تحریر: مظہر عباس۔۔
لگتا ہے سال 2021 کی ’آڈیو وڈیو لیک‘ کی سیاست میں 2022 میں زیادہ شدت سے آئے گی کیونکہ یہ الیکشن کا سال ہو نہ ہو سیاسی گرما گرمی کا سال ضرور رہے گا۔ ویسے بھی اب سیاست ’بیڈ روم‘ تک آ گئی ہے۔وہ بھی ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے جو آئندہ آنیوالے انتخابات میں سب سے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوگا۔ نہ کسی کو اب جلسے کی ضرورت نہ جلوس کی اور اسی لیے شاید بڑی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو مضبوط بنانا شروع کر دیا ہے۔اب کیا سچ ہے کیا ’فیک‘ اسے جاننے کی کسے پروا ،یوں بھی سر بازار آپ نے کسی کی پگڑی اچھال دی وہ تو بس وضاحتیں ہی کرتا رہے گا۔
جو سیاست 70کی دہائی میں ڈرائنگ روم سے نکل کر گلی کوچوں اور میدانوں میں آ گئی تھی واپس اسی ڈگر پر جا رہی ہے مگر منفی انداز میں۔ اب سیاست ایک ’موبائل‘ میسج، ایک آڈیو یا وڈیو لیک کی مار ہے۔لہٰذا اب جماعتوں کو سیاسی کارکن نہیں آئی ٹی کا تجربہ رکھنے والے ماہرین چاہئیں۔ یہ کام پاکستان تحریک انصاف نے خاصا موثر انداز میں 2013 میں کیا مگر اب ہر بڑی جماعت اس پر کام کر رہی ہے۔ شاید آپ میں سے بہت سے لوگوں کو یاد ہو کہ چند ماہ پہلے صرف چند گھنٹوں کے لیے واٹس ایپ، انسٹا گرام، فیس بک، ٹک ٹاک وغیرہ کیا بند ہوئے کہ ایسا لگا سیاست پر پابندی لگا دی گئی ہو۔زندگی ٹھہر سی گئی ہر چند منٹ بعد لوگ چیک کرتے پائے گئے کہ سروس بحال ہوئی کہ نہیں، جب جہاں وزیراعظم سے لے کر ایک عام آدمی تک نیٹ ورک سے جڑا ہو وہاں سروس معطل ہو جانا کسی سزا سے کم نہیں۔شہباز شریف صاحب نے اپنے دور میں ہزاروں کی تعداد میں ’لیپ ٹاپ‘تقسیم کئے۔ فائدہ بہرحال اس کا خان صاحب نے اٹھایا کیونکہ ان کا نیٹ ورک زیادہ مضبوط تھا۔ عین ممکن ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آئندہ منشور میں مفت موبائل تقسیم کرنے کا وعدہ شامل ہو۔ اب تو نعرہ بھی لگ سکتا ہے ’’کون کرے گا رہنمائی موبائل بھائی موبائل بھائی‘‘۔
اب تو وہ جماعتیں بھی اس دوڑ میں آگے آگے نظر آتی ہیں جو کل تک ٹی وی کو گناہ سمجھتی تھیں۔ ’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘ اب ان سب کا محرک سوشل نیٹ ورک ہیں۔ وہ بھی ایک زمانہ تھا جب ’خفیہ والے‘ موٹر سائیکل یا گاڑی پر سیاست دانوں کی نگرانی کرتے تھے اب صرف ان کی ’موبائل لوکیشن‘ کافی ہوتی ہے۔ایک بات طے ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں سیاست آڈیو یا وڈیو لیک کے گرد گھومے گی۔ پہلے لیک کرو پھراس پر گرما گرم بحث سوشل میڈیا سے شروع ہو کر مین اسٹریم میڈیا تک پہنچ جائے۔ اب جب تک اس کی کوئی متبادل کہانی آئے، بندہ یا بندی بدنام ہو چکے ہوتے ہیں۔
یہ الگ بات کہ آج ’فیک نیوز‘ فیکٹس‘ سے بہت آگے ہے۔ جھوٹ کو سچ سمجھ کر فالو کرنے والوں کی تعداد سچ بولنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ چند سال میں کئی ’لیک‘ آئیں وکی لیک سے لے کر پانامہ لیک تک۔ ان میں تو پھر بھی بہت سے مثبت پہلو تھے اور ایسی لیکس نے دنیا کی سیاست ہی بدل دی۔پاناما آیا تو کئی حکمرانوں کو استعفیٰ دینا پڑا کچھ جیل بھی گئے کچھ نااہل ہوئے ہمارے سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت۔اب پنڈورا لیکس والوں کی تلاش جاری ہے۔ لگتا ہے یہ معاملہ زیادہ طوفان نہیں لائے گا۔سال 2021میں کچھ آڈیو وڈیو لیکس نے خاصی تباہی مچائی، سلسلہ چیئرمین نیب کی مبینہ وڈیو لیک سے شروع ہوا تھا جس کے بعد نیب کے کیس کی رفتار اوررخ حزب اختلاف کی طرف مڑ گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ زیادہ تر آڈیو وڈیو لیک میں ریٹائرڈ ججز کا نام آ رہا ہے۔
