خصوصی رپورٹ۔۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ’ عدلیہ اور میڈیا پر حملہ ‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک روزہ نمائندہ کنونشن کے شرکاء نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے کہ میڈیا میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مرئی اور غیر مرئی مداخلت لازما ً بند ہونی چاہیئے ،میڈیا کی آزادی اورآزادیٔ اظہار رائے کو یقینی بنایا جائے،آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کے حق کا احترام کیاجانا چاہیئے ،میڈیا اور سول سوسائٹی کے خلاف ہائبرڈ وار فیئر(میڈیا سمیت مختلف ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے لڑی جانے والی جنگ ) کا خاتمہ ہونا چاہیئے ، میڈیا میں سنسر شپ ،اور سیلف سنسر شپ کا خاتمہ ہونا چاہیئے ،میڈیا انڈسٹری کو محکوم نہ بنایا جائے ،جن نمایاں صحافیوں کو جبراً دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے انہیں فوری طور پر بحال کیا جائے ،اخبارات کی ایڈیٹوریل پالیسی میں مداخلت بند کی جائے ، حکومت کے جاری کئے گئے غیر قانونی ڈائریکٹیووز کو نہ ماننے کی پاداش میں ریڈیو، ٹیلی ویژن کی نشریات ،ٹاک شوز اور رپورٹنگ کو بند کرنے سے گریز کیا جائے، اخبارات کی سرکولیشن کے راستے میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں ختم کی جائیں ،آٹھ ہزار میڈیا کارکنوں کو فوری طور پر ان کے سابقہ بقایا جات کے ساتھ بحال کیا جائے ،صحافیوں کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہوئے ان کے بقایاجات فوری طور پر ادا کئے جائیں ،میڈیا سے متعلق تمام تر کالے قوانین بشمول مجوزہ میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021،پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016اور سٹیزن پرویکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم)رولز 2020کو فوری طور پر واپس لیا جائے ،کیونکہ ان قوانین کو سوشل میڈیا اور آن لائن صحافت کو دبانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ، فوری طور پر ویج ایوارڈ 2019نافذ کیا جائے ،میڈیا کے شعبہ سے منسلکہ مختلف فریقین میں تقسیم پید اکرنے کا عمل فوری طور پر روکا جائے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا 18نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ تسلیم کیا جائے ،قرارداد میں مزید کہاگیا ہے کہ ملک بھر سے لاپتا کئے جانے والے تمام افراد کو فوری طور پر سامنے لاکر انہیں انصاف فراہم کرنے کے لئے قانون کے دائرہ کار (عدلیہ کے سامنے )میں لایا جائے اور ان کے خاندانوں کی مالی امداد کی جائے ۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر انتظام، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، پاکستان بار کونسل ،ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ،اے جی ایچ ای اور سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ایک روزہ نمائندہ کنونشن منعقد کیا گیا ،کنونشن کے آخر میں پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی نے مذکورہ بالا قرار داد پیش کی جسے حاضرین نے متفقہ طور پر منظور کرلیا ،قبل ازیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے تک ملک بھر کے وکلاء ،صحافی اور سول سوسائٹی ان کے ساتھ ہے ،انہوں نے کہا کہ ملک میں بدعنوانی زوروں پر ہے ،سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے والد فوج میں امام مسجد تھے اور ان کے پاس کل دو مرلہ کا گھر تھا اور اب اس کی اولاد اربوں روپے کی جائیدادوں کی مالک ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آئین و قانون کی سربلندی اور میڈیا کی آزادی کے بغیر ملک میں ترقی ممکن نہیں ہے ،ہم میڈیا پر پابندیوں کے لئے تشکیل