تحریر: میم سین بٹ۔۔
لاہور پریس کلب کے سالانہ انتخابات پر خوب گہما گہمی رہتی ہے جو ممبرز سارا سال پریس کلب نہیں آتے وہ بھی مصروفیات میں سے وقت نکال کر چند روز کلب آتے رہتے ہیں اور یوں ہمیں مختلف میڈیا اداروں میں اپنے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں سے طویل عرصہ بعد ملنے اور گپ شپ کرنے کا موقع مل جاتا ہے ہفتے کی شام ہم فلیٹ پر لیٹے کتاب پڑھ رہے تھے کہ طارق کامران کا فون آگیا انہوں نے بتایا کہ وہ جوہر ٹاؤن سے چل پڑے ہیں اور مزنگ چونگی کے قریب آچکے ہیں لہذا 15 منٹ میں کلب پہنچ جائواور جب ہم فلیٹ سے اٹھ کر سڑک پار کرکے پریس کلب کے باہر پہنچے تو صحافی فٹ پاتھ پر کرسیاں ڈالے بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ان میں سابق سینئر نائب صدر مجتبٰی باجوہ ، سابق خزانچی سالک نواز ، سابق ممبر گورننگ باڈی چوہدری ذوالفقار علی ، سینئر صحافی حماد رضا ، اعظم توقیر بھی موجود تھے ، طارق کامران نے بتایا کہ چیئرمین الیکشن کمیٹی شفیق اعوان کے حکم پر کل صبح پولنگ کیلئے پریس کلب کو مکمل بند کر دیا گیا ہے اور گیٹ پر ڈیوٹی کرنے والا عملہ کسی کو بھی کلب کے اندر داخل نہیں ہونے دے رہا ہم نے طارق کامران کو اپنے ساتھ لیا اور شملہ پہاڑی چوک سے لکشمی چوک تک ایبٹ روڈ کی پیدل سیر کیلئے چل دیئے ۔
شملہ پہاڑی کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ہم نے طارق کامران سے پوچھا کہ پریس کلب کے ساتھ ان کا تعلق کب قائم ہوا تھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ 2002 ء میں لاہور پریس کلب شملہ پہاڑی کے ایسوسی ایٹ ممبر بنائے گئے تھے ان دنوں ارشد انصاری کلب کے سیکرٹری ہوتے تھے جن کے قریبی دوست اشرف سہیل کسی زمانے میں طارق کامران کے ساتھ روزنامہ وفاق میں بھی کام کرتے رہے تھے اور اس زمانے میں روزنامہ آواز سے وابستہ تھے اب روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر ہیں ، اگلے سال ارشد انصاری لاہور پریس کلب کے پہلی بار صدر اور میاں عابد سیکرٹری بنے تو طارق کامران کو کلب کا کونسل ممبر بنا دیا گیا تھا بعدازاں 2018 ء میں انہیں لائف ممبر بنا دیا گیا تھا ان دنوں عبدالمجید ساجد پریس کلب کے سیکرٹری تھے شملہ پہاڑی چوک پار کرتے ہوئے ہماری نظر نئے نصب کئے جانے والے بورڈ پر پڑی جس پر سید امتیاز علی تاج چوک کے الفاظ لکھے ہوئے تھے گویا بلدیہ عظمٰی نے شملہ پہاڑی چوک کو انارکلی ڈرامے کے خالق سے منسوب کر دیا تھا مگر لاہوریئے اسے بدستور شملہ پہاڑی چوک ہی کہتے رہیں گے ایبٹ روڈ پر آتے ہی طارق کامران نے دائیں جانب ریڈیو اسٹیشن کی دیوار پر نصب بورڈ کی طرف اشارہ کیا جو اندھیرا پھیلنے کے باوجود روشن نہیں تھا شاید ریڈیو کی انتظامیہ بجلی کی بچت کر رہی تھی بورڈ پر اردو کے بجائے انگریزی میں ریڈیو پاکستان کے الفاظ لکھے ہوئے تھے ہم نے طارق کامران سے دریافت کیا کہ ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں وہ پہلی بار کب داخل ہوئے تھے تو انہوں نے بتایا کہ وہ 1982ء میں پہلی بار ریڈیو پر نوجوانوں کے پروگرام میں شریک ہوئے تھے یہ یوم آزادی کے حوالے سے مشاعرہ تھا جس میں انہوں نے بھی نظم پڑھی تھی اس نظم کا ایک شعر انہیں یاد رہ گیا تھا ۔۔۔
جس کے دریاؤں میں چاندی بہتی ہے
اس کی دھرتی بھی سونے جیسی ہے
ریڈیو کے جس آخری پروگرام میں چند سال پہلے طارق کامران شریک ہوئے تھے وہ ادبی پروگرام ” تخلیق” تھا جس میں انہوں نے میزبان رابعہ رحمٰن کو اپنے ادبی و صحافتی سفر کے حوالے سے انٹرویو دیا تھا اور اپنا کلام بھی سنایا تھا ، ریڈیو سٹیشن میں ہم 2 مرتبہ گئے تھے امجد کلیار نے ہمیں اپنے گرائیں ڈائریکٹر نیوز سجاد پرویز سے ملوایا تھا جنہوں نے ہمیں اپنی کتاب کا تحفہ بھی دیا تھا ریڈیو اسٹیشن سے ملحقہ پی ٹی وی اسٹیشن کی عمارت پر نصب بورڈ روشن تو تھا مگر اس پر بھی قومی زبان کے بجائے انگریزی میں پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن لمیٹڈ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے ، طارق کامران نے بتایا کہ وہ پی ٹی وی اسٹیشن میں پہلی بار 1977ء میں اپنے شاعر دوست اے جے رضا کے ساتھ گلوکار اے نئیر سے ملنے آئے تھے اس موقع پر ان کی گلوکار مہدی حسن سے بھی ملاقات ہو گئی تھی اور ان کے استفسار پر مہدی حسن نے اخبار میں چھپنے والی اس خبر کی تردید کر دی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مہدی حسن مستقل طور پر بھارت منتقل ہو رہے ہیں طارق کامران نے بتایا کہ قبل ازیں پی ٹی وی کی ٹیم نے جب اوکاڑہ جا کر مشاعرہ ریکارڈ کیا تھا تو انہوں نے بھی اس میں غزل سنائی تھی اس مشاعرے کی صدارت ظفر اقبال نے کی تھی بعدازاں طارق کامران پی ٹی وی پر جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے علامہ اقبال پر دیئے جانے والے لیکچر میں بھی شریک ہوئے تھے ، ضیاء الحسن ، حامد یزدانی اور اصغر عابد بھی ان کے ساتھ تھے شاعر اصغر عابد بعدازاں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز کے پی آر او بن گئے تھے جبکہ حامد یزدانی جرمنی چلے گئے تھے ڈاکٹر ضیاء الحسن اورینٹل کالج میں پڑھانے کے بعد اب ریٹائر ہو چکے ہیں ، پی ٹی وی سٹیشن کے اندر ہم بھی کسی کے ساتھ ایک بار گئے تھے بعدازاں ڈائریکٹر نیوز افتخار مجاز ہمیں دعوت دیتے دیتے ریٹائر ہوگئے تھے لیکن ہم دوبارہ پی ٹی وی سنٹر نہیں جاسکے تھے افتخار مجاز اپنے بھائی اعزاز احمد آذر سے پی ٹی وی کا کتابوں پر تبصرے کا پروگرام کیا کرتے تھے اب تو دونوں بھائی فوت ہو چکے ہیں۔
