تحریر: ناصرجمال
داتا حُضورؒ کی نگری پر لکھنا چاہتا تھا۔ کبھی لاہور کا پانی اور ہواکمال تھی۔ سرسبز لاہور، ان قابضین کو بھی بھایا، جو چاہتے تو، اسے دہلی کی طرح اجاڑ سکتے تھے۔ یہ دہلی ہی تھی، جوکئی بار اجڑی، مگر داتا علی عثمان ہجویریؒ کی نگری کی طرف کسی کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہ ہوئی۔ یہ اعزاز بھی ’’تبدیلی سرکار‘‘ کے حصے میں ہی آیا ہے کہ اُس نے لاہور کو بھی برباد کردیا ہے۔ ہر طرف گندگی، دُھول، مٹی، آلودگی سے اَٹی ہوا، برباد ہوتا ہوا انفراسٹریکچر، سبزے کو زوال، بے ہنگم اور قانون کی دشمن ٹریفک، اُجڑے دیار اور باغات، آپ کو جابجا دیکھنے کو ملیں گے۔ صرف چار دن رہا۔ دن اور رات کو ناک اور گلے سے سیاہ رطوبت اورسیاہ بلغم نیا تحفہ تھا۔ کبھی لاہور میں اوپن ایئر (کھلی فضا) میں بیٹھنا، سہانا لگتا تھا۔ اب ہرلمحہ ڈینگی اور سموگ کا خوف، آپ کو گھیرے رکھتاہے۔ صُبح اور شام میں ٹریفک کیٹری کی طرح رینگتی ہے۔ کیا شاہدرہ تو، کیا ٹھوکر نیاز بیگ۔ کیا مال، کینٹ اور ڈیفنس تو، کیا مغل پورہ۔ کیا واہگہ روڈ، کیا ملتان، فیروز پور روڈ تو، کیا بند روڈ۔تباہی ہی تباہی ہے۔ وہ کونسی سمت اور روٹ ہے، جہاں یہ حال نہیں ہے۔ یہ اس ملک کو ٹھیک کیا جارہا ہے۔ چند گھنٹے کیلئے فیصل آباد جاناہوا۔ وہاں بھی ٹریفک اور ماحول، یہی منظر پیش کررہا ہے۔ ملتان اور پنڈی بھی کچھ مختلف منظرنہیں ہیں۔ پھر جھنگ اور سرگودھا تو ویسے ہی برباد سمجھو۔
ہم سائیں سرکار کو روتے تھے۔ کراچی کا ماتم کرتے تھے۔ حیدر آباد کو لاوارث کہتے تھے۔ یہ پاکستان کو ’’ماشاء اللہ‘‘ برابر کرکے چھوڑیں گے۔شہر، گائوں، دیہات، سب کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کریں گے۔ ظاہر ہے، ’’ریاست مدینہ‘‘ تو تفریق نہیں کرتی۔ مساوات اور برابری پر یقین رکھتی ہے۔
میرے لاہور پر نظر کرم کر،تیرا مکہ رہے آباد مُولا۔۔
اوپر سے ملک میں گیس کا بحران بڑی محنت سے پیدا کیا گیا ہے۔ دوسری دہائی ہوگئی۔ توانائی سیکٹر پر بطور صحافی کام کررہا ہوں۔ آپ یقین کریں، سرور خان، عمر ایوب اور میاں اظہر کے فرزند ارجمند نے اس سیکٹرکو برباد کردیا ہے۔ حماد اظہر کو البتہ یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ، اپنے پچھلے دو وزیروں کو نالائقی ، نااہلی اور بد انتظامی میں کوسوں دُور چھوڑ گئے ہیں۔ اوپر سے لوہے، تانبے اور سونے والی سرکار، ان کے انتظامی بابو ہیں۔ جنہوں نے ایک لوہار وزیراعلیٰ کو بے وقوف بنا دیا۔ اب تو وزیرایک لوہے والے کا بیٹا ہے۔وزیر موصوف کہہ رہے ہیں کہ ایل، این، جی۔ ہم گھریلو صارفین کو دیتے ہی نہیں۔ اگر ایل۔ این۔ جی۔ بروقت نہیں لی تو، اس کا گھریلو صارفین پراثر نہیں پڑے گا۔ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ تبدیلی سرکار کے سواتین سال، نواز شریف کے تین اور خاقان عباسی کے ایک سال میں ساڑھے تین سو سے ساڑھے چار سو، ایم۔ ایم۔ سی۔ ایف۔ ڈی (ملین مکعب کیوبک فٹ روزانہ) ایل۔ این۔ جی۔ موسم سرما میں گھریلو صارفین کو دی جاتی تھی۔ اور دی جاتی رہےگی۔ تیس ڈالر فی بی۔ٹی۔یو کی ایل۔ این۔ جی ۔ کو نسا صنعت کار آپ سے لےگا۔ آپ تو، ایکسپورٹ انڈسٹری کو پہلے ہی 75ارب کی سبسڈی دے چکے ہیں۔ جو اس سال ایک کھرب روپے پر جاپہنچے گی۔ بجلی پر بھاری سبسڈی الگ سے ہے۔جبکہ روپے کی ریکارڈ تنزلی کا فائدہ بھی انہی صنعت کاروں کو ہوا ہے۔ پہلے 4800ایم۔ ایم۔ سی۔ ایف۔ ڈی۔ گیس دونوں سوئی کمپنیاں بیچتی تھیں۔ اب یہ کم ہوکر 3800پر آگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار کے شعبے کو برباد کردیا ہے۔ ایل۔ این۔ جی۔ کا ’’لاڈ اور پیار‘‘ جو ڈاکٹر عاصم حسین کے زمانےسے شروع ہوا۔ اُسے بام عروج پر شاہد خاقان عباسی نےپہنچایا۔ جبکہ یہ حکومت اُس کے مزید اقبال بلند کررہی ہے۔ ایل۔ این۔ جی۔ کی خریداری کیلئے ای اینڈ پی سیکٹر کو برباد نہیں، تباہ و برباد کردیا ہے۔ ندیم بابر نے اضافی ایل۔ این۔ جی اور ٹرمینلز کی راہ ہموار کی۔ پٹرولیم سیکٹر کی فیوض و برکات ہیں۔ شنید ہے کہ انھوں نے ’’یعنی ان کی اورینٹ پاور‘‘ نے سوئی ناردرن کو ان ایک عرصے سے زیر التوا، تقریباً ایک ارب روپے کی واجب الادا رقم ادا کردی ہے۔سوئی ناردرن اضافی ایل۔ این۔ جی۔ سے انکاری تھی۔ وہ اُسے کہاں کھپا ئے گی۔ یہ کبھی تو کھلے گاکہ پھر اچانک ایسا کیا ہوا ،کہ مقامی پیداوار ایک ارب کیوبک فٹ گر گئی۔ اضافی۔ ایل۔ این۔ جی ، نئے ٹرمینلز کی راہ ہموار ہوگئی۔وزیر توانائی کسی فائل پر دستخط کیوں نہیں کرتے۔ ڈی۔ ایس۔ ٹومنسٹر۔ منسٹر سین اینڈ اپروڈ کیسے لکھ سکتا ہے۔ یعنی کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔ باتیں، سنیں تو ،لگتے ہیں کہ کہیں انہیں قوم کے درد میں ہارٹ اٹیک نہ ہوجائے۔ تقریباً تمام غیر ملکی کمپنیاں، پٹرولیم سیکٹر سے کیوں دوڑ گئی ہیں۔ ڈی۔ جی۔ پی۔ سی۔ نےبچ جانیوالی کمپنیوں کو کس مافیا کے کہنے پر گلے سے پکڑا ہوا ہے۔
بہت کچھ لکھنے کو ہے۔ باقی پھر کبھی سہی۔
سپریم کورٹ پوچھے تو سہی۔ جی۔ آئی۔ ڈی۔ سی (گیس انفراسٹریکچر سیس) کے تقریباً ساڑھے چار سو، ارب روپے سے زائد کا پیسہ کہاں گیا۔ کون سےمنصوبے اس سے بنائے گئے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ محسن پاکستان دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کتنے ہی سال منصفوں نے ان کو نہیں سنا۔ کوئی کچھ بھی کہے۔ پرویز مشرف نے آئین توڑا تھا۔ سات سال ہونے کو آئے۔ کیس کیوں نہیں سُنا جارہا ہے۔ نواز شریف کو کس نے لندن بھجوایا۔ اے۔ پی۔ ایس۔ کو بھی تو سات سال ہونے کو چلے ہیں۔ آج نا، نواز شریف کی جائیداد نیلام ہوسکتی ہے۔ نا، آصف زرداری پر فرد جُرم عائد ہوسکتی ہے۔ کیا اس ریاست کے ادارے صرف ڈائمنڈ کرکٹ گرائونڈ بند کرنے کیلئے رہ گئے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کا کیا ہوا۔ چینی، آٹا، گندم، پیٹرول، مہمند ڈیم، اسکینڈل زمین کی کونسی تہہ میں دفن کردیئے گئے۔ مالم جبہ اراضی، بہت سنتےتھے۔ پھر کیا ہوا۔ وہ نیب نے زمین کی ساتویں تہہ میں دفن کر دیا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ ’’غصہ اور قانون بڑے سمجھدار ہیں۔ کمزور کو دبا لیتے ہیں اور طاقتور سے دب جاتے ہیں۔نسلہ ٹاور، بحریہ ٹائون کراچی، بنی گالہ اور ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کا موازنہ کریں تو، آپ اپنے ایمان سے کہیں کیا منظر نامہ سامنے، آتا ہے۔ نسلہ ٹاور گرائیں۔ مگر پہلے ’’خلیفہ وقت‘‘ کا بنی گالہ، ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو اور بحریہ ٹائون کراچی کو گرائیں۔ جو باغات اور زرعی مقاصد کی زمین تک ہڑپ کرگیا۔ آج ماحولیات کی بڑی ،بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ وزیراعظم، خودکو ماحولیات کا ’’خمینی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کے خلیفہ امین اسلم کی باتیں، کیا کہنے۔ وہ ڈی۔ ایچ۔ اے۔ ملتان جائیں اورکٹے آموں کے درختوں میں اپنی ’’چتا‘‘ سجائیں اور جل مریں۔ بتائیں، کیا ایکشن ہوا۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’بوٹا اور کُرد‘‘ کچھ کہتا ہے۔میں نے ٹویٹ کیا کہ ’’ہم افواج پاکستان کے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔ اس سے محبت کرتے ہیں۔ مگر علی احمد کُرد نے جو کچھ کہا ہے۔ اس تلخ اور ننگی حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔ 72سالوں میں پاکستان کے نااہل سیاست دانوں ، لالچی عساکر اور ’’ریمورٹ کنٹرول عدلیہ‘‘ نے حالات یہاں تک پہنچائے ہیں۔ اس کا جلد ادراک ہی بہتر ہے۔لاہور کانفرنس میں علی احمد کُرد کی دو منٹ کی تقریر نے آگ لگا دی ہے۔چیف جسٹس کی حالت دیدنی تھی۔
قارئین!!! علی احمد کُرد نے حق ، سچ، کہا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے جس طرح ردعمل دیا اور حاضرین نے جو آوازیں لگائی ہیں۔ وہ ملک میں جاری گھٹن، حبس اور جبر کا مستقبل بتا رہی ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن اور حکومت عوام کے سامنے ننگے ہوچکے ہیں۔ ریاست کے تین ستون اکٹھے ہیں۔ نہ نظر آنے والے چوتھے ستون کی پٹائی ہورہی ہے۔ جسے آپ میڈیا کہتے ہیں۔ جبکہ ریاست کی بنیاد عوام، برباد ہیں۔اس بار دیکھتے ہیں کہ کچھ بدلتا ہے یا نہیں۔ یا ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی قوتیں، نیا بہروپ بھر کر پھر سے، اس ملک، ریاست اور عوام کے ساتھ ’’ہاتھ‘‘ کردیں گی۔
