خصوصی رپورٹ۔۔
پاکستان سپر لیگ شروع ہوگیا، ایسے میں سینئر صحافی اور سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے اپنے بیٹے کے ساتھ پیش آنے والا ایسا واقعہ سنا دیا جس سے ہر صاحب اولاد حیران پریشان رہ جائے گا، وہ بتاتے ہیں کہ سابق آرمی چیف کے بچے بھی سٹیڈیم میں میچ دیکھنے آرہے تھے اور ان کی آمد سے قبل عمر ابصار نے اپنے کزن کو کال کی جس پر اسے متعلقہ اداروں نےا ٹھا لیا اور پھر تشدد کا نشانہ بناتے رہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا علاج اور تھیراپی آج تیسرے سال بھی جاری ہے۔ پاکستان 24 کے مطابق ابصار عالم نے لکھا کہ “کُچھ ہی ہفتوں پہلے ایک وقت تھا کہ وطنِ عزیز میں پاک فوج کے سپہ سالار کے گھر سے نکلنے سے کئی گھنٹے پہلے شاہراہیں بند کردی جاتی تھیں، مارچ 2020 میں میرا بیٹا، مُحّمد عُمر ابصار، اپنا پہلا کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے پنڈی سٹیڈیم کے سامنے مری روڈ پر اپنے کزنز کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ پہنچیں تو سب مل کر اکٹھے پی ایس ایل کا میچ دیکھنے سٹیڈیم میں داخل ہو سکیں۔ وہیں سے اُس نے فون پر اپنے کزنز کو اپنی لوکیشن بتائی کہ وہ کہاں کھڑا ہے تاکہ وہ اُس کو آسانی سے ڈھونڈ سکیں۔
یہ فون کال کرنا اُس کا جُرم ٹھہری کیونکہ اُسی دن اس وقت کے سپہ سالار اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے بچوں کے ساتھ میچ دیکھنے آنا تھا۔مری روڈ پر چہار اطراف پاک فوج کے بہادر اور پنجاب پولیس کے گھبرو جوان ہزاروں کی تعداد میں سویلین کپڑوں اور یونیفارم میں ڈیوٹی پر موجود تھے۔ چھتوں پر خودکار رائفلوں کے ساتھ شارپ شُوٹرز کالے چشمے لگائے مشکوک افراد کو ڈھونڈ رہے تھے۔
ان فرض شناس اہلکاروں نے جب ایک بیس سالہ لڑکے کو فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی۔ فوج اور پولیس کے چاک و چوبند جوانوں نے فوراً اُس کو گھیر لیا، اُس کے ہاتھ سے فون چھین لیا اور اُسے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئے۔پوچھا کہ وہ کون ہے تو اُس نے اپنا نام بتایا اور مزید پوچھنے پر بتایا کہ وہ ابصار عالم کا بیٹا ہے۔بس یہ سُننا تھا کہ پاک فوج اور پنجاب پولیس کے تقریباً 15/16 شیر جوان اُسے دھکے دیتے ایک بلڈنگ میں لے گئے، اندر لے جا کر وہ سب اُس نہتے لڑکے پر پَل پڑے۔
گھونسوں، تھپڑوں، لاتوں اور ٹھڈوں سے اُسے مارنا شروع کردیا۔ ساتھ اُس کا “جُرم” بتاتے رہے کہ ”تُمہیں پتا نہیں تھا آرمی چیف آرہے ہیں اور تُم نے یہاں کھڑے ہو کر فون پر بات کر کے سیکورٹی بریچ کردی ہے، بتاؤ اس وی آئی پی موومنٹ کی انفارمیشن کس کو دے رہے تھے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ “اُس کمرے میں دھینگا مُشتی کے دوران ایک پولیس والے کو ہونٹ پر ذرا سی چوٹ آگئی جس کا الزام میرے بیٹے پر لگا دیا گیا۔ عُمر کو اُٹھا کر پولیس گاڑی میں پھینکا گیا اور تھانہ نیو ٹاؤن شفٹ کر دیا گیا، وہاں لے جا کر اُس پر تشدد کا دوسرا راؤنڈ شروع ہوا اور پھر کار سرکار میں مُداخلت اور سرکاری مُلازم پر حملہ کرنے کے الزام میں پرچہ کاٹ کر اُسے عادی اور نشئی مُلزمان کے ساتھ سیل میں بند کر دیا گیا۔رات دیر گئے عُمر واپس گھر پہنچا تو جس بیٹے کو ہمیشہ قانون پر عمل کرنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی تربیت دی تھی، جب وہ میرے بازوؤں میں تڑپ کر رویا تو میرے پاس اُس کی بھیگی اور اُداس آنکھوں میں کُلبلاتے کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔اُس رات سے میرے اکلوتے بیٹے کے نفسیاتی مسائل شروع ہوئے جن کا علاج اور تھیراپی آج تیسرے سال بھی جاری ہے۔ پُورے خاندان نے جو پریشانی اُٹھائی وہ ایک طرف لیکن اُس کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا اور آج بھی وہ اپنے ٹراما سے نکلنے کی مُسلسل کوشش کر رہا ہے۔یہ واقعہ صرف میرے بیٹے کا نہیں لیکن یہ رعایا بھی اتنی ڈھیٹ ہے کہ پھر بھی یہ خُود اور اُن کے بچے یہیں رہنا، جینا اور مرنا چاہتے ہیں،اس مُلک کے مالک شہری وہ بدقسمت رعایا ہیں جو اپنے بچوں کو تمام عمر رزقِ حلال کما کر پالتے ہیں، بغیر کسی انصاف، آزادی، تحفظ، عزت اور بُنیادی حقوق کے بدلے یہ رعایا اپنے بچوں کا رزق کاٹ کر تمام عمر سینکڑوں قسم کے ٹیکس ادا کرتے ہیں تا کہ اشرافیہ کا نہ بھرنے والا بھوکا پیٹ بھر سکیں۔(خصوصی رپورٹ)