abasar alam hamla case mulzimaan par fard jurm aaid na hosaki

ابصارعالم ویلن یا۔۔۔؟؟

تحریر: ناصر جمال۔۔

قارئین! آپ یقین کریں۔ عبداللہ ابن اُبئی اگر اس زمانے میں آجائے تو صحافتی منافقین کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا۔ وہ انھیں دونوں ہاتھ جوڑ کر مُرشد کہتا اورقبر میں یہ کہتا ہوا واپس چلا جاتا کہ ’’ کاش تم لوگ چودہ سو سال پہلے پیدا ہوئے ہوتےتو، میں بھی آج ہیرو ہوتا۔‘‘

ابصار عالم کو کسی نامعلوم شخص نے گولی مار دی۔ گولی مبینہ طورپر پیٹ میں ماری گئی۔ ایک شخص صرف ایک گولی چلا کر بھاگ گیا۔ اس کے بعد گاڑی میں موصوف لگی گولی کے ساتھ ویڈیو بنواتے رہے۔ میں نے اسی وقت ٹویٹ کیا اور فیس بُک پر پیغام بھی چھوڑا۔

ابصار عالم پر حملہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

مگر یہ شخص آزادی اظہاررائےاور میڈیا کا غدار ہے۔ اس نے بطور چیئرمین پیمرا، میڈیا کی پشت پر چُھرا گھومپا۔ یہ صحافی کی بجائے مریم نواز کا ذاتی ملازم بن گیا۔ قائمہ کمیٹیوں اور حکومتی پارٹی کے اجلاس میں، موصوف میڈیا کو نکیل ڈالنے کے مشورے دیا کرتے تھے۔ مریم نواز کے ایماء پر اس وقت متنازعہ ترین قانون سازی بھی موصوف ہی کروانا چاہتے تھے۔

اس پر حمایت اور مخالفت میں کافی ردعمل آیا۔ کسی نے ابصار عالم کی حمایت نہیں کی۔ (ن) لیگ والے مریم نواز سے منسوب بات کو بکواس کہہ رہے تھے۔ (ن) لیگ کے ایک کارکن نے کہا کہ ہماری حکومت آنے دیں۔ ہم گارنٹی دیتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

یہ کارکن ، لوگ، بڑے ہی جذباتی اور اخلاص کے مارتے ہوتے ہیں۔یہ میاں صاحب اور ان کے خاندان کو نہیں جانتے۔ انہوں نے تو اپنے مرشد سے کی بات، وعدے اور معاہدے کی پاسداری نہیں کی تھی۔ بریگیڈیئر نیاز مرحوم بھی، کچھ ایسے ہی گلے کرتے چلے گئے۔ سب چھوڑیں! حُضور عمرانی دھرنے سے نجات کے لئے، میاں صاحب، کیسے پارلیمنٹ ، پارلیمنٹ کی تسبیح کرتے دکھائی دیئے۔ اعتزاز احسن نے مشہور زمانہ لطیفہ سنا کر کہا تھا کہ میں صدقے عمران اور مولانا طاہر القادری کے، جنہوں نے میاں صاحب کو پارلیمنٹ یاد کروا دی۔ یہ میاں صاحب تھے، جنہوں نے اعتزاز احسن سے چوہدری نثار کو خوب جوتے لگوائے۔ خواجہ آصف، سعد رفیق، پرویز رشید، احسن اقبال جیسے کتنے ہی تھے۔ جو اعتزاز احسن کو کہہ رہے تھے۔ ابھی کم جوتے لگائے ہیں۔ اور لگانے تھے۔ پھر وہ دن بھی آیا۔ میاں صاحب، پارلیمنٹ کو بھول گئے اور اعتزاز احسن نے کہا کہ ’’ہم نے میاں صاحب کی حمایت اور اعتبار کرکے، بہت بڑی غلطی کی۔‘‘ خیر پیپلز پارٹی میں کونسے مومن بیٹھے ہیں۔ جو دوسری بار نہ ڈسے جاتے۔ وہ بھی تو یہی کچھ کرتے ہیں۔یقین نہ آئے تو نوابزادہ نصراللہ کے بچوں اور مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھ لیں۔ ویسے مولانا بھی دوسری بار ڈسے گئے ہیں۔ 2002ء میں وزارت عظمیٰ کے انتخابات میں، بے نظیر نے انھیں دُھوکا دیا اور پی۔ ڈی۔ ایم۔ میں آصف زرداری نے ۔۔۔۔۔