قارئین!!! لاہور کانفرنس میں دو بہروپیے بھی تھے۔ جو کبھی ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ اب مفادات اور باسز ایک ہوئے ہیں تو ’’پرانی کینچلی‘‘ اتار کر، نئی کھال اوڑھ لی ہے۔ حامدمیر، جنرل فیض کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں۔ اسی لئےابصارعالم کو ہیرو بنا رہے ہیں کہ کیسے ابصار عالم نے ’’بطور چیئرمین پیمرا‘‘ جنرل فیض کو انکار کیا۔ حامد میر، میرے سامنے ابصار عالم کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ اتنا بے دید ہے کہ مجھے اُس نے 14نوٹس بھیجے۔ سپریم کورٹ میں میرے ساتھ اپیل میں تھا۔ اچانک وہاں سےچیئرمین پیمرا بن بیٹھا۔ کیا حامدمیر بتا سکتا ہے کہ ابصار عالم نے کس کے کہنے پر 14نوٹسز کیے۔ اور پھر کارروائی نہیں کی۔دوسری جانب اصول اور صحافت کے خودساختہ چی گویرا، ابصار عالم کے کرتوت سن لیں۔ وہ مریم نواز کے سپہ سالار تھے۔ وہ سینٹ کی اطلاعات و نشریات کی کمیٹی میں براہ راست صحافیوں اور صحافت پر کاری وار کی قانون سازی کا پلندا، لےگئے۔ مریم اورنگزیب اور سردار احمد نواز سکھیرا سیکرٹری اطلاعات نے اس کی مخالفت کی۔ اور کہا کہ قواعدو ضوابط کے تحت پیمرا، براہ راست قانونی بل یہاں نہیں لاسکتی۔ کمیٹی نے ان کی بات مانی، سینیٹر فرحت اللہ بابر سے پوچھ لیں۔ ڈرافٹ بل میں کیا تھا۔ صحافیوں کو بھاری جرمانے اور کڑی سزائیں تھیں۔ موصوف باقاعدہ’’ ڈریکونین لاء‘‘لائے تھے۔ پھر منسٹر اور سیکرٹری نے اسے کبھی آگے نہیں جانے دیا۔’’بل‘‘ کے پیچھے کون تھا۔ ابصار عالم، اپنے اصلی آقائوں یا ملکہ کا نام بتائے۔ آج ایک پیادہ، جواپنی کمیونٹی کی پشت میں خنجر گھونپ کر آیا تھا۔ (اور آلہ قتل ، وزارت اطلاعات میں موجود ہے۔) وہ خود کو اصولوں اور صحافیوں کا ہیرو بتاتا ہے۔ جبکہ جنرل فیض کےحوالے سے سفید جھوٹ بولنے والا، حامد میر، اس کا حمایتی بنا ہوا ہے۔ صرف ’’بغض فیض‘‘ میں ابصار عالم کو سات خون معاف کررہا ہے۔ یار، یہ کون لوگ ہیں۔ کس مٹی اور خمیر کے بنےہوئے ہیں۔ یہ کیسے راتوں رات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ حامد میر کی حمایت کرنے والے صحافی لیڈر اور صحافی جائیں، چُلو بھر پانی میں ڈوب مریں۔
قارئین!!! آپ مجھ سےپوچھیں تو، میں قطعاً پُر امید نہیں ہوں کہ اس ملک میں فی الحال انقلاب یا تبدیلی آئے گی۔ ابھی بہت فاصلہ طے ہونا باقی ہے۔ ابھی’’ دوستوں‘‘ کی پٹاری میں عمران خان، زرداری، شریفوں، سیٹھوں، مولویوں اور قوم پرستوں جیسے کئی مہرے، میٹھی گولیاں، کھلونے، لالی پاپ اور پٹاخے ، بدرجہ اُتم موجودہیں۔ جن سےلوگوں کا خوب دل بہلایا جاسکتا ہے۔ جن کی گردن میں ’’ضرورت کا سریا‘‘ ہے۔ اُسے ’’رام‘‘ کرنا کونسا مسئلہ ہے۔ دیکھتے ہیں، یہ ریاست اور ملک اسی طرح کب تک چلتا ہے۔ عوام کب تک نہیں جاگتی۔(ناصر جمال)۔۔