علی عمران جونیئر
دوستو،ابا،ابو، ڈیڈی، پاپا،پپا، والد صاحب یہ سب نام ایک ہی شخصیت سے ہیں، ہر انسان کا کوئی نہ کوئی ابو ہوتا ہے؟ کسی کو ابو پسند ہوتا ہے تو کسی کو ابو سے شکایات ہوتی ہیں۔۔ سیاست دانوں کے بھی ابو ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بزرگ سیاست دان بھی ابو کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ ہمارے یا آپ کے ابو تو اپنی اولاد نہیں بدل سکتے، لیکن سیاست دانوں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ ان کے ابو اپنی اولاد فوری بدل لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں کچھ مصری مزدور اور ایک انڈین شخص فلیٹ میں ساتھ رہتے تھے،مصری باہم مل کر ہانڈی والی کرتے،ساتھ پکاتے اور ساتھ کھاتے۔۔ جب کہ انڈین الگ سے اپنا پکاتا اور کھاتا۔ایک دن انڈین شخص چھٹی پر انڈیا گیا۔ ادھر مصریوں کو سالن میں ڈالنے والے مصالحہ جات کی ضرورت پڑی۔ مصریوں نے انڈین شخص کے مصالحہ جات سے ہاتھ صاف کرنا بازار جانے کی نسبت آسان سمجھا۔چند ماہ بعد انڈین واپس آیا،مصریوں سے ملا اور اپنے کمرے میں داخل ہوا،کچھ دیر بعد وہ گھبرایا ہوا، بڑبڑاتے اپنے کمرے سے نکلا ۔۔مصریوں نے پوچھا کیا ہوا؟ انڈین کہنے لگا میں کمرے میںداخل ہواتو دیکھا کہ ۔ میرا ابا کمرے سے غائب ہے؟مصری بہت حیران ہوئے، حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور بیک زبان پوچھا کہ۔ تم تو کہتے تھے، تیرا ابا کئی سال پہلے فوت ہوگیا ہے؟انڈین کہنے لگا۔ جی ابا تو کئی سال پہلے فوت ہوئے تھے،ہم نے اس کی ارتھی بھی جلائی تھی ابا کے شریر کی راکھ سے تھوڑی سی ”استھیاں”میں ایک برتن میں اپنے ساتھ لے آیا تھا اور مصالحہ جات والے ڈبوں کے ساتھ رکھی تھی وہ راکھ غائب ہے،مصری پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ۔مطلب وہ کالی مرچیں نہیں تھیں کیا؟؟
ذکر انڈیا کا چھڑگیا ہے تو بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے جیسلمیر سے بیکانیر کے راستے میں ایک بڑا سا گاؤں آتا ہے، جس کا نام ہے،”ناچنے”۔وہاں سے بس آتی ہے تو لوگ کہتے ہیں، ناچنے والی بس آگئی۔کنڈیکٹر بھی بس رکتے ہی زور زور سے چلانے لگتا ہے۔ناچنے والے اتر جائیں بس آگے جائے گی۔اندراگاندھی نے جب انڈیا میں ایمرجنسی لگائی تو ”را” کا ایک افسر جیسلمیر آیا، رات بہت ہوچکی تھی، وہ سیدھا تھانے ہی پہنچا اور ڈیوٹی پر مامور ایک سپاہی سے پوچھا ۔داروغہ کہاں ہے؟سپاہی نے جواب دیا۔ داروغہ صاحب” ناچنے” گئے ہیں۔۔افسر کا ماتھا ٹھنکا، اور تلخ لہجے میں پوچھا، ڈپٹی صاحب کہاں ہیں؟ سپاہی نے بڑی شانتی سے جواب دیا۔ صاحب! وہ بھی” ناچنے” گئے ہیں۔افسر موصوف کو لگا کہ شاید سپاہی افیم کے نشے میں ہے،اس نے ایس پی کی رہائش گاہ پر فون کیا۔ہیلو، ہیلو،ایس پی صاحب ہیں؟ادھر سے ایک موٹی آواز کی محترمہ نے جواب دیا۔جی نہیں، وہ” ناچنے” گئے ہیں۔افسر کا دماغ خراب ہوگیا، یار یہ کیا ہو رہاہے اس سرحدی ضلع میں اور وہ بھی ایمرجنسی کے وقت!پاس کھڑا منشی دھیان سے سن رہا تھا، تو وہ بولا۔صاحب دہلی سے آج کوئی منسٹر” ناچنے” آئے ہیں، اسی لیے سب افسر لوگ بھی” ناچنے” گئے ہیں۔۔ واقعہ کی دُم: شکر اداکریں، اس ملک میں ” ناچنے” نام کا کوئی علاقہ نہیں ہے، ورنہ پوری قوم کو ناچنے میں لگادیاجاتا۔
