بلاگ: سید بدرسعید
ایک صحافی علی سجاد شاہ اچانک شہر اقتدار سے غائب ہو جاتا ہے ۔ کچھ کہتے ہیں اٹھا لیا گیا ، کچھ کہتے ہیں فراڈ کر کے بھاگ گیا ۔ وہ ایک فلم بھی بنا رہا تھا سو کچھ نے کہا فلم کا پراجیکٹ ناکام ہو گیا سو منہ چھپائے بیٹھا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ابو علیہ کے نام سے بھی متحرک تھا ، ایک دو مقبول سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی لکھتا تھا ، کسی قدر باغیانہ یا دانشورانہ رائے بھی رکھتا تھا ۔ بہرحال ابو علیہ یا سجاد شاہ گزشتہ برس کے آخر میں اچانک منظر نامے سے غائب ہو گیا ۔ اس اتوار اس کی فیس بک آئی ڈی پر اچانک سے اس کی ایک تصویر اپ لوڈ ہوئی۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا لیکن میرے ساتھ بیٹھے ایک صحافی نے اس روز اچانک فیس بک آن کی تو وہ تصویر سامنے آ گئی ۔ علی سجاد شاہ کا حلیہ یکسر بدل چکا تھا ۔ تصویر کے ساتھ لکھا تھا کہ کراچی میں ریلیز کیا گیا ہوں ، رات اسلام آباد اپنے گھر پہنچا ہوں ۔ کچھ اور باتیں بھی لکھی ہوئی تھیں ۔ پھر اس نے اپنے پاسپورٹ کے صفحات کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کی کہ جو لوگ کہتے ہیں ملک سے باہر چلا گیا تھا وہ دیکھ لیں کسی ملک کا ٹھپہ نہیں ہے ، پھر ایک پوسٹ میں اس نے بتایا کہ فلم کے لئے اس کے ساتھ ساتھ کس کس نے کتنے کتنے کی انویسٹمنٹ کی تھی اور ساتھ لکھا کہ جو کہتے تھے فراڈ کر کے بھاگا وہ ان میں سے کوئی ایک بندہ سامنے لائیں جو یہی الزام لگاتا ہو ، اور فلم جلد مکمل ہو گی ۔ میں نہین جانتا علی سجاد شاہ کہاں تھا ، وہ فرار ہوا ، کہین بھاگا یا اٹھا لیا گیا تھا ۔ میری اس کے ساتھ کوئی دوستی یا تعلق بھی نہیں کہ اس کے جھوٹ سچ کا اندازہ لگا سکوں لیکن میں اس کی واپسی کے بعد سوشل میڈیا پر چلنے والی رائے سے خوفزدہ ہو چکا ہوں ۔ کئی صحافیوں نے اس کی پہلے اور اب والی تصاویر شیئر کی تھیں ، ہر جگہ ایک بحث شروع ہوئی اور اس بحث نے مجھے بھی بہت سے فیصلے کرنے میں مدد دی ہے ۔ لوگ اب بھی اس پر الزام لگا رہے تھے ۔ کوئی کہتا کہ اتنے عرصہ بندہ گھر بیٹھا رہے تب بھی کمزور ہو جاتا ہے ۔ کوئی کہتا یہ ڈرامہ ہے ، کوئی کہتا اسے کسی دشمن ملک کی ایجنسی نے اغوا کیا ہو گا تاکہ پاکستان کو بدنام کرے ، غرض ایسی بہت سی باتیں ہوئیں جن سے مجھے اندازہ ہوا کہ اب کم از کم اس ملک کو سچ یا حق کی تلاش نہیں رہی ۔ اب یہاں سب کا اپنا اپنا ایک نظریہ ہے جس کے علاوہ کچھ اور قابل قبول نہیں ۔ اب یہاں درد دل اور ہمدردی کہیں نہیں ہے ۔ آج میں یا آپ مارے جائیں یا کسی حادثہ کا شکار ہو جائیں تو شاید اگلے روز کسی کو یہ جاننے میں دلچسپی نہیں ہو گی کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے ۔ ہم نے سچ بولا تھا یا نہیں ۔ ہمیں کس لڑائی کا سامنا تھا ؟ ہم نے کس کی خاطر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا تھا ۔ سر! اس قوم کو اب سچ نہیں چاہئے ۔ یہاں ملک کے لئے کسی لڑائی کی ضرورت نہیں رہی ۔ ہاں ! فرق پڑتا تو شاید اس صحافی کے گھر والوں کو پڑتا ۔ فرق پڑے گا تو آپ کے یا میرے گھر والوں کو پڑے گا ۔ ایک شخص لگ بھگ نو ماہ بعد منظر عام پر آتا ہے لیکن کوئی اسے سننے پر آمادہ نہیں ہے ۔ کم از کم سن تو لیں ، جو کہتا ہے اسے پرکھنے کی کوشش تو کرتے ؟ ہمدردی کے دو بول ، محتاط رہنے ، غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوئی نصیحت ہی سہی ۔ مجھے اتنا معلوم ہوا ہے کہ جب سجاد شاہ غائب نہیں ہوا تھا تب اس کی آنے والی فلم عارفہ کی دھوم تھی ، آم کھلانے والے اینکر نے اس کے خلاف پروگرام بھی کیا اور پھر معذرت بھی کر لی۔ بہرحال جو بھی ہوا وہ تاریخ کا ایک حصہ ہے لیکن دکھ ان لوگوں پر ہوا جنہوں نے جھوٹ سچ پرکھنے کی کسی کوشش کے بغیر ہی الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔ ہو سکتا ہے وہ جھوٹ بول رہا ہو ، ممکن ہے اس نے ڈس انفارمیشن پھیلائی ہو لیکن کم از کم الزام دھرنے سے پہلے چیک تو کر لیتے۔ ہم اس قدر بے حس کیسے ہو سکتے ہیں ؟ میں مان لیتا ہوں وہ خود گوشہ نشین ہوا تھا ۔ اب یہ بتائیں کیا آپ بھی اس طرح 9 ماہ سب سے کٹ کر کہیں چھپ کر کسی ایک کمرے میں بیٹھ سکتے ہیں ؟ ملازمت اور رشتے داروں سمیت سب سے کٹ کر صرف نو ماہ ؟ میرے خیال میں مجھے بھی کسی اچھے لمحے میں دوستوں سے معذرت کر لینی چاہئے ۔ اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچنا حماقت نہیں تو اور کیا ہو گی ؟ ہم سب کو اپنااپنا جھوٹ اور سچ مبارک ہو ۔ ہم گھر بیٹھے ایک دوسرے سے زیادہ صاحب علم ہیں (سید بدر سعید)