تو (ن) لیگ کے کارکن لکھ رکھیں۔۔۔۔ وہ تمام عُمر استعمال ہوئے ہیں۔ اور وہ مرتے دم تک استعمال ہوتے رہیں گے۔ یہی اُن کے نصیب ہیں۔ کیونکہ اس ملک میں سیاست کسی انقلاب کے لئے نہیں۔ ’’ذاتی انقلاب‘‘ کے لئے ہوتی ہے۔ گھر، رشتہ داروں ذاتی دوستوں اور ’’مددگارہاتھوں‘‘ کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ مہرے تو ہوتےہی پٹنے کے لئے ہیں۔

یقین نہ آئے تو اُن مرحوم کارکنوں کی روح سے پوچھ لیں۔ جنہوں نے لاہور میں بھٹو کے لئے’’خود سوزی‘‘ کا ڈرامہ کیا تھا۔ جسے کہا جاتا ہے کہ پرویز رشید نے حقیقی بنا دیا۔ وہ آگ بجھانے کی بجائے موقع سے کمبل لیکر غائب ہوگئے۔ اگر گواہ چاہئے تو نانگا مست سے پوچھ لیں۔

خیر بات دوسری طرف جانکلی۔

ابصار عالم کے مسئلے پر ایک مخصوص کارٹل نے بھرپورطوفان برپا کرنے کیلئے ٹویٹر اور فیس بک کا محاذ سنبھال لیا۔ وہی مخصوص چہرے، بغض بھرے دل، پراپیگنڈہ سے بھری زبانیں اور مفادات کے اسیر قلم۔ موقف اختیار کیا کہ ابصار عالم نے دو تین روز پہلے ٹویٹ کیا تھا کہ خادم رضوی کے دھرنے پر جب میں نے،بطور چیئرمین پیمرا 92نیوزکی نشریات بند کی تھیں تو، اس وقت جنرل فیصد حمید (وہ غالباً ڈی۔ جی (سی) ہونگے) نے انھیں فون کرکے92کی نشریات کھولنے کا کہا تھا۔ انہوں نے انکار کردیا۔ ابصار عالم کے حمایتی کہتے ہیں۔ اس ٹویٹ کی وجہ سے ابصار عالم کو گولی لگی ہے۔

احمد نورانی نے ٹویٹر پر اپنے ذاتی بغض کی انتہا کردی۔ لکھا کہ جنرل فیض حمید جیسے غلیظ کردار، پاکستانیوں پرحملے کروا کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔

دوہزار سولہ میں شروع کی گئی مہم جوئی سے اب تک فیض حمید پاکستانی معیشت کو کم از کم اسی ہزار ارب کا نقصان پہنچا چکا ہے۔صرف براڈ شیٹ اسکینڈل میں عدالت سے سچ چھپانے پر قوم کوکئی ملین ڈالر ادا کرنے پڑے۔

اس ٹویٹ کے بعد حاجی صاحب کامجھے فون آیا۔ وہ بہت غُصے میں تھے۔ کہنے لگے میں جنرل فیض حمید کو میجر فیض حمید کے زمانے سے جانتا ہوں۔ وہ اس طرح کی سوچ رکھنے والا آدمی نہیں ہے۔ اُن سے سو باتوں پر اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ مگر کسی کو ایسے ’’ٹریٹ‘‘ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ساتھ ہی مجھے کہا کہ ابصار عالم کی تو ہم جنس پرستی کی این۔ جی۔ او۔ بھی تو ہے نا، اور ہنس کرکہا کہ،جس طرح کی ’’زنانی گولی‘‘ لگی ہے۔ وہ کسی پروفیشنل کی نہیں، البتہ کسی ہم جنس پرست کی لگتی ہے۔

میں نے آج پھر ٹویٹ کی اور فیس بُک پر لکھا کہ

افسوس!

