سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ ۔۔کیا عجیب حالات ہیں‘ ہر روز اک نیا تماشا۔ صورتِ حال پہ کس کی گرفت ہے؟ کاغذی ٹکڑوں پر موجودہ حکومتی بندوبست کھڑا ہے‘ ان ٹکڑوں کا دوسرا نام فارم 47۔ اندھیروں میں یہ فارم پُر کیے گئے اور پھرکمال مہربانی سے ایک حکومتی ڈھانچہ ترتیب دیا گیا۔ ایسے میں وہی ہونا تھا جو مملکتِ خداداد میں ہو رہا ہے۔ جگ ہنسائی تو پہلے بھی تھی‘ اب ہم غریبوں کی ہنسی رُک نہیں رہی۔دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔کرتے دھرتوں کا خیال تھا کہ خطرہ ہو گا تو پی ٹی آئی کی طر ف سے۔ پی ٹی آئی پر زور آزمائی کر کے سمجھے کہ ہر چیز کنٹرول میں آ گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کا تو کسی کو دور سے بھی خیال نہ تھا لیکن اُس عدالت کے چھ جج صاحبان نے خط کیا لکھا ایک زلزلہ سا برپا کر دیا۔ ایک خط ہی تو تھا جو اُنہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا لیکن خط میں وہ کچھ تحریر تھا کہ کاغذی ٹکڑوں پر استوار بندوبست ہل کے رہ گیا۔ تحریرکا مفہوم سادہ سا تھا کہ سرکاری اداروں کی مداخلت کی وجہ سے ججوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔ ایک دو مثالیں بھی دی گئیں‘ کہ ایک جج صاحب کے بہنوئی کو اٹھا لیا گیا تھا‘ یہ گھناؤنا الزام بھی لگا کہ کسی رشتہ دار کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو اب تک انقلابِ فرانس آ جاتا۔ لیکن یہ کوئی اور ملک نہیں مملکتِ خداداد ہے جہاں ہر سلگتے مسئلے پر مٹی ڈالنے کی پرانی روایت ہے۔ یہاں بھی مٹی ڈالنے کی پوری کوشش کی گئی۔ گھبرائے ہوئے وزیراعظم جا ملے چیف جسٹس سے اور سب کوچونکا دینے والا فیصلہ ہوا کہ ایک انکوائری کمیشن بٹھا دیا جائے جو کہ مٹی ڈالنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔ نیک نام سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو اس کا سربراہ مقررکیا گیا۔ ایسا ہونا تھا کہ تمام اطراف سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ یہ کیا مٹی ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تین سو وکلا نے سپریم کورٹ کو خط لکھا۔ میڈیا میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس ردِعمل کو دیکھتے ہوئے جسٹس جیلانی کو بھی کچھ خیال آیا اور اس گناہِ بے لذت سے معذرت کر لی۔ اُن کے معذرتی خط کا شائع ہونا تھا کہ پریشان حکومت کو مزید جھٹکے لگنے لگے۔ چیف جسٹس صاحب کے ہاتھ بھی بندھ گئے‘ کوئی چارہ نہ رہا سوائے اس کے کہ اسلام آباد ججوں کے پھینکے ہوئے بم کا از خود نوٹس لیں۔ جو چیز پہلے دن ہی کرنی چاہئے تھی‘ حالات کے دباؤ کے تحت اب ہو رہی ہے۔ یعنی اس مملکت میں ہم نے سیکھنا کچھ نہیں‘ جب تک رسوائی کا سامان مکمل طور پر بندھ نہ جائے‘ ہم نے ٹھیک کام نہیں کرنا۔ یہاں مسئلہ چونکہ سپریم کورٹ کا ہے تو مناسب الفاظ کا چناؤ لازم بن جاتا ہے‘ نہیں تو کسی اور کے حوالے سے یہ مسئلہ ہوتا تو پیازوں اور لِتروں کی مثال موزوںسمجھی جاتی۔وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ لیکن پھر بھی عالمِ غیب سے آنے والے مراسلوں کا کس کو علم ہو سکتا تھا؟ بغیر کسی عہدے کے اور ہر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جناب نواز شریف پنجاب حکومت کی میٹنگوں کی صدارت فرما رہے تھے جبکہ اُن کی ہونہار بیٹی سرکاری پیسے سے خریدے ہوئے نہایت ہی ناقص آٹے کی بوریوں پر والدصاحب کی تصوریں چسپاں کر رہی تھیں۔ اسحاق ڈار بنائے تو وزیر خارجہ گئے تھے لیکن دل وہاں لگ نہیں رہا تھا۔کسی روز ایک اقتصادی کمیٹی کے ممبر دوسرے روز کسی اور کے۔ ایک تو افراتفری دوسرا عالمِ بیوقوفی۔ ایسے میں چھ جج صاحبان کا خط کسی زلزلے سے کم نہیں۔ لیکن ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے‘ دیکھنا ہے کہاں ختم ہوتا ہے۔