پی ٹی وی سٹیشن سے ملحقہ ڈی جی پی آر سیکرٹریٹ کے باہر پیر غائب شاہ مزار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طارق کامران نے بتایا کہ اس کے عقب میں پریس کلب کی عمارت تعمیر کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا جو بھٹو حکومت ختم ہو جانے پر منسوخ کر دیا گیا تھا ہماری معلومات کے مطابق اس زمانے میں عباس اطہر پریس کلب کے صدر ہوتے تھے ، ڈی جی پی آر آفس میں طارق کامران پہلی بار بطور سب ایڈیٹر روزنامہ وفاق کے پریس کارڈ پر مہر لگوانے آئے تھے وہ ان دنوں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پرتعینات اسلم ڈوگر سے ملے تھے جو قبل ازیں اوکاڑہ میں محکمہ اطلاعات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہے تھے ہم ڈی جی پی آر آفس میں پہلی بار ڈائریکٹر جنرل شعیب بن عزیز کو اپنی پہلی کتاب ” سرکا پہلوان ” دینے آئے تھے یہ 2093ء کے کسی ابتدائی مہینے کی بات ہے بعدازاں کئی برسوں سے ہم ہر سال ایکریڈیشن کارڈ بنوانے اس دفتر میں آتے ہیں ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے ایبٹ روڈ پر ذرا آگے بڑھے تو مبارک سینما کی عمارت کو دیکھ کر افسوس کا اظہار کرنے لگے یہ سینما بند ہونے کے بعد پہلے پارکنگ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا تھا اب یہاں شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات کروائی جاتی ہیں مبارک سینما سے آگے محفل سینما کی عمارت بھی عرصہ دراز سے تھیٹر ڈراموں کیلئے استعمال ہوتی چلی آ رہی ہے ان دنوں محفل تھیٹر میں سٹیج ڈرامہ “اج جی کردا ” لگا ہوا ہے محفل تھیٹر کے سامنے پرنس سینما بھی اب تھیٹر میں تبدیل ہو چکا ہے پرنس تھیٹر میں ڈرامہ” کالی چادر” لگا ہوا ہے پرنس سینما میں طارق کامران نے اوکاڑہ سے آکر رنگین فلم “بدنام “دیکھی تھی ۔
پرنس تھیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طارق کامران نے بتایا کہ اس عمارت کی دوسری منزل کے فلیٹ میں پریس کلب بھی رہا تھا ہماری معلومات کے مطابق ان دنوں حسین نقی کلب کے صدر اور سعید آسی سیکرٹری ہوا کرتے تھے اس پریس کلب کے پروگرام میں طارق کامران نے مولانا کوثر نیازی کو پہلی بار دیکھا تھا ان کے ساتھ نذیر ناجی بھی تھے اس روز بھی طارق کامران اوکاڑہ سے گھومنے پھرنے لاہور آئے ہوئے تھے اس زمانے میں اکثر لاہور آتے رہتے تھے اور رات قلعہ گجر سنگھ میں مقیم چھوٹے بھائی کے پاس گزارتے تھے بعدازاں خود بھی بسلسلہ ملازمت اوکاڑہ چھوڑ کر لاہور چلے آئے تھے اور پھر لاہور نے انہیں ہمیشہ کیلئے اپنا بنا لیا تھا ، پرنس تھیٹر سے ملحقہ شبستان سینما بھی بند ہو چکا ہے ہم نے سنا تھا کہ کسی زمانے میں یہاں فلم “مولاجٹ” سارا سال نمائش پذیر رہی تھی جس کی آمدن سے شبستان سینما کے مالک نے پرنس