تحریر: خواجہ آفتاب حسن
پنجاب اسمبلی کی جانب سے صحافی دشمن کالے قانون “ممبرز تحفظ استحقاق قانون” کی منظوری کے بعد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پررواں ہفتے 5 جولائی کو ملک گیر احتجاج کیا گیا۔جبکہ لاہور پریس کلب میں اس کالے قانون کے خاتمے تک احتجاجی کیمپ لگا دیا گیاہے۔گذشتہ سوموار کراچی سے خیبر تک صحافیوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔اس روز ملک میں صرف ایک ہی نعرے کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ “ہم نہیں مانتے ظلم کے یہ ضابطے”،”کالا قانون نامنظور “۔بلا شبہ ان نعروں نے حکومتی ایوانوں بالخصوص پنجاب اسمبلی میں ہلچل مچا دی ہے اور بیڈ گورننس سمیت مختلف ایشوز کا شکار پنجاب سرکار کی بے چینی میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔
انتیس جون 2021ءکو منظور ہونے والے اس بل کو ایوان میں پیش کرنے میں پیش پیش جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کی اعلی قیادت نے تو بعد ازاں سرے سے ہی اس بل سے اعلان لاتعلقی کردیا جبکہ حکومتی اتحادی مسلم لیگ(ق) کے لیے اس کمبل سے جان چھڑانا اس لیے بھی مشکل ہو گیا کیوں کہ سپیکر پنجاب اسمبلی کا تعلق اسی پارٹی سے ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ایوان میں پرائیویٹ ممبرز کی جانب سے کوئی بل پیش ہوا ہو اور سپیکر اسمبلی اس سے لاعلم ہوں۔اس دوران کہ جب لاہور کی صحافی قیادت اس بل جو بعدازاں گورنر کے دستخطوں سے قانون بن گیا،اور چودھری محمد سروراس کو بھی چھپاتے رہے، کے حوالے سے سر جوڑے بیٹھی تھی اور مستقبل میں اس کے آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر مرتب ہونے والے خوفناک اثرات کا جائزہ لے رہی تھی اور اس بل کو قانون بننے سے روکنے کے لیے حکمت عملی وضع کر رہی تھی چند نام نہاد لٹیرے نما لیڈروں نے اپنی روایتی جبلت کا مظاہرہ کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے گورنر پنجاب اور سپیکر اسمبلی نے ان کے دباؤ میں آکر اس بل کو قانون بننے سے روک لیا ہے۔ایک طرف لاہور کے صحافی اپنے آئینی و بنیادی حق کو بچانے کے لیے سڑکوں پر تھے تو دوسری جانب عین اسی وقت مختلف نجی چینلز پر ایسی خبریں اور ٹیکرز چلائے جارہے تھے جن کے ذریعے یہ تاثر پیدا کرنے کی گھناؤنی کوشش کی جارہی تھی کہ جیسے سب ٹھیک ہو چکا ہے اور سپیکر نے شق 21 کے ذریعے اس قانون کی تمام متنازع شقوں کو “بے اثر”کر دیا ہے۔حالاں کہ قانون یہ کہتا ہے کہ یہ قانون تب تک بے اثر نہیں ہو سکتا جب تک اسے ترامیم کے ساتھ دوبارہ اسمبلی میں پیش نہ کیا جائے یا پھر اعتراض کے ساتھ اس کے خاتمے کی کوئی قرارداد ایوان میں نئے سرے سے پیش نہ کی جائے۔اس کھلی حقیقت کے باوجود گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی اب بھی بضد ہیں کہ”سب ٹھیک ہو چکا ہے”۔اور اس سب کو” ٹھیک” ثابت کرنےکے درپے وہ گروہ بھی ہے جس نے ہمیشہ صحافی برادری کے مفادات کا سودا کیا۔اپنی دم توڑتی سیاست کو بچانے کے لیے یہ ٹولہ کبھی گورنر اور کبھی سپیکر کے پیچھے چھپ رہا ہے۔اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے صحافی برادری سے ان کا آئینی اور پیشہ ورانہ حق چھیننے میں یہی گروہ آلہ کار بنا ہوا ہے۔اس گروہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر مسلسل یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ صحافت کی آزادی کو”ممبرز تحفظ استحقاق قانون” سے اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔لیکن یہ سچ نہیں،سچ تو یہ ہے کہ اس کالے قانون کے خاتمے تک نہ تو صحافی محفوظ ہیں اور نہ ہی صحافت آزاد۔صحافیوں کو گورنر پنجاب سے کوئی توقع ہو نہ ہو لیکن وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اخر ایسی کیا ناراضی ہے جو صحافی دوست اور صحافیوں کے محسن سپیکر پرویز الٰہی اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوئے۔ایسی کیا بات ہو گئی کہ انہیں مجسٹریسی اختیارات کی ضرورت محسوس ہوئی۔کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومتی اتحادیوں میں خلیج اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صحافیوں کو چارے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔چلیں ایک لمحے کے لیے مسلم لیگ (ن) پنجاب کی ترجمان محترمہ عظمی بخاری کی یہ بات مان لیں کہ سردار احمد خان بیوروکریسی کو قابو کرنے والی تجاویز کی حد تک اس بل کا حصہ تھے،صحافیوں کے خلاف شقیں ان کی غیر موجودگی میں شامل کی گئیں تو پھر باقی پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ق)اور پاکستان تحریک انصاف ہی بچتی ہیں۔
جمعہ 9جولائی کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلا لیا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان پیپلزپارٹی،مسلم لیگ(ن)،مسلم لیگ(ق)اور پی ٹی آئی کی جانب سے اس کالے قانون کے خلاف کوئی قرارداد ایوان میں پیش کی جاتی ہے یا نہیں۔اگر اس قانون میں ترمیم کے حوالے سے کوئی قرارداد آتی ہے تو نہ صرف حکومت اور میڈیا کے مابین تعلقات کو خراب کرنے والوں کے ارادے خاک میں مل جائیں گے بل کہ صحافت کے مقدس پیشے سے جڑے ان مفاد پرستوں کے لیے بھی کمیونٹی کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا جو اب بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ”سب ٹھیک ہو گیا ہے”۔اور خدانخواستہ ایوان میں اس کالے قانون کے خلاف کوئی قرارداد نہیں آتی تو یہ سمجھنا بہت آسان ہوجائے گا کہ صحافت کا گلہ گھوٹنا تمام پارلیمانی جماعتوں کا یکساں مقصد بن چکا ہے۔اس خدشے کے پیش نظر صحافی رہنماؤں اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو اسمبلی کی کارروائی کے بائیکاٹ سمیت تمام آپشنز پر غور کرتے ہوئے لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔کیوں کہ جو حکمران بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے قانون بنا سکتے ہیں ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔(خواجہ آفتاب حسن)۔۔