ab to bolna or likhna muhskil hogya

اب تو بولنا  اور لکھنا مشکل ہوگیا ہے،ایازامیر۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایازامیر کاکہنا ہے کہ ۔۔حالات ایسے بن چکے ہیں کہ اپنے آپ کو فقیروں میں ہی شمار کرنا پڑے گا۔ بولنا مشکل‘ لکھنا بھی مشکل۔ حساسیت ایسی کہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کِیا جائے۔ اوپر سے کوئی وکیل‘ دانشور یا قوم کا معمار اُن آزادیوں کا ذکر کرے جو آئین میں درج ہیں تو ہاتھ پستول کو جاتا ہے۔ اب تو سمجھ پن اسی میں ہے کہ آئین وغیرہ کا ذکر ترک کر دیا جائے۔ دوست احباب چھبیسویں آئینی ترمیم کو روتے ہیں حالانکہ جنازہ تو اتنی چیزوں کا اُٹھ چکا ہے کہ صرف چھبیسویں آئینی ترمیم کوئی معنی نہیں رکھتی۔روزنامہ دنیا میں اپنے تازہ کالم میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ وقت ایسا آ چکا ہے کہ ہر ایک نے نیند کی گولی نہیں کھائی ہوئی۔ جو ایسا کر سکتے ہیں وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ شورش وہاں دب نہیں رہی زیادہ خطرناک ہو رہی ہے۔ کے پی کے کی صورتحال دیکھ لیں‘ اس پر غور کریں تو لرزہ طاری ہونے لگتا ہے۔ اور ہمارے جو چکوال اٹک اور میانوالی کے علاقے ہیں‘ کے پی کے تو ہمارے پڑوس میں ہے۔ تب کے افلاطون کیا رام کہانیاں سناتے تھے کہ افغانستان کی بدولت پاکستان کو سٹریٹجک گہرائی نصیب ہو گی۔ ایسی گہرائی جو اَب ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے۔ اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ تدارک کیلئے کرنا کیا ہے۔ کس معصومانہ انداز سے کہا جاتا ہے کہ شورش زدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ دھیان بٹے ہوئے ہیں‘ فروعی کاموں میں قومی توانائیاں صرف ہو رہی ہیں‘ اور بات پھر اتحاد کی۔ عوام کو خاطر میں لانا نہیں اور بس اتحاد کا راگ الاپتے رہنا۔ کہیں سے تو امید کی کرن نظر آئے لیکن شام اندھیری اور غم ایسے کہ بھلائے نہ جائیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں