تحریر: سیدابوذر شریف
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں۔۔اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں۔۔ آفتاب مضطرکا یہ کلام سجاد علی کی آواز میں پاکستان کیا پاکستان سے باہر بھی خوب دھوم مچا چکا ہے۔۔ آفتاب مضطر نے تو شاید یہ کسی بے وفا کی یاد میں اس کے نام اپنا شکوہ لکھا ہوگا ،،لیکن اس کلام کے کچھ الفاظ سنتے ہوئے آج مجھے اپنا وطن پاکستان کچھ اس طرح یاد آیا کہ،،جیسے یہ کلام پاکستان خود بیان کررہا ہو اور سالوں سے اپنے ساتھ ہونیوالی بے وفائیوں کی شکایت کررہا ہو۔۔کیونکہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے،،اس کو اوپر لے جانے کے وعدے تو ہر کوئی کرتا ہے،،ہر دور میں چاہے آمریت ہو یا جمہوریت ،ملک کے وسیع تر مفاد کےتحفظ کے وعدے کرتے ہوئے اس ملک کاس تیاناس سے سوا ستیاناس کیا جاتا ہے۔۔لیڈر چاہے جمہوری ہو ں یا آمر،،سب بات شروع کرتے ہیں قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد کی لیکن جب وقت ختم ہونے لگتا ہے یا کیا جارہا ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وسیع تر مفاد اصل میں اپنی ذات کا تھا۔۔یہ تماشہ کل بھی جاری تھا،،اورآج بھی بنا کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔اورافسوس کہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔۔پچھلے 75سالوں سے ملک مسلسل نازک صورتحال سے باہر ہی نہیں نکل پارہا،،البتہ اسے اس صورتحال میں ڈالنے والے ملک سے باہر ضرور نکل جاتے ہیں ،،آج اقتدار سنبھالنے والے ،پچھلوں کو اس نازک صورتحال کا ذمہ دار قرار دے کر ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں،،جبکہ ان کے بعد آنیوالے پھر یہی پچھلوں کی نااہلی کا رونا رو کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔۔اس تمام کہانی میں جو بات اہل اقتدار کے منصب پر بیٹھنے والوں می٘ں مشترک ہے وہ ہے “اپنا مفاد، اپنی ذات”۔۔اب آج کی ہی صورتحال دیکھ لیں،،گزشتہ تین ماہ کے دوران جب سے اتحادی حکومت نے حکومت سنبھالی ہے معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے،،،13 جماعتیں مل کر بھی ملک کو مشکل سے نہیں نکال پارہی٘ں۔۔فوکس ہے تو صرف اپنے اقتدار کو طول دینا اور وہ بھی ہر قیمت پر ،،اس دوران سیاسی بے یقنی کی وجہ سے معیشت تباہ ہوتی ہے تو ہو،،عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر مر رہے ہیں تو مر جائیں۔۔ریاست کی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے تو ہومگر سیاست کا اقبال بلند یہونا چاہئے۔گزشتہ تین ماہ میں امریکی ڈالر روپے کے مقابلے میں ساٹھ روپے مہنگا ہوچکا ہے،،اس کی وجہ سے ہمارے واجب الادا قرضے کئی ارب ڈالر بڑھ چکے ہیں،،صرف آج اس سیاسی بے یقینی کے سبب ڈالر مزید چار روپیے اوپر چلا گیا،،سب کو نظر آ رہا ہے کہ معیشت ایسی تباہی کی طرف جا رہی ہے کہ یہ ملک چلنا تو دور اسے چلانا مشکل ہوجائےگا۔۔لیکن ہماری سیاسی قیادت یہ سب تماشہ دیکھ رہی ہے ،،مگرترجیح پر معیشت کی بجائے پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور وفاق میں اقتدار کی گنتی کو حاصل ہے۔۔اس وقت معیشت پر قومی اتفاق ہی ہمیں مکمل تباہی سے بچا سکتا ہے لیکن سب چپ چاپ معیشت کو غرق ہوتا دیکھ رہے ہیں۔۔اس میں ن لیگ،،پیپلزپارٹی،،مولانا، عمران خان،،ہر کوئی اپنا اپنا برابر کا حصہ ڈال رہا ہے۔۔آئی ایم کی فرمقائشوں پر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کرعوام کا برا حال کیا جارہا ہے ۔۔تو دوسری طرف ایک وفاقی وزیر ۵۰ لاکھ روپے کی نئی کرسیاں اپنے دفتر کیلئے صرف اس لئے خرید رہی ہیں ،،کیونکہ انہیں پچھلے وزیر کی شکل پسند نہیں تھی اور وہ ان کے زیر استعمال فرنیچر تک استعمال نہیں کرنا چاہتیں۔۔ایک طرف ملکی اداروں کو غیر ملکیوں کو کوڑیوں کے مول دینے کی تیاری ہوچکی ہے،،جہاں ان سے کوئی کوچھ پوچھ بھی نہیں سکے گا،،مگر دوسری جانب چودہ اگست کی تقریبات کی تیاری کیلئے 75کروڑوں روپے بہائے جارہے ہیں۔۔ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں سنانے والے سیاستدان ،،ایوان میں اپنی اکثریت بڑھانے کیلئے فی بندہ 20سے 60کروڑ تک خرچ کررہے ہیں۔۔۔یہ تو چند وہ خرچے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں،،درون خانہ یہاں کیا کچھ ہورہا ہوگا اور کیا کچھ ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔۔ایسی صورتحال میں اگر میرا ملک پاکستان بول سکتا تو،،اہل اقتدار سے ضرور یہ بولاتا ،، ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں۔۔۔اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں۔۔۔اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے،،پاکستان ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں۔۔(سید ابوذرشریف)۔۔