سینما کی عمارت بھی تعمیر کر لی تھی شبستان سینما کی عمارت اس وقت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی اور گیٹ کے ساتھ ہی چوکیداروں نے سردی سے بچنے کیلئے آگ جلا رکھی تھی اس سینما گھر کی عمارت اب پارکنگ کیلئے استعمال ہوتی ہے ، شبستان سینما کے برابر والے احاطے کو بھی پارکنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے طارق کامران نے بتایا کہ اس جگہ ماضی میں تھانہ قلعہ گجر سنگھ کی عمارت پائی جاتی تھی بعدازاں تھانہ سڑک پار سامنے والی عمارت میں منتقل ہو گیا تھا پھر یہاں سے چوک گڑھی شاہو سے آگے علامہ اقبال روڈ پر منتقل کر دیا گیا تھا اور ایبٹ روڈ پر تھانہ قلعہ گجر سنگھ والی عمارت میں اب ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کا دفتر بن چکا ہے ، علی سٹور سے ہم حسب عادت بال پوائنٹ خرید کر آگے چل دیئے ۔
بحریہ دسترخوان کے اندر میزوں پر لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جبکہ باہر کچھ لوگ قطار بنائے اپنی باری کے منتظر تھے ، میٹروپول سینما کی عمارت منظر سے غائب ہو چکی تھی اور خالی میدان کو اب پارکنگ کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا میٹروپول سینما کے سامنے سڑک پار نغمہ سینما ہوتا تھا اس کا وجود بہت پہلے ختم ہو گیا تھا طارق کامران نے نغمہ سینما میں انور کمال پاشا کی آخری فلم “بارڈر بلٹ” دیکھی تھی ، نغمہ سینما اور گلستان سینما کے درمیان واقع اقبال ٹی سٹال کے باہر فٹ پاتھ پر حسب معمول بہت سے لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے گلستان سینما میں ماضی کے دوران فلم زرقا بھی لگی تھی یہاں اب بھی فلمیں دکھائی جاتی ہیں ان دنوں بھی اس میں بیک وقت 2 پنجابی اور انگریزی فلمیں نمائش پذیر ہیں گلستان سینما کے سامنے واقع ایوان مشرق میں طارق کامران پہلی بار اوکاڑہ سے اسلم کولسری کو ملنے آئے تھے جو روزنامہ مشرق کے میگزین میں کام کرتے تھے منٹگمری روڈ والے چوک سے پار ایبٹ روڈ کے کیپیٹل سینما میں طارق کامران ایک مرتبہ پنجابی فلم دیکھنے آئے تھے مگر جلد ہی بور ہو کر فلم ختم ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر سینما ہال سے باہر آگئے تھے یہاں کبھی ملنگی جیسی سپر ہٹ پنجابی فلم بھی لگی رہی تھی ان دنوں یہاں پنجابی فلم “ارائیں دا کھڑاک ” لگی ہوئی ہے ، کیپیٹل سینما کے سامنے ایبٹ روڈ کے پار اوڈین سینما کی عمارت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی بھوت بنگلہ ہی لگ رہی تھی اس سینما گھر میں طارق کامران نےطالب علمی کے زمانے میں اوکاڑہ سے آ کر جیمز بانڈ سیریز کی فلم” گولڈ فنگر” دیکھی تھی جس کے ہیرو شین کونری تھے جبکہ اوڈین سینما میں ہم نے شہزاد فراموش کے ساتھ فلم شیرِلاہور دیکھی تھی ۔