ولن آج ہیرو بن رہا ہے۔

ابصار عالم مجاہد صحافت نہیں، مجاہد مریم نواز ہے۔ صحافتی تنظیموں اور صحافتی لیڈروں کو چاہئے کہ وہ جائیں اور جاکر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات اور سپریم کورٹ کا ریکارڈ کھنگال لیں۔ سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے ان کی میڈیا مخالف قوانین پر پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے اندر مخالفت کی تھی۔ جو بیڑیاں میڈیا کے پائوں میں آج پڑی ہیں اس نابغہ روزگار آئیڈیاکےموجدابصارعالم ہی ہیں۔ ایک مخصوص صحافتی کارٹل،اپنی مجبوریوں اور مفادات کے تحت انھیں ہیروبناناچاہتا ہے۔ مگر تاریخی حقائق چھپائے نہیں جاسکتے۔

’’ایک میتلا نامی اینکر نے پہلے ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی گولی مارنے کی سوچ پر افسوس ہے۔

میں نے جواب لکھا کہ کبھی کھوپڑی بھی استعمال کر لیا کریں۔ شعر کو پڑھ لیتے۔ مگر یہاں بدذوقی کی انتہا ہے۔‘‘

قارئین!!!

جہاں تک ابصار عالم کو گولی لگنے کی بات ہے۔ تو اسے کسی طورپر بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ گولی کسی ہم جنس پرست نے ماری ہو یا کسی ٹارگٹ والے نے یا ’’فرینڈلی فائر‘‘ ہوا ہو۔ اس میں تو کوئی دورائے نہیں ہیں۔

مجھے اصل افسوس اس بات پر ہورہا ہے کہ ابصار عالم کو ’’صحافت کا غازی‘‘ بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔انہیں سینئر صحافی لکھا جارہاہے۔حالانکہ وہ (ن)لیگ کے ’’ذاتی ورکر‘‘ ہیں۔ چلیں! (ن) لیگ کی تو سمجھ آرہی ہے۔ ان کا تو اپنا ’’مہرہ‘‘ ہے۔ مگر یہ صحافتی تنظیمیں اور صحافتی لیڈر، کس چکر میں نمبر بنا رہے ہیں۔ ان کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے۔

آپ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔ آپ کے اپنے ’’دامن‘‘ میں کیا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس عزیزی عاطف شیرازی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک صحافتی تنظیم کے پریس ریلیز پر ہے۔ اتنا بہترین انسان بھی نمک کی کان میں جاکر نمک ہوگیا۔

عاطف شیرازی مجھے کہا کرتا تھا کہ شکر کریں!!! کہ ہم واقعہ کربلا کے وقت نہیں تھے۔ پتہ نہیں ہم بھی کہیں دوسرے کیمپ میں نہ ہوتے۔ ابصار عالم کو ’’صحافتی غازی‘‘ بنانے کے حوالے سے پریس ریلیز، نے شاید کیمپ کا تعین کردیا ہے۔

ایک شخص جس کی میڈیا دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جس نے کنٹرولڈ میڈیا کی سوچ، سیاست دانوں کے سپرد کی۔ پھر وہ میڈیا کو ’’کینچوا‘‘ بنانے کی عملی جدوجہد کا بانی ٹھہرا۔ جس نے ایک عہدے اور مراعات کیلئے اپنے بھائیوں اور برادری کے پشت میں چھرا گھونپ دیا۔ جو دور جدید کا میر صادق اور میر جعفر ہے۔ آج ’’مفاد پرست اور منافق صحافیوں‘‘ کے جتھے نے اُسی غدار کو کاندھے پر اٹھا لیا ہے۔