بات جسٹس ارشد ملک مرحوم کی وڈیو سے شروع ہو کر مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار تک پہنچ گئی۔ ابھی بحث یہیں ختم نہیں ہوئی تھی کہ مریم نواز صاحبہ کی آڈیو لیک آگئی۔اب بات تحقیقات یا کمیشن بنانے کے مطالبوں سے آگے چلی گئی ہے اب تو بس کسی کے بارے میں آپ ایک تاثر میڈیا میں قائم کروا دیں تو مرتے دم تک اس کا نام اس سے جڑا رہے گا۔آخر کوئی تو وجہ ہے کہ ایسی زیادہ تر آڈیو یا وڈیو لیکس عدالتی چارہ جوئی کا حصہ نہیں بنیں نہ کسی نے اپنے دفاع کے لیے ان کا سہارا لیا۔ نہ کسی نے چیلنج کیا۔عدالت ازخود نوٹس لے تو الگ بات۔ بقول ہمارے ایک دوست جو ہائی کورٹ کے سابق جج ہیں’’ ان کو ثابت کرنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے‘‘۔ ان کے بقول عدالت کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ یہ وڈیو کس نے لیک کی، کیوں کی اور کہاں ہوئی۔ ریکارڈ کرنے والا کون تھا وغیرہ وغیرہ۔
کافی حد تک میرے دوست کی بات درست ہے۔ مشکل سے ہی کوئی پکڑ میں آتا ہے یہاں تو سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے پکڑے جانے والے چھوٹ جاتے ہیں لیک والے کہاں سے پکڑے جائیں گے؟آپ میں سے شایدبہت سے لوگوں کو یاد ہو کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ایک دہشت گرد صولت مرزا کی وڈیو تمام چینلز پر ایک ساتھ چلی، کسی نے سوال نہیں کیا کہ سب کو یہ وڈیو کہاں سے ملی، بس اتنا کافی تھا کہ یہ نہ دیکھو کہ ریکارڈ پھانسی گھاٹ میں کیسے ہوئی اتنا کافی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔آڈیو وڈیو لیک کے گرد گھومتی یہ سیاست نئے سال میں بھی جاری رہے گی، عین ممکن ہے اس میں تیزی آئے ۔ اب فقیرانہ سیاست کا زمانہ نہیں رہا نہ ہی اب وہ صحافت رہی بس کوئی لیک ہاتھ لگ جائے تو کئی دن کی فرصت، سیاست دانوں کے انفرادی بھی اور جماعتوں کے بھی سوشل میڈیا نیٹ ورک موجود ہیں۔
اب تو جیلوں اور عقوبت خانوں میں بھی سوشل میڈیا موجود ہے۔ یہاں بیرک میں بیٹھے کرمنلز اپنے ساتھیوں کے ذریعہ کارروائی جاری رکھنے کا کہتے ہیں۔ اب ہاتھ میں قلم اور نوٹ بک نہیں ہوتی، کیمرے کی جگہ آئی فون نے لے لی ہے، موبائل سے ٹکرز لکھوا دو بس پھر دفتر جانے کے بجائے کینٹین میں بیٹھ کر چائے پیو۔لہٰذا آج کی سیاست ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ بس آپ اپنے سامنے کیمرہ رکھیں اور قوم سے خطاب شروع۔مگر اس سب میں تھوڑی سی مشکل یہ ہے کہ آپ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ آپ کے سوشل میڈیا اکائونٹ کو۔لائیک کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے تو یہ آپ کے فالوورز بن گئے۔ ایک سابق فوجی صدر یہ سمجھ کر کراچی آئے تو چند سو افراد تھے استقبال کے لیے۔(بشکریہ جنگ)۔۔