ایبٹ روڈ پر اوڈین سینما سے آگے نشاط سینما ہوا کرتا تھا جس کی جگہ اب نیشنل ہوٹل وجود میں آ چکا ہے نشاط سینما میں مشہور نغماتی فلم ہیر رانجھا بھی لگی تھی یہ لازوال گیت احمد راہی نے تخلیق کئے تھے ، طارق کامران نے بتایا کہ نیشنل ہوٹل میں خالد احمد مرحوم اور نجیب احمد مرحوم اپنے گروپ کے ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں کے ساتھ محفل جمایا کرتے تھے اور وہ بھی حامد یزدانی کے ساتھ کبھی کبھار اس محفل میں شریک ہو جاتے تھے نیشنل ہوٹل سے ہمیں یاد آیا کہ عامر فراز بھی وہاں دوستوں کے ساتھ نشست جمایا کرتے تھے اور انہوں نے ایک مرتبہ ہمیں بھی وہاں بلوایا تھا مگر ہم دفتری مصروفیت کے باعث شریک نہ ہو سکے تھے نیشنل ہوٹل سے آگے ثنائی ہوٹل واقع ہے جس کے مالک نے ثنائی فلم تھے سٹوڈیو بیچ کر یہ ہوٹل بنایا تھا اور ثنائی فلم سٹوڈیو کی جگہ پر بعدازاں منصورہ ہسپتال تعمیر کر دیا گیا تھا ثنائی اور کوہ نور ہوٹل کے سامنے ایبٹ روڈ کے پار الفضل ریسٹورنٹ پر بھی خالد احمد مرحوم اپنے گروپ کے ساتھ محفل جماتے رہے تھے جس میں ہم خود بھی کبھی کبھار شریک ہوتے رہے تھے ۔
لکشمی چوک کی طرف بڑھتے ہوئے ہم نے دور سے دیکھا تو اورنج لائن ٹرین کے بالائی ٹریک کے نیچے سے لکشمی بلڈنگ جھانک رہی تھی اس سے ملحقہ نسبت روڈ کے آغاز پر پائی جانے والی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طارق کامران نے بتایا کہ اس کی دوسری منزل پر روزنامہ آفتاب کا پہلا دفتر قائم کیا گیا تھا چیف ایڈیٹر ممتاز طاہر اور چیف نیوز ایڈیٹر اعجاز رضوی جبکہ نیوز ایڈیٹر شیخ حسن برجیس ہوتے تھے طارق کامران بھی روزنامہ آفتاب کے نیوز وم سے منسلک رہے تھے بعدازاں روزنامہ آفتاب کا دفتر لارنس روڈ کی ایک کوٹھی میں منتقل کر دیا گیا تھا پھر ایبٹ روڈ کی گلی میں بھی رہا اب اس کا دفتر ایجرٹن روڈ کی عمارت اجمل ہاؤس میں دفتر روزنامہ جناح کی نچلی منزل پر پایا جاتا ہے طارق کامران نے طباق ریسٹورنٹ کے بارے میں بتایا کہ اس جگہ ماضی میں کنگ سرکل ہوٹل ہوا کرتا تھا جہاں فلمی شخصیات بیٹھتی تھیں ہمیں بھی یاد آگیا کہ اس عمارت کی بالائی منزل پر معین بٹ کے فلمی پرچے سکرین لائٹ کا دفتر بھی ہوتا تھا طباق سے آگے حیدر پان شاپ سے ملحقہ برسٹل ہوٹل کی عمارت عرصہ دراز سے بند پڑی ہے اس کے باہر رات کے وقت بھی پٹھان موچیوں نے دکانیں کھول رکھی تھیں اور وہ نسوار بھی بیچ رہے تھے لکشمی چوک سے ہم دونوں رائل پارک میں داخل ہوگئے۔
رائل پارک کی رونقیں جاری تھیں برہ پان شاپ پر حسب معمول رش تھا وہاں خلاف معمول چند خواتین بھی کھڑی نظر آئیں برہ پان شاپ کے سامنے والی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طارق کامران بتایا کہ اس کی دوسری منزل پر دین محمد درد نے اپنا دفتر بنا رکھا تھا اسی عمارت میں پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن آغا نوید نے اپنا اشاعتی ادارہ قائم کر رکھا تھا جس کے طارق کامران پارٹ ٹائم منیجر رہے تھے ان دنوں یہ دن کے وقت پرنٹ لائن آفس میں کام کرتے تھے اور سہ پہر کے وقت روزنامہ وفاق کے دفتر چیئرنگ کراس چوک چلے جاتے تھے جہاں وہ نیوز روم میں مڈنائٹ ڈیوٹی کرتے رہے تھے پیدل چلنے سے ہمیں بھوک لگنے لگی تھی لہذا ہم طارق کامران کا ہاتھ تھام کر کوزی حلیم ریسٹورنٹ میں داخل ہوگئے اور بیرے کو آرڈر دے کر کھانے کاانتظار کرنے لگے ۔
ہمیں ماضی کے وہ دن یاد آنے لگے جب ہم ٹیمپل روڈ سے رائل پارک میں منتقل ہوئے تھے اور بیڈن ہاسٹل میں رہائش اختیار کی تھی ہمارے ہاسٹل کا دروازہ رائل پارک کے اندر کھلتا تھا جبکہ عقبی کھڑکیاں بیڈن روڈ پر کھلتی تھیں پہلی بالائی منزل پر دائیں طرف آخری کمرہ ہمارا ہوتا تھا اور بالکونی سے میکلوڈ روڈ کا منظر بھی صاف دکھائی دیا کرتا تھا چوک سے پار بٹ سویٹس کے سامنے خواجہ دل محمد روڈ شروع ہو جاتی تھی جو نسبت روڈ کو کراس کر کے دیال سنگھ کالج کے سامنے سے گزرنے کے بعد بالآخر ریلوے روڈ سے جا ملتی تھی جبکہ بیڈن روڈ میکلوڈ روڈ سے شروع ہوتی تھی اور کوپر روڈ کو کراس کر کے ریگل چوک میں مال روڈ سے جا ملتی تھی ریگل چوک کے پار ٹیمپل روڈ صفانوالہ چوک سے گزر کر مزنگ چونگی سے جا ملتی تھی ہمارے شب و روز ریگل چوک کے بعد لکشمی چوک میں گزرتے رہے تھے دفتر سے نائٹ ڈیوٹی ختم کر کے ہم پریس کلب میں چلے جاتے تھے اور وہاں سے الصبح آ کر لکشمی چوک میں حیدر پان شاپ کے سامنے بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر کولڈ ڈرنک پیا کرتے تھے ۔
اس زمانے میں ابھی اورنج لائن ٹرین کا بالائی ٹریک نہیں بچھایا گیا تھا اس لئے لکشمی بلڈنگ نزدیک ہی نہیں دور دور سے بھی صاف دکھائی دیا کرتی تھی ہم رائل پارک سے دوپہر کے وقت پریس کلب جانے کیلئے عموما” کوپر روڈ کا راستہ استعمال کیا کرتے تھے جبکہ شام کے وقت دفتر جانے کیلئے بیڈن روڈ کا رخ کیا کرتے تھے ریگل چوک سے مال روڈ پار کر کے ہم لارنس روڈ یا کوئنز روڈ والے دفتر پہنچ جایا کرتے تھے رائل پارک سے دیال سنگھ لائبریری جانے کیلئے ہم عقبی گلی کے ذریعے احمد یار مارکیٹ میں سے گزر کر میکلوڈ روڈ پار کرنے کے بعد بٹ سویٹس کے سامنے سے ہو کر نسبت روڈ پر آجایا کرتے تھے ہم دیال سنگھ لائبریری کا ہفتے میں کم از کم ایک چکر ضرور لگاتے تھے کبھی کبھار آگے گوالمنڈی یا اردو بازار کا پھیرا بھی لگا لیا کرتے تھے اس زمانے میں ابھی ہم پنجاب پبلک لائبریری کے رکن نہیں بنے تھے البتہ ہر اتوار کی شام پاک ٹی ہاؤس یا ایوان اقبال ضرور جایا کرتے تھے جہاں حلقہ ارباب ذوق کے دونوں دھڑوں کی ہفتہ وار تنقیدی نشستیں منعقد ہوتی تھیں۔
