علی عمران جونیئر
دوستو،کراچی میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے، غربت میں آٹا گیلا۔۔ ہمیں اس کہاوت یا مثال پر کئی بار حیرت بھی ہوئی۔۔ آٹا گیلا نہ ہوتو پیڑے کیسے بن سکتے ہیں؟ پھر ان پیڑوں کو بیل کر گرم توے پر ڈالی جاتی ہے، اگر آٹا گیلا ہے تو اس میں غربت کو کب کیسے اور کیوںفٹ کردیا؟ کیا امیر لوگ روٹیاں پکاتے ہیں تو آٹا گیلا نہیں کرتے؟ ہمارے استاد محترم معروف اسکرپٹ رائٹر، فلم ساز اور صحافی علی سفیان آفاقی صاحب نے ایک بار ہمیں بہت سارے ایسے مشہور فلمی گانوں کے متعلق بتایا تھا جوسپرہٹ تھے لیکن ان گانوں میں کوئی نہ کوئی تکنیکی خرابی تھی۔۔ مثال کے طور پر۔۔ دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیو رے۔۔یہ بالی وڈ کا کافی ایورگرین گانا ہے، اس گانے کی تکنیکی خرابی یہ ہے کہ۔۔ جوڑا ہمیشہ دو چیزوں کا ہی بنتا ہے۔ شاعر نے جب بول لکھے تو وہ صرف ہنسوں کا جوڑا بچھڑگیورے بھی لکھ سکتا تھا۔۔ ایسے کئی گانے انہوں نے بتائے لیکن اس وقت صرف ایک یہی یاد آرہا ہے۔
پاکستان میں نگران حکومت نے اپنے قیام کے پہلے ہی ہفتے میں ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب ساڑھے سترہ اور بیس روپے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔رواں ماہ یعنی اگست کے آغاز کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر پیٹرول کی قیمت میں 37 روپے 45 پیسے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں لگ بھگ 40 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔حالیہ اضافے سے قبل یکم اگست کو کیا جانے والا اضافہ ن لیگ کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت نے کیا تھا۔پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے جہاں لوگوں کے ایندھن کے اخراجات کو بڑھایا ہے تو اس کے ساتھ ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کھیتوں، منڈیوں، فیکٹریوں اور بندرگاہوں سے مال لے جانے والی ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ایک سینئر وکیل صاحب نے ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھا جو اپنے والد کے ساتھ بھیک مانگ رہی تھی۔ وکیل صاحب نے والد سے لڑکی کا رشتہ مانگ لیا۔باپ نے شرط رکھی کہ اگر میری لڑکی سے شادی کرنی ہے تو میرے ساتھ 3 دن تک بھیک مانگو تاکہ کل کلاں اس کو بھکارن کا طعنہ نہ دے سکو۔کچھ عرصہ سوچنے کے بعد اس نے شرط قبول کرلی۔بھیک مانگنے کے دوسرے دن لڑکی نے دیکھا وکیل بیٹھا رورہا ہے۔لڑکی نے وجہ پوچھی۔ اسے لگا شاید وکیل صاحب کا ضمیر ملامت کررہا ہے اور شرم کے مارے وہ روپڑا۔۔ لیکن وکیل صاحب نے جواب دیا۔۔ افسوس میں نے اتنے سال کچہری میں ضائع کردیے۔
مہنگائی کم ہونے کی نہیں، باباجی کہتے ہیں جس کی جیب اجازت نہ دے اس کے لیے ہر چیز مہنگی ہے۔بڑے شاپنگ مالز، برانڈڈ اسٹورز پر جاکر دیکھیں، لوگ کس طرح شاپنگ کیلئے ٹوٹے جاتے ہیں۔جتنے کی پرچی کاؤنٹر والا ان کے حوالے کردیتا ہے، بغیر کسی چوں چاں کے ادائیگی کردیتے ہیں۔کسی برانڈڈ ریسٹورنٹ پر جائیں،آپ کو باری آنے کیلئے ویٹ کرنا پڑے گا۔۔ ہم گزشتہ دنوں لال قلعہ اور مندی ہاؤس میں اس انتظار کی کیفیت سے گزر چکے ہیں۔مہنگائی سے کیسے بچاجاسکتا ہے؟ ہمارے پیارے دوست نے کسی کی ایک تحریر ہمیں واٹس ایپ کی جس میں مہنگائی سے بچنے کے ایک سے بڑھ کر ایک فارمولے درج تھے۔۔ تحریر کچھ یوں تھی کہ۔۔ہماری ہمیشہ سے عادت ہے کہ مہنگائی مہنگائی کا رونا روتے رہیں گے اور حکومت کو لعن طعن کرتے رہیں گے لیکن اس بابت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔یہاں ہم کچھ ایسے طریقے بتارہے ہیں جس سے ہم جتنی بھی مہنگائی ہو اس میں گزارہ کر سکتے ہیں۔۔۔بجلی کی کھپت اور بل 30 فیصد کم کرنے کے لیے گھر میں سب پنکھوں کا ایک ایک پر اتار دیں۔ 50 فیصد کم کرنے کے لیے دو دو پر اتار دیں۔ ایک پر سے گزارہ کریں۔۔۔جس طرح موٹر سائیکل میں فیول کم ہونے پر اسے ہلا جلا کر چند کلومیٹر مزید چلا لیا جاتا ہے اسی طرح اپنی کاروں، وین، ٹرک وغیرہ کو بھی ہلا جلا کر چند میل مزید چلا لیا کریں۔۔۔روز روٹی کے جو چند ٹکڑے بچ جاتے ہیں انہیں اونے پونے سوکھی روٹیاں خریدنے والوں کو چند روپیہ میں فروخت کرنے کے بجائے انہیں خشک ہونے کے بعد بلینڈر میں پیس کر پھر سے آٹا بنا کر اسے نئے آٹے میں شامل کر کے ان سے تازہ روٹیاں بنائیں۔۔گوبھی، مولی، چقندر، اروی سمیت اکثر سبزیوں کے چھلکے بالکل Edible ہیں انہیں ضائع مت کریں ایک دن سبزی پکائیں اگلے دن ساگ کی طرح چھلکے پکائیں۔۔انڈوں کا بھی ایسا کریں ایک دن زردی کھائیں ایک دن سفیدی۔۔مرغ کے پنجے بھی کھائے جاسکتے ہیں، انہیں کتوں بلیوں کو ڈالنے کے بجائے فریز کرلیں اور کچھ دن بعد پکا لیں۔۔گھر میں جوتے پہننا ضروری نہیں، گھر میں ننگے پاؤں رہیں جوتوں کے گھسنے کی رفتار کم کریں۔ جوتوں کی عمر بڑھائیں۔ نئے جوتوں پر خرچہ کم کریں۔ ۔نیا فرنیچر خریدنے کے بجائے زمین پر قالین، دری وغیرہ پر بیٹھنے اور سونے کا معمول بنائیں۔ کمر اور پوسچر کے لیے بھی اچھا ہے۔۔سیر سپاٹے کے کے لیے ہل اسٹیشن، تھیم پارک، بیچ پر جانے کے بجائے دوسرے شہر رشتے داروں کے ہاں جائیں، جتنے دن ان کے ہاں مہمان رہیں گے کھانا پینا بھی ان کی طرف سے اور اپنے گھر بجلی کی بچت بھی۔۔۔یا اگر سیر کے لیے شمالی علاقہ جات جانا ہی مقصود ہو تو خود خرچہ مت کریں بلکہ سوشل میڈیا پر”اسٹیبلشمنٹ” کے خلاف کچھ لکھ دیں اگلے خود اٹھا کر لے جائیں گے۔۔اگر روزگار نہیں اور آجکل فارغ ہیں تو کوئی چھوٹا موٹا جرم کر لیں جیسے پارکنگ میں کسی گاڑی کا شیشہ توڑ لیں۔ جس سے ایک دو ماہ جیل میں رہائش و خوراک کا انتظام ہو سکے۔۔اپنا گھر کسی دربار، درگاہ یا شادی ہال کے نزدیک بنائیں وہاں لنگر وغیرہ کھا آیا کریں۔۔رات ساڑھے 11 بجے سبزی منڈی سبزی لینے جایا کریں۔ اس وقت چند آخری دکاندار اپنا بالکل آخری ا سٹاک ٹھکانے لگارہے ہوتے ہیں۔ دن کو 100 روپیہ کلو بکنے والا آئٹم اس وقت 20 روپیہ میں ڈیڑھ کلو مل جائے گا۔۔پانی کا بل کم کرنے کے لیے نزدیک کوئی نہر وغیرہ ہو تو وہاں جا کر نہایا کریں۔ورنہ کسی سرکاری نلکے وغیرہ پر رات 12 بجے جا کر تولیہ باندھ کر نہا لیا کریں۔۔اگر آپ سگریٹ، نسوار کے عادی ہیں اور اس عادت کو نہیں چھوڑ سکتے تو، زمین پر صاف صاف جگہوں سے ادھ جلے سگریٹ کے ٹکڑے اور نسوار کی چنڈیاں اٹھا کر دوبارہ استعمال کر لیا کریں۔ ۔شادی مت کریں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔تھانوں میں رحم نہیں، اسکولوں میں تعلیم نہیں، عدالتوں میں انصاف نہیں، دلوں میں ایمان نہیں، رشتوں میں احساس نہیں، خون میں وفا نہیں اور نصیحت میں اثر نہیں، اللہ کریم ہمارے معاشرے پر رحم فرما۔ آمین۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
آٹا گیلا۔۔
Facebook Comments