مسلم چاہے کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو جہنم میں جائے گا اور مسلمان چاہے کتنا ہی بد کیوں نہ ہو بالآخر جنت میں جائے گا۔اپنےموقف کی تائید میں اُس نے قرآن و حدیث کے کچھ حوالےدیے جن کا لب لباب، اُس کے مطابق ، یہی تھاکہ کافر ہمیشہ دوزخ کی آگ میں جلے گا جبکہ مسلمان اپنے گناہوں کی سزا پا کر جنت میں جائے گا۔لیکن ظاہر ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں ۔ صنعتی انقلاب کے بعد کا انسان پرانے زمانے کے انسان سے بالکل مختلف ہے ، اسے مذہب کی قدیم تعبیر سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا ، سائنس کی چکا چوند نے اسے بے حد متاثر کیا ہے ، اور یہ سائنس ائیر کنڈیشنر سے بھی کہیں آگے نکل چکی ہے، اب یہ کلوننگ، کرسپر اور مصنوعی ذہانت کی دنیامیں داخل ہوچکی ہے، یہ وہ موضوعات ہیں جن کے بارے میں نہ صرف مذہب خاموش ہے بلکہ جدید فلسفی بھی الجھن کا شکار ہیںاور کوئی دو ٹوک اور واضح موقف اپنانے میں ناکام ہیں ۔ایسے میں اگر کوئی مولانا صاحب ائیر کنڈیشنڈ مسجد میں بیٹھ کر عیدکا خطبہ دیتے ہیں اورکفار کو جہنم واصل کرنے کی نوید سناتے ہیں تو انہیں موقع پر تو کوئی نہیں ٹوکے گا مگردل میں اُن کی منطق سےشاید ہی کوئی مطمئن ہو سکے!
اِس مرحلے پر کچھ لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چاہے پوری دنیا ایک طرف ہوجائے ہمارے لیے وہی حرف آخر ہے جو خدا کی کتاب میں لکھا ہے ۔بے شک یہ بات درست ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کی کتاب کی جو تشریح وہ کریں گے وہی حرف آخر ہوگی ۔سر سید احمد خان جیسے جید عالم نے قرآن کی تعبیر کا یہ سنہری اصول بیان کیا تھا کہ قرآن کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ خدا کی پوری اسکیم کو سمجھا جائے ، اگر ہم ایک ایک آیت کی من مانی تشریح کرنے بیٹھ گئے تو آیات کی تطبیق نہیں کر پائیں گے۔مثلاً جنت کے تصور کو ہی لے لیں ، اگر ہم قرآن میں بیان کیے ہوئے تصور کو لے کر چلیں گے تو پھر وادی گُلتری کے بابے کے لیے وہ جنت اُلٹا جہنم بن جائے گی جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ خدا کی اسکیم کے خلاف ہوگا، اُس بابے کو وہی جنت ملے گی جس کی اُس نے دنیا میں خواہش کی ہوگی۔اسی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام غیر مسلم بلا تخصیص جہنم میں جائیں گے کیونکہ اگر اُن میں کوئی ایسا شخص ہوا جس نے ائیر کنڈیشنر ایجاد کرکے پوری انسانیت کا بھلا کیا ہوگاتو ایسا نیک بندہ بھلاہٹلر جیسے کروڑوں لوگوں کے قاتل کے ساتھ جہنم میں کیوں کرجلے گا!دین کا ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ یہ کسی ایسے خدا کی اسکیم ہر گز نہیں ہوسکتی جس نے انسانوں کے ساتھ عدل و انصاف اور رحم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے ۔اِن تعبیروں اور تشریحات سے قطع نظر،مسلمانوں کو اِس سوچ نے بے حد نقصان پہنچایا ہے کہ اللہ انہیں بالآخر معاف کرکے جنت میں بھیج دے گا۔کیا وہ مسلمان جنہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کاناحق خون بہایا، معاذ اللہ جنت میں اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن کے ساتھ اللہ قربت رکھتا ہے ؟ ہماری عقل محدود ہے ، ہم اللہ کی حکمت کو نہیں جان سکتے مگر جو علم اور سمجھ بوجھ اُس نے ہمیں دی ہے ، اُس کی روشنی میں یہ فیصلہ ضرور کر سکتے ہیں کہ خدا کے گرینڈ ڈیزائن میں کون سی بات منطقی ہے اور کون سی غیر منطقی۔دنیا کے تمام علمائے دین جب مذہب کی تشریح کرتے ہیں تو اسے منطق کے اصولوں کے مطابق ہی بیان کرتے ہیں ،اسی لیے انہیں مدرسوں میں منطق کا مضمون باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے ۔اب منطق کا تقاضا تو یہی ہے کہ ائیر کنڈیشنر کا موجد جنت میں جائے (بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہوا ہو)اور وادی گُلتری کے بابے کو جنت میں آگ ملے،مذہب کی روح بھی یہی ہے اور خدا کے عدل کا تقاضا بھی۔باقی جو مزاجِ یار میں آئے۔۔(بشکریہ جنگ)