کچھ تو شرم اور حیا ہوتی ہے

محترم فاروق فیصل خان صاحب نے میرے سوشل میڈیا پر تبصرے پر لکھا کہ ’’لمبی لائن ہے

چند روز پہلے ضیاء شاہد کا انتقال ہوا۔ میں نے لکھا کہ وہ مقروض مرا ہے۔ کارکنوں کے کروڑوں روپے ادا کرے۔ رئوف اور اویس رئوف بھی پیسے ادا کریں۔ کیاانہوں نے مرنا نہیں ہے۔

پہلی بار بڑی تعداد میں لوگوں نے منافقت کی بجائے،اسے سپورٹ کیا۔ مگر منافقین کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔

ایک ایسا منافق بھی تھا۔ جس کی بیٹی کی فیس ادا نہ ہونے پر پنجاب کالج (یونیورسٹی) نے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دینے سے انکارکر دیا۔ میں نے ذاتی طور پر کسی سیٹھ کی منت سماجت کرکے60 ہزار روپے فیس کا انتظام کیا۔ وہ دھاڑیں مار، مار کر رو رہا تھا۔ کہتا تھا کہ میرے لئے ڈوب مرنے کامقام ہے۔ میں اپنی بیٹی کا سامنا نہیں کرپارہا۔اُس سے کیسے نظریں ملائوں۔ وہ اُس وقت ’’خبریں‘‘ کا ہی ملازم تھا۔ وہ بھی اچھے عہدے پر۔ پھر میری پوسٹ کی اس نے فیس بک انتظامیہ کو رپورٹ کی کہ یہ نفرت انگیز ہے۔ اس سے بڑی اور کیا منافقت ہوگی۔ انھیں تو اپنے بچوں کے آنسو بھی نظر نہیں آتے۔ بچوں کی محرومیوں کو پتہ نہیں یہ کیسے بھول جاتے ہیں۔ خون پسینے کی کمائی سے کیسے دست بردار ہوجاتے ہیں۔

چلیں کوئی غریب مرا ہو، معاف کیا جاسکتا ہے۔ جن کے اربوں اور کھربوں کے اثاثے ہیں۔ انھیں کس چیز کی معافی۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج میڈیا انڈسٹری کے بحران کی سب سے بڑی وجہ یہی ’’ابصاری سوچ‘‘ نہیں ہے۔ جو ’’عمرانی سوچ‘‘ تک آپہنچی ہے۔

یہی سوچ میڈیا میں اسی فیصد لوگوں کا روزگار کھا گئی ہے۔ باقی بیس فیصد کی اکثریت، آج دب کر، رسوا ہوکر نوکری کرنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ مارکیٹ میں نوکری ہی نہیں ہے۔ وہ بے روزگاری سے خوفزدہ ، تنخواہوں میں کٹوتی کے باوجود چپ چاپ نوکری کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ کئی، کئی ماہ کی تنخواہ، نیچے لگنے کے باوجودکام کررہے ہیں۔ضیاء شاہد کے پسر امتنان شاہد تو کہتے ہیں کہ میڈیا بطور خاص پرنٹ انڈسٹری میں کوئی بھی تنخواہ نہیں دیتا میں کیوں دوں۔

آخر میں اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہوں کہ ’’جس نے بھی آپ کو میڈیا ’’سدھانے‘‘ کا مشورہ دیا تھا۔ مکمل غلط ہے۔ جن لوگوں سے آپ تنگ تھے۔ وہ بدستور موجود اور خوشحال ہیں۔ اس پورے عمل میں غیر جانبدار اور بونیفائیڈ صحافی برباد ہوگئے ہیں۔ ابصار عالموں ، احمد نورانیوں، اعزاز سیدوں، چیموں کو کیا فرق پڑاہے۔ کچھ بھی نہیں۔ برباد تو وہ ہوئے ہیں۔ جو غیر جانبدار اور ریاست کے ساتھ تھے۔ ریاست، صحافت اور شرافت کے دشمن دندناتے پھررہے ہیں۔اور پروفیشنل صحافی بے یارو مددگار ہیں۔۔۔ (ناصر جمال)

(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔۔

ارطغرل کا پاکستانی ورژن بھی تیار۔۔
social media marketing
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں