تحریر: علی حسن
میرپور خاص میں سستا آٹا لینے کے دوران رش میں گر کر دم گھٹنے سے ایک مزدور جاں بحق ہوگیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مزدور کا لوگوں کے پیروں تلے آنے اور دم گھٹنے سے انتقال ہوا۔جاں بحق ہونے والا 38 سالہ شخص 6 بچوں کا باپ تھا۔ جاں بحق مزدور کے لواحقین نے پریس کلب کے سامنے لاش رکھ کر احتجاج کیا۔ سانگھڑ میں آٹا خریدنے کی کوشش میں ایک بچہ اور دوخواتین لوگوں کے پاﺅں میں آنے کی وجہ سے زخمی ہوگئیں۔ سندھ کے کئی شہروں میں بیک وقت آٹا کی عدم فراہمی کے خلاف مظاہرے اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ پنجاب کے شہر خانیوال میں بھی اسی سبب ایک موت ہو گئی ہے۔ لوگ پیسے لے کر مارے پھر رہے ہیں لیکن انہیںآٹا میسر نہیں ہے۔ بازاروں میں دوکانوں پر آٹا ایک سو تیس سے لے کر ایک سو پچاس روپے میں میسر ہے جو غریب لوگوں خصوصا روز آنہ کی بنیاد پر مزدوری کا معاوضہ لینے والوں کی قوت خرید سے باہر ہے۔ بازاروں میں گھوم کر دیکھو کہ لوگوں کی قوت خرید کو کیا ہو گیا ہے۔ آٹا کا ناپید ہونا ملک بھر میں ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں صورتحال زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی بنیادی خوراک ہی گندم کا آٹا ہے۔ جس کی روٹی پکا کر وہ لوگ سادہ روٹی ہے پانی سے بھی کھالیتے ہیں۔ اگر وہ روٹی بھی انہیں میسر نہ ہو تو لوگ کیا کریں گے۔ حکومت سندھ کا کہنا تھا کہ صوبہ بھر میں سرکاری اسٹالوں پر آٹا 65 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ جب مظاہرے ہوئے تو ڈپٹی کمشنر حضرات نے ۵۷ روپے فی کلو ریٹ مقرر کرنے کی سرکاری حکم نامہ جاری کر دئے۔ سرکار کی ہدایت کو مانتا کون ہے۔ منافع خوروں کی اپنی روش ہے۔ وزیر آعظم نے یہ کہہ دیا کہ آٹا صوبائی حکومتوں کو معاملہ ہے۔ وفاقی وزیر خوراک طارق چیمہ فرماتے ہیں کہ ملک بھر میں کہیں بھی گندم کی قلت نہیں ہے۔ اگر قلت نہیں ہے تو کیا لوگوں کے اوسان خطا ہو گئے ہیں کہ آٹا کی عدم فراہمی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے ایک ویڈیو بیان میںکہا ہے کہ سندھ حکومت سستے آٹے کے ڈرامے کر رہی ہے، مگر سستا آٹا کہیں موجود نہیں۔قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ آٹا مہنگا ہونے سے غریب اور بیروزگار لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ سندھ کے کسان اور مزدور دووقت کی روٹی کے محتاج ہوچکے ہیں۔
انقلاب فرانس کی بنیاد میں روٹی کی عدم فراہمی کا معاملہ ہی تو تھا۔ روٹی کی طلب گار عوام ایک جلوس کے بعد دوسرا جلوس نکال رہے تھے۔ ہر جلوس میں ایک ہی نعرہ ہوتا تھا کہ روٹی دو۔ اس دور کے حکمران جو فرانس کے بادشاہ روٹی دینے میں ناکام تو رہے لیکن انہوں نے عوام کی بنیادی ضروریات پر بھی توجہ نہیں دی۔ لوگ پر تشدد ہوتے گئے۔ بادشاہ کے محلوں پر حملہ آور ہونے لگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ بادشاہ زیر ہو گیا۔ تاریخ کہتی ہے کہ ایک جلوس گزر رہا تھا ، ملکہ محل کی بالکونی سے دیکھ رہی تھی، اس نے محافظین سے پوچھا، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں، اسے بتایا گیا کہ روٹی مانگ رہے ہیں۔ جواب میں یہ تاریخی جملہ ملکہ سے ماخوذ ہے کہ روٹی نہیں تو کیک کیوں نہیں کھاتے ۔ ملکہ کے اس جملہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ صورت حال اس حد تک بے قابو ہو گئی کہ عوام نے بادشاہ کے محل پر حملہ کر دیا۔ عوام نے شاہی خاندان کے لوگوں کو گھسیٹ کر محل سے باہر نکالا۔ آگ اس وقت تک اتنی پھیل چکی تھی کہ شاہی خاندان کے لوگوں کو مال برداری کی گاڑیوں میں بٹھا کر مقتل گاہ لایا گیا۔ مقتل گاہ میں کچھ کہنے یا سننے کہ گنجائش ہی نہیں تھی۔ پیرس کی سڑکوں پر وہ کچھ ہونے جارہا تھا جس کے بارے میں شاہی خاندان اور حکمران طبقہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اسی طرح جیسے سری لنکا کے حکمرانوں نے نہیں سوچا تھا ۔ پاکستان کے حکمران طبقہ نے بھی نہیں سوچا ہے کہ دنیا کے ممالک میں انقلاب کی صورت میں خونریزی پاکستان میں بھی ہو سکتی ہے۔
کسے خبر تھی کہ فرانس کی مقتل گاہ میں قتل کئے جانے والوں کی اتنی بڑی تعداد ہوگی کہ گردن آڑانے کی کارروائی میں بہت وقت صرف ہو رہا تھا۔ وقت بچانے کے لئے ”گیلوٹن“ ایجاد کی گئی تاکہ جن لوگوں کو قتل کیا جانا ہے انہیں کم تکلیف سے گزرنا پڑے اور کام بھی جلدی ہو جائے۔ گیلوٹن کا موجد جوزف اگنیس گیلوٹن کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ صاحب ایک فزیشن ہونے کے علاوہ سیاست داں بھی تھے ان کا تعلق فریمیسن سے تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ٹھکانے لگایا گیا کہ ان کی لعشوں سے نمٹنے سے پہلے ان کی کھال تک اتاری گئی جسے خواتین کے پرس بنانے، سر کی ٹوپیاں بنانے اور بچوں کے پوتڑے بنانے کا کام لیا گیا۔ ایک سال کے دوران تین لاکھ انقلاب دشمنوں (انقلاب دشمن وہ عناصر قرار دئے گئے تھے جو بادشاہت یا حکومت وقت کے حامی تھے) کو حراست میں لیا گیا تھا، ان میں سے دس ہزار قید خانوں میں ہی موت کا شکار ہو گئے تھے جب کہ سترہ ہزار افراد کے خلاف سرکاری طور پر سزائے موت پر عمل در آمد کیا گیا تھا۔ سزائے موت گیلوٹن کے ذریعہ ہی دی گئی تھی۔ سزائے موت پانے والوں میں بادشاہ کنگ لوئس سولہ اور ان کی ملکہ بھی شامل تھی۔
انقلاب فرانس کا ذکر کرنا اس لئے ضروری نظر آیا کہ پاکستان میں بھی لوگ روٹی روٹی چیخ رہے ہیں۔ حکمران طبقہ انہیں ان کی قوت خرید کے مطابق آٹا فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں کہ حکمران طبقہ جس انداز کی شاہانہ زندگی گزار رہا ہے، ایک ایک وقت میں حکمران طبقہ بھاری اخراجات کر کے اپنے طعام کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ پھر لوگ یہ بھی تو دیکھ رہے ہیں کہ اسی ملک میں جہاں لوگ ایک ایک کلو آٹا کے لئے ترس رہے ہیں، شادی بیاہ کی تقریبات میں کس بے دردی سے پیسہ بہایا جاتا ہے۔ جب لوگوں کو ضرورت کے وقت ہی آٹا ان کی قوت خرید کے مطابق میسر نہیں ہے تو کابینہ اگر بیرون ملک سے آٹا یا گندم بھی در آمد کر ے گی تو اس رات کا کیا حساب ہوگا جس رات کسی شخص کو بھوکا سونا پڑا تھا۔ اس ماں کو کون تسلی دے گا جن سے اپنے بھوکے بچوں کو تھپک تھپک کر سلا دیا تھا۔ کون لوگ ذمہ دار ہیں جو یہ دیکھیں کہ ملک میں کھانے پینے کی چیزیں بازاروں میں کیوں مہنگی ہیں اور کیوں میسر نہیں ہیں۔ کیوں نہیں حکومت اور انتظامیہ شہر بھر کی دوکانوں میں آٹا فراہم کردیتے ہیں تاکہ آٹا کی تلاش میں سرگرداں لوگ ہجوم میں مرنے سے محفوظ رہ سکیں۔ کیوں نہیں انتظمیہ کے ماتحت کمیٹیوں کو متحرک کیا جاتا ہے کہ وہ بازاروں میں جا کر جائزہ لیں کہ دوکاندار کیا کرکر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے یہ پوسٹ رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 65 روپے فی کلو آٹے کی فراہمی کے نام پر عوام کی تذلیل کی جارہی ہے لوگوں کو بار بار لائن میں لگا کر پورے دن خوار کیا جارہا ہے اور وہ بھی دس لاکھ کی آبادی کے لئے ایک دس کلو کے صرف پانچ سو یا ایک ہزار بیگس روزانہ دے کر عوام کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے اور سفید پوش لوگوں کی تذلیل کی جارہی ہے اگر سندھ حکومت واقعی عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے سستے آٹے کے اسٹال لگانے کا ڈرامہ بند کرکے تمام دوکانوں پر سستے آٹے کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے اور سبسڈی کے نام پر جو پیسے کھائے جا رہے ہیں خدارا آٹے کے پیسے تو چھوڑ دیئے جائیں اور عوام کی تکالیف کو کم کرنے حقیقی اقدامات کئے جائیں اور سفید پوش لوگوں کا بھرم رکھا جائے۔
اس تماش گاہ میں ایک طرف ملک شدید قسم کے بحرانوں میں گھر اہوا ہے لیکن سیاستدان اقتدار کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ وہ اتنی عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ جیسے یہ آخری موقع ہو۔ تمام سیاسی جماعتوں کو رویہ ایک جیسا ہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر خان اور علیم خان نئی سیاسی جماعت کا ابتداءکرنے کو ہیں۔ وسطی اور جنوبی پنجاب کے اہم سیاستدان نئی پارٹی کا حصہ ہوں گے، پی ٹی آئی کے منحرف ارکان سمیت دوسری سیاسی پارٹیوں کے ارکان کو بھی ساتھ لیا جائے گا۔ نئی جماعت کی قیادت پی ٹی آئی پنجاب کی سابق اہم شخصیت کرے گی۔ نئی جماعت عام انتخابات میں اپنے علیحدہ انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ عام انتخابات میں نئی جماعت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ نشستوں پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ دعوی کیا گیا ہے کہ نئی جماعت پنجاب میں پی ٹی آئی کے مضبوط حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔(علی حسن)
آٹے کی تلاش
Facebook Comments