عطاء الحق قاسمی جب آرٹس کونسل کے چیئرمین ہوتے تھے تو ہم رائل پارک سے نکل کر گاہے گاہے الحمرا بھی جاتے رہتے تھے بیڈن ہاسٹل میں ہمارے کمرے کی عقبی کھڑکی بیڈن روڈ پر کھلتی تھی سامنے ہی سڑک پار پیلس مارکیٹ تھی جس کے اندر مدثر اقبال بٹ کے اخبارات روزنامہ پوسٹمارٹم اور روزانہ بھلیکھا کا دفتر ہوا کرتا تھا اسی دفتر میں ہماری رائو جاوید اقبال مرحوم سے پہلی ملاقات ہوئی تھی بیڈن روڈ کے میکلوڈ روڈ والے کونے پر ماضی میں پہلے پیلس سینما ہوا کرتا تھا جسے بہت عرصہ پہلے مسمار کردیا گیا تھا میکلوڈ روڈ پر پیلس سینما سے آگے کوپر روڈ کے کونے پر مون لائٹ سینما ہوا کرتا تھا اور وہ بھی مسمار کر دیا گیا تھا اس کی جگہ مدرسہ و مارکیٹ تعمیر کردی گئی ہے مون لائٹ سینما کے سامنے سڑک پار رٹز سینما کو پہلے گرا کر اس کی جگہ پٹرول پمپ بنا دیا گیا تھا اس پٹرول پمپ پر بنے سروس سٹیشن پر ہم موٹر بائیک دھلوانے کیلئے جایا کرتے تھے رٹز سینما سے ذرا آگے میکلوڈ روڈ سے چیمبرلین روڈ کی طرف جانے والی مشن روڈ پر بھی 2 سینما گھر نگینہ اور ناز ہوتے تھے ناز سینما کو بھی تھیٹر میں تبدیل کر دیا گیا تھا میکلوڈ روڈ پر آگے فرنیچر مارکیٹ کی جگہ بھی ریجنٹ سینما ہوا کرتا تھا جبکہ میکلوڈ روڈ پر لکشمی چوک اور ریلوے سٹیشن کے درمیان رتن سینما اور ایمپائر سینما ہوتے تھے دونوں سینما گھر کئی برس پہلے بند ہوگئے تھے ریلوے سٹیشن سے رائل پارک آتے جاتے ہم ان دونوں سینما گھروں کی عمارتیں دیکھا کرتے تھے ۔
جس روز ہم دوپہر کے وقت پریس کلب نہ جاتے تو رائل پارک سے ہی کھانا کھا لیا کرتے تھے بیڈن ہاسٹل والی گلی کی نکڑ پر ہوٹل ہوتا تھا چوک کے پار ڈسپنسری کی طرف جانے والی گلی کے آغاز میں حلوہ پوری کی دکان ہوتی تھی اس کے علاوہ چوک سے بائیں ہاتھ نان پکوڑوں کی دکان بھی ہوتی تھی ہم دفتر میں نائٹ ڈیوٹی کے بعد پریس کلب میں رات گزارنے کے بعد علی الصبح رائل پارک پہنچ کر کبھی کبھار حلوہ پوری کا ناشتہ کرلیا کرتے تھے اور کبھی دیال سنگھ کالج کے سامنے فٹ پاتھی دکان سے نان چنے خرید کر ہاسٹل کے کمرے میں لے آتے تھے تاہم دوپہر کے وقت رائل پارک سے کبھی نان پکوڑے اور سموسے کھا لیا کرتے تھے اور کبھی گلی کے کونے والے ہوٹل سے دال یا سبزی کی پلیٹ کمرے میں لے جاتے تھے جبکہ روٹی کے بجائے حلیم شاپ برہ پان شاپ کے درمیان واقع تندور سے روغنی نان خرید لایا کرتے تھے اسی وقت ریسٹورنٹ میں ویٹر نے میز پر کھانا لگانا شروع کر دیا جس سے ہماری یادوں کا سلسلہ درہم برہم ہو گیا نان حلیم کھانے کے بعد ہم دونوں رائل پارک سے نکل کر لکشمی چوک میں آگئے اور کچھ دیر میکلوڈ روڈ پر ٹریفک کو گزرتے دیکھتے رہے پھر ایبٹ روڈ کے ذریعے واپس پریس کلب روانہ ہوگئے ۔ (میم سین بٹ)