سینئر صحافی، اینکر پرسن اور کالم نویس سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ کل تک باجوہ ڈاکٹرائن کا زوروشور تھا لیکن اب بی بی ڈی ڈاکٹرائن کا راج ہے۔۔ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے تازہ کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ ۔۔ ابھی کوئی بھی نہیں بھولا ہوگا کہ کل تک باجوہ ڈاکٹرائن کا زور و شور تھا اس پر عملدرآمد ہوا پراجیکٹ عمران چلا پھر اس کی بساط الٹا دی گئی یعنی ڈاکٹرائن کے ذریعے جو ہوا اسے حرف غلط کی طرح مٹایا جا رہا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بی بی ڈی ڈاکٹرائن شروع ہو چکا ہے۔ یہ ایک فوکسڈ ڈاکٹرائن ہے ۔ بی بی ڈی دراصل بلاسٹ، بلڈوز اور ڈسٹرائے کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے کہ سمگلنگ، ڈالر کنٹرول، چینی کی غیر قانونی برآمد کو، دھماکے، زبردست سختی اور تباہ کرکے ختم کیا جائے۔ اس ڈاکٹرائن کے ایک حامی نے بتایا کہ تھوڑے ہی عرصے میں سمگلنگ پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، ڈالر کی قیمت میں بتدریج کمی اور ٹھہراؤ دیکھا جارہا ہے، چینی کی قیمت پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے گہرے تعلقات بنانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔اس حامی کا کہنا ہے اس ڈاکٹرائن کے اہداف ملک گیر ہیں بالآخر ملک کے فائدے پر منتج ہوں گے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔یہ درست ہوگا کہ موجودہ ڈاکٹرائن ریاست اور معیشت کی چولیں سیدھی کررہا ہے لیکن ریاست کا اہم ترین حصہ ملک کا سیاسی نظام، سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت ہوتی ہے اگر اس کے لئے موجودہ ڈاکٹرائن کے پاس کوئی مرد مہربان موجود نہیں ہے تو یہ نظام کیسے چل پائے گا؟مجھے ذاتی طور پر سیاسی وفادار اچھے لگتے ہیں لیکن مجھے ان لوگوں سے ہمدردی ہے جو خوف، ڈر یا پھر اپنی مرضی سے ریاست کی چھایا چھتری میں آئے مگر اب نہ کوئی ان کا حال پوچھ رہا ہے اور نہ ان کی کسی کو فکر ہے، کیا ڈاکٹرائن کو صرف بلاسٹ، بلڈوز اور تباہ ہی کرنا ہے یا کچھ نیا بنانا بھی ہے؟ میری حقیر رائے میں اگر صرف عمارت گرانا مقصود ہے تو یہ کوئی اچھا ہدف نہیں اس کی جگہ اگر نئی اور بہتر عمارت کی تعمیر کی منصوبہ بندی شامل نہیں تو منصوبہ ہی ناقص ہے۔کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ایسے اس لئے نہیں چل سکتا کہ اہداف واضح نہ ہوں تو عمارت ٹیڑھی میٹرھی اور ناقص ہوگی جو چل نہ سکے گی۔ ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا؟ 1988ء میں پیپلز پارٹی کو پہلی بار انتخابات میں اترنے کا موقع ملا تو سارے کلے اکھڑ گئے اور اینٹی پیپلز پارٹی ٹیم تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ اب بھی تحریک انصاف کے خلاف الیکشن جیت بھی لیا جائے تو کل جب تحریک انصاف کو موقع ملے گا تو یہ نظام تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائےگا۔