کسی صاحب کے حوالے سے مشہور تھا کہ انتہا کے کنجوس واقع ہوئے ہیں، ایک روز اچانک بن بلائے ان کے گھر کچھ مہمان آگئے، ان صاحب کی تو جان حلق میں آگئی، بیٹے کو بازار سے گوشت لینے کے لئے بھیجا، کئی گھنٹے تک وہ واپس نہیں آیا، ادھر مہمانوں کو ان صاحب کی کنجوسی کا اچھی طرح سے علم تھا، وہ ٹلنے والے نہیں تھے، بیٹا جب واپس آیا تو باپ نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔گوشت کہاں ہے؟ بیٹے کا جواب، میں قصائی کے پاس گیا اور کہا کہ جو سب سے عمدہ گوشت ہے تمھارے پاس وہ دیدو۔قصائی نے کہا میں تمہیں ایسا گوشت دوں گا گویا کہ مکھن ہو۔تو میں نے سوچا اگر ایسا ہی ہے تو مکھن ہی لے لوں۔تو میں ڈیری شاپ والے کے پاس گیا اور کہا جو سب سے عمدہ مکھن ہے تمہارے پاس وہ دے دو۔وہ بولا۔۔ میں تمہیں ایسا مکھن دوں گا گویا کہ شہدہو۔تو میں نے سوچا اگر ایسا ہی ہے تو شہد ہی خرید لوں تو میں شہد والے کے پاس گیا اور کہا جو سب سے عمدہ شہد ہے تمہارے پاس وہ دے دو،تو شہد والے نے کہا میں تمہیں ایسا شہد دوں گا گویا کہ بالکل صاف شفاف پانی ہو۔۔تو میں نے سوچا اگر یہی قصہ ہے تو پانی تو ہے ہی گھر میں موجود۔اس لیے میں خالی ہاتھ واپس آ گیا۔باپ نے بیٹے کو تھپکی دی اور اس کے کان میں سرگوشیانہ انداز میں کہا۔۔واہ بیٹے ،یہ تم نے بہت شاطرانہ چال چلی، لیکن ایک نقصان کر دیا۔وہ یہ کہ ایک دکان سے دوسری دکان جانے میں تمہاری چپل گِھس گئی ہوگی۔بیٹے نے آہستہ سے جواب دیا۔ نہیں ابا، ایسا نہیں ہے، میں مہمان کی چپل پہن کے گیا تھا۔
اب ایک موٹی۔ویشنل واقعہ سن لیں۔۔ایک چینی شخص جس کا نام شائو لنگ لی ہے، 30 سال تک امریکہ کے ویزے کے لئے اپلائی کرتا رہا یہاں تک کہ امریکی ایمبیسی میں تمام لوگ اسے جاننے لگے لیکن ہر بار اس کا ویزہ مسترد کیا جاتا رہا،اس نے کینیڈا کی امیگریشن کیلئے 15 درخواستیں دیں لیکن ہر دفعہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس نے چائنیز نیوی میں اپلائی کیا لیکن وہاں سے بھی ناکام واپس لوٹا۔اس نے اور 123 دیگر لوگوں نے ایک چینی سافٹ وئیر کمپنی میں جاب کیلئے اپلائی کیا۔ ان میں سے 121 سلیکٹ ہوگئے جبکہ وہ ریجیکٹ ہونے والے 2 بندوں میں شامل تھا۔پھر اس نے چینی پولیس میں بھرتی ہونے کی درخواست دی۔ اس کے ساتھ 20 دوسرے لوگوں نے بھی درخواست دی جو سب کے سب سلیکٹ ہوگئے اور صرف وہی ریجیکٹ ہوا۔لیکن ان سب ناکامیوں کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری اور اس نے ای مارکیٹنگ میں داخل ہونے کا سوچا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ Amazon جیسی ایک ویب سائیٹ بنائے لیکن اس سب کیلئے اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی بیوی کی جیولری بیچی اور بینک سے قرضہ لیا اور کئی سال کی انتھک محنت کے بعد وہ ایک دفعہ پھر ناکام ہوگیا اور آج کل وہ جیل میں ہے۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگراں وزیراعظم کے حوالے سے اہم ملاقات، خبریہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے پوچھتے رہے، نگراں کون آرہا ہے؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