دیے گئے تمام تر کالے قوانین کو مسترد کرتے ہیں،ہم تمام صحافیوں پر پابندیوں اوران پر کئے جانے والے تشدد کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نےکہا کہ یہ ایک فاشسٹ اسٹیٹ بن رہی ہے ، آمروں نے اس ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے ،جنرل ضیا الحق کے دور میں مزدور اور طلبہ یونین سمیت تمام تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی تھی ،وکلاء ملک دشمن قوتوں کے سامنے اس وقت سیسہ پلائی دیوار ہیں، جن میں دراڑیں پیدا کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں،انہوں نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حال سب کے سامنے ہے ،بلاوجہ میڈیا چینلز بند کرنا اور صحافیوں پر پابندیاں لگانا معمول بن چکا ہے،ِ اس وقت جس نہج پر ملک کھڑا ہےِ یہ سوچنے کا مقام ہے۔وکلا، میڈیا، سول سوسائٹی ،سیاسی جماعتوں کا اتحاد ضرورت ہے۔پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی نےکہا کہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر وکلاء ،صحافیوں سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کا ایک متحدہ محاز بنانے کی ضرورت ہے،وکلا انشا اللہ ملک میں قانون کی بالادستی ،آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لئے کام کرتے رہیں گے اور ہمیشہ کی طرح ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار بھی ہیں۔سینئر صحافی حامد میر نےکہا کہ مجھے بار کے صدر نے سمجھا کر یہاں کھڑا کیا ہے ،اس لئے زیادہ نہیں بولوں گا ،تاہم علی احمد کردایڈوکیٹ نے یہاں پر جو کچھ اس تقریب میں کہا ہے ،ہوسکتا ہے کہ ان پر مقدمہ قائم ہو جائے ،ایک وقت تھا جب پرویز مشرف کے دور میں میڈیا پر پابندی لگی تو عمران خان ہمارے پاس اظہار یکجہتی کیلئے آیا کرتے تھے ،اور کہا کرتے تھے کہ اگر میں اقتدار میں آیا تو میڈیا سے پابندیاں ہٹا دوں گا۔ سینئر صحافی امتیاز عالم نے کہا کہ بہت ہوگئی ہے ،ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 1948میں تھے ،اس وقت کے کولونیل سسٹم میں انگریز ایک گورنر جنرل بھیج دیتا تھا ،ہم دیکھ رہے ہیں کہ غلام محمد کے دور سے لیکر پرویز مشرف کے دور تک بھی یہی کچھ نظر آتا تھا ، پاکستانی میڈیا مرچکا ہے ،اس لئے اس کی فاتحہ پڑھ لیں ،،میڈیا پر خوفناک قسم کی سنسر شپ ہے ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدرشہزادہ ذوالفقار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی آزادی ،میڈیا گروپوںکے مالکان کا مسئلہ نہیں بلکہ صحافیوں کا مسئلہ ہے ،یہ لڑائی ہم نے ہی لڑنی ہے ،انہوںنے کہاکہ 2004سے بلوچستان میں 24صحافی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں ۔12 کراس فائرنگ یا خود کش حملوں کا نشانہ بنے ہیں ،انہوںنے مزید کہاکہ آگے چل کر ہمارے لئے مزید سختیاں ہیں جبکہ میں آج بھی ان کی تپش دیکھ رہا ہوں۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سیکرٹری ناصر زیدی نےکہا کہ آج ملک میں صرف نام کی جمہوریت رہ گئی ہے، میڈیا تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، میڈیا سول سوسائٹی اور وکلا ء اس کڑے وقت میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کیلئے باہرنکل آئے ہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے،اگر عوام کی طاقت ہمارے ساتھ رہی تو انشا اللہ ہم اپنے مقاصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر ایڈوکیٹ کی صاحبزادی منیزے جہانگیر نےخطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں کہ ہم ملک میں جنگل کا قانون نہیں چاہتے ہیں ،میری والدہ نے لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے 400 مرتبہ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے تھے ،ملک میں آزادمیڈیا کیلئے میری والدہ نے ہمیشہ آواز اٹھائی تھی ،وکلاء ،میڈیا اور سیاستدانوں سے لوگوں کو بڑی توقعات ہیں۔ سینئر وکیل ،سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نےکہاکہ جب بھی کسی قوت نے منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے ہماری عدلیہ نے اسے مایوس نہیں کیا ہے ،ہماری رہنما عاصمہ جہانگیر اب ہم میں موجود نہیں ہیں اگر آج وہ ہوتیں تو ضرور ہماری رہنمائی کرتیں۔سرائیکی نیشنل پارٹی کے سربراہ عبد المجید کانجونےکہا کہ چولستان اور سرائیکی علاقے کی زمینیں غریب کاشتکاروں کی بجائے مراعات یافتہ طبقے کو الاٹ کی جارہی ہیں ،استدعا ہے کہ اس زیادتی کیخلاف وکلا ء اور صحافی ہمارا ساتھ دیں۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین ، سید امجد حسین شاہ نےکہا کہ آئین کے آرٹیکل (3)184 کے پیرامیٹرز طے کیے جانا نہایت ضروری ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزول جج، شوکت عزیز صدیقی کےلگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر افراسیاب خٹک نےکہا کہ ملک میں چار مارشل لاء لگائے گئے،اس وقت ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا ء نافذ ہے موجودہ صورتحال زیادہ خطرناک ہے،وفاق اوراس کے اداروں کو جڑ سے اکھاڑا جا رہا ہے ،ہمارے اوپر غاصب مسلط ہیں،انہوںنے کہاکہ ایک آزاد عدلیہ اور صحافت کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نےکہاکہ صحافی اس ملک کا مظلوم طبقہ ہیں،تاریخ گواہ ہے کہ کسی صحافی کو کسی ادارے نے تحفظ نہیں دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف اور ضیا الحق کے ادوار میں صحافت پرجو پابندیاں عاید تھیں سب کو معلوم تھیں لیکن اب یہ پابندیاں دوبارہ چور دروازے سے آنا چاہتی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نےکہا کہ ملک کے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹادیا گیا ہےاس پر یہ کہہ کر بات نہیں کی گئی کہ یہ سیاسی بات ہے، یہ سیاسی بات نہیں تھی ،ملک کے مفاد کا معاملہ تھا۔انہوں نے کہاکہ اسد طور،طلعت حسین، مطیع اللہ جان، حامد میر اور ابصار عالم سمیت دیگر صحافیوں کو کیوں نقصان پہنچایا جا رہا ہے؟ سب کومعلوم ہے ،ہم پارلیمنٹرین سمیت بہت سے لوگوں نے اپنے فرائض درست طریقے سے سر انجام نہیں دیے ہیں،انہوں نے کہاکہ مسئلہ قانون کا نہیں خود کو پاور ہائوس سمجھنے والوں کا ہے،جب تک ادارے تقسیم اختیارات اور آئینی حدود کو نہیں سمجھیں گے مسائل جنم لیتے رہیں گے۔ سینئر وکیل ، علی احمد کرد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضیا الحق کے دور سے لیکر اب تک لا قانونیت کے خلاف صرف وکلاء نے ہی آواز اٹھائی ہے ،سیاسی جماعتوں سمیت کسی نے بھی اپنا درست کردار ادا نہیں کیا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابرنےکہا کہ ملک دشمن قوتیں لوگوں کے شعور بیدار کرنے والوں کے خلاف ہیں ان کے خلاف ہم سب کو مل کر جنگ کرنی چاہیے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیرپرسن حنا جیلانی نےکہا کہ اس ملک کے وکلا اور صحافی آئین کی پامالی نہیں دیکھ سکتے ہیں ،موجودہ دور میںسول سوسائٹی کا گلہ دبایا جا رہا ہے ،ہم میڈیا کی آزادی کو کھوتا نہیں دیکھ سکتے ہیں ،انہوںنے کہاکہ صرف چند کا نہیں بلکہ اس ملک میں تقریبا سبھی صحافیوں کا ہی استحصال کیا جا رہا ہے ،ہائی برڈ نظام کو برداشت نہیں کریں گے ،جمہوری نظام کو بچانا ہم سب کا فرض ہے ،ملک کے تمام اداروں اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، سابق سینٹر طاہر بزنجو نےکہا کہ ملک بدترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے ،ہم عدلیہ کی آزادی،آزادی رائے اور آئین کی بالا دستی کیلئے وکلا اور صحافیوں کے ساتھ ہیں۔(خصوصی رپورٹ)۔۔
