خصوصی رپورٹ۔۔
اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق اسلام آباد کے محتلف تھانوں میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروا دی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم اور صحافی اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے یہ رپورٹ عدالت عظمیٰ کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس پر جمع کروائی۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے لاہور میں ایف آئی اے کی جانب سے صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو ہراساں کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملک میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا تاہم اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بجائے جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا۔سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے جب اس از خود نوٹس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا گیا تو سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کے سابق صدر قیوم صدیقی نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ اس حوالے سے اپنی درخواست واپس لے رہے ہیں تاہم اس تنظیم کے موجودہ صدر نے بیان دیا کہ وہ اس ازخود نوٹس کی پیروی جاری رکھیں گے۔
اس رپورٹ کے مطابق معروف صحافی اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین ابصار عالم اور صحافی اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو چند ہفتوں میں گرفتار کیا جائے گا۔اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں ابصار عالم اور اسد طور پر حملوں سے متعلق درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کی رپورٹ کا بھی ذکر ہے۔نادرا کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابصار عالم اور اسد طور پر جہاں پر حملہ کیا گیا وہاں سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی گئی تھیں لیکن ان کی کوالٹی بہتر نہیں تھی جس کی وجہ سے ان حملوں میں ملوث افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔یہ دونوں مقدمات ابھی تک زیر تفتیش ہیں اور ایس پی صدر سرکل کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے تاہم مہینوں گزرنے کے باوجود ابھی تک ان مقدمات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔پولیس نے ابصار عالم پر حملہ کرنے کے مقدمے میں 22 افراد کے بیانات قلمبند کیے ہیں جبکہ اسد طور پر حملے کے مقدمے میں 30 عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے گئے۔واضح رہے کہ اس سے قبل صحافی مطیع اللہ جان کو جب اغوا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی جب سپریم کورٹ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے اس واقعے میں ملوث ملزمان کے بارے میں جو رپورٹ مانگی تھی اس پر بھی پولیس حکام کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ جس گاڑی میں مذکورہ صحافی کو اغوا کر کے لے جایا گیا تھا اس کا ریکارڈ سیف سٹی کیمروں میں نہیں آیا جس کی وجہ سے نہ ہی گاڑی اور نہ ہی ملزموں کا کوئی سراغ مل سکا ہے۔صحافی اور تجزیہ نگار حامد میر نے اس رپورٹ کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد پولیس کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے مقدمات کے بارے میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ محض ایک خانہ پوری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘ابصار عالم اور اسد طور پر ہونے والے حملوں میں ملزمان کی عدم گرفتاری کا یہ بہانہ بنایا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کے چہروں کو شناخت نہیں کیا جا سکا۔اس کے برعکس جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے گھر کے باہر جو بم دھماکہ ہوا تھا اور اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی شناخت بھی نہیں ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود ملزمان گرفتار کر لیے گئے۔حامد میر کا کہنا تھا کہ ’اسد طور پر ہونے والے حملے کی تحققیات کے بارے میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دعوی کیا تھا کہ پولیس ملزمان کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن آج تک ملزمان گرفتار نہیں ہوئے۔حامد میر کا کہنا تھا کہ ’جب ان پر حملہ ہوا اور انھیں گولیاں ماری گئیں تو اس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں ایک کمیشن بنایا گیا لیکن اس کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے کمیشن کے سامنے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی پر حملے کا الزام لگایا تھا لیکن وہ کبھی بھی کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ‘کسی بھی مقدمے کی تفتیش میں سی سی ٹی وی فوٹیج ایک اہم ثبوت کے طور پر تو استعمال ہو سکتی ہے لیکن ساری تفتیش اس فوٹیج کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے اپنی رپورٹ میں ان محرکات کا بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جس کی وجہ سے صحافیوں کو ہراساں اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس رپورٹ میں صحافی اور اینکر پرسن مہر بخاری کو ہراساں کرنے والے مقدمے کا بھی ذکر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ صحافی اس سال دو جولائی کو اپنے اہلخانہ کے ہمراہ مری جا رہی تھیں کہ بارہ کہو کے قریب ایک گاڑی نے ان کی گاڑی کو اورٹیک کیا اور اس کے بعد گاڑی مہر بخاری کی گاڑی کے آگے کھڑی کردی اور ڈرائیور نے باہر نکل کا مذکورہ اینکرپرسن کو نہ صرف گالیاں دیں بلکہ ان کو سنگین تنائج کی دھمکیاں بھی دیں۔اس رپورٹ میں صرف ایک ایسے مقدمے کا ذکر ہے جس میں نجی ٹی وی چینل اےآر وائی کے کمیرہ مین کو ہراساں کرنے کے الزام میں جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا انھوں نے متعلقہ عدالت سے نہ صرف ضمانت قبل از گرفتاری کروائی بلکہ عدالت نے ان کی ضمانتوں کو بھی کنفرم کر دیا۔اس مقدمے سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ صحافی اس ضمن میں شامل تفتیش ہی نہیں ہوئے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)