تحریر: اسدمحمود۔۔
خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کی چپقلش پر بھانت بھانت کے تبصرے ہوئے …… پروفیسر خاموش رہے …… مجھے اُن کی چپ چبھتی رہی…… لیکن اُن کی طرف سے پہل کا منتظر رہا …… دراصل جب تک پیمانہ چھلک نہ جائے …… نہ پروفیسر بولتے ہیں اور نہ ہی میری تشفی ہوتی ہے …… سو میں نے بھی ‘چپ شاہ’ کا روزہ رکھ لیا ……
‘ خواتین ڈے ‘کو میں اُن کے گھر ہی بیٹھا تھا جب ‘پلے کارڈز’ اُٹھائے نعرہ زن حضرات و خواتین اُن کی ڈرائنگ روم کی کھڑکی کی طرف والی روڈ سے گزرنے لگے …… پروفیسر نے ایک نظر اُنہیں دیکھا اور پھر کتاب میں گم ہو گئے …… جب ‘ہزاروں ‘ کا مارچ (پتہ نہیں اِسے ہزارہ مارچ کہہ سکتے ہیں یا نہیں !)گزر نے پہ شور ذرا تھما تو پروفیسر نے کتاب رکھ کے چائے اُٹھا لی اور اپنی عادت کے مطابق سوال سے ہی بات چیت کا آغاز کیا …… ”برخوردار!یہ خواتین کس لیے احتجاج کررہی ہیں؟”…… میں نے رَٹو طوطے کی طرح میڈیا کا سکھایا ہوا بیان دُہرایاکہ”سر !یہ آزادیٔ نسواں کے لیے جدوجہد کررہی ہیں”…… اور وہی ہوا جس بات کی پروفیسر سے اُمید کی جاسکتی تھی …… یعنی ایک اور سوال کی …… بولے…… ”خواتین کی آزادی؟؟؟ کیا انہیں احتجاج کرنے سے کوئی روک رہاہے؟”…… اِس بار میں نے جواب کے لیے سوشل میڈیاکا سہارا لیا …… ”نہیں جناب!یہ مردانہ تسلط سے آزادی کی خواہاں ہیں۔ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا چاہتی ہیں۔ دفتروں،سکولوں ،کالجوں میں مردوں کے ماتحت نہیں بلکہ ان کے شابہ بشانہ کام کرنا چاہتی ہیں۔ یہ چاہتی ہیں کہ کوئی مرد ان کے معاملات میں بالکل دخل نہ دے”……
پروفیسر نے میری تقریر کے جواب میں روایتی سوال کے ساتھ ایک اشتعال انگیز جملہ بھی اُچھالا…… ”نوجوان !کیا تمہیں یقین ہے کہ مردوں کے تسلط سے آزادی چاہتی ہیں؟؟ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ تسلط اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہیں”…… میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے…… جلدی سے دائیں بائیں دیکھا …… اور گھٹی گھٹی آواز میں پوچھا…… ”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب؟؟؟”…… اب پروفیسر باقاعدہ سٹارٹ ہو چکے تھے …… سو چل نکلے…… ”دیکھو بھئی!دفتروں میں تو افسری ماتحتی کے باقاعدہ قوانین ہوتے ہیں ۔ماتحت چاہے وہ مرد ہو یا عورت ،اُسے حکم ماننا ہی پڑتا ہے۔ہاں اگر یہ عورت ہونے کے وجہ سے افسری میں کوئی اسپیشل کوٹہ لیناچاہتی ہیں تو پھر یہ آزادی کی جدوجہد تو ہر گز نہیں کہلاسکتی”…… یہ سن کر میری پاؤں تلے سے زمین سرک گئی …… سر پر سے آسمان ہٹ گیا …… عجلت میں اور کچھ تو سوجھا نہیں …… بس بھاگ کر کھڑکی بند کردی …… بانوقدسیہ سے ایک جملہ مستعار لے کر پروفیسر کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے …… ”یہ آپ کیا کہہ رہے سر ؟؟؟ خدا کے لیے چپ ہوجائیں اگر کسی ترقی پسندی کی دعوے دار عورت سے سن لیا تو آپ نے اس کے ہاتھوں حلال ہوجانا ہے بلکہ حرام ہو جانا ہے”…… مگر پروفیسر کے جواب سے یقین ہوگیا کہ اُنہوں نے زمانہ دیکھ لیا ہے اوریہ بھی کہ اب وہ مزید جینے میں کوئی دِلچسپی نہیں رکھتے …… کہنے لگے…… ”تو کیا میں یہ سمجھوں کہ وہ جو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہی ہیں وہ مجھے رائے کے اظہار کی آزادی دینے پر بھی تیار نہیں ہیں؟”…… مجھے خجالت اورشرمندگی کے باعث بلڈپریشر گرتا ہوا محسوس ہوا سو تھرماس سے گرماگرم چائے کا کپ بھرا اور اُسے ‘پیگ’ کی طرح ڈیک لگا کر پی گیا اور پروفیسر پر ایک اُچٹتی افسردہ نگاہ ڈالی اور سلام کیے بغیر ہی اُٹھ کر باہر نکل آیا۔۔(اسدمحمود)۔۔