تحریر: عمیرعلی انجم
حضرت جون ایلیا نے کہا تھا کہ ’’تو میرا حوصلہ تو دیکھ ،داد تودے کہ اب مجھے۔۔شوق کمال بھی نہیں ،خوف زوال بھی نہیں ۔۔سمجھ نہیں آرہاہے کہ داستان کا آغاز کہاں سے کیا جائے ۔۔میرا خیال ہے کہ اس ’’عظیم صحافی رہنما ‘‘کی ٹیلی فون کال سے شروع کرتا ہوں جس میں مجھے کہا گیا تھا کہ اگر ہمت ہے تو استعفیٰ دے کر دکھاؤ اور میں استعفیٰ لے کر اپنے ادارے کے شعبہ ایچ آر تک جاپہنچاتھا ۔۔میں نے اپنا استعفیٰ جب وہاں موجود ’’صاحب‘‘ کو پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ اتنا جذباتی ہونا اچھی بات نہیں۔۔ہم آپ کے کام سے مطمئن ہیں ۔۔یہ کہہ کر انہوں نے میرے استعفیٰ کے پرخچے اڑادیئے ۔۔ہاں انہوں نے چلتے ہوئے مجھ سے یہ ضرور کہا کہ آج کل آپ جو کچھ تحریر کررہے ہیں اس سے باز آجائیں ۔۔ان کی یہ بات سن کر مجھے ایسا لگا کہ مجھے کسی قسم کا لالچ دیا جارہا ہے کہ لکھنے سے رک جاؤ تو تمہاری نوکری بھی برقرار رہے گی ۔۔میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے اپنے صحافی بھائیوں کے حق میں لکھتا رہا ۔اس کے بعد ایک نئے ’’کھیل‘‘ کا آغاز ہوگیا ۔۔کچھ روز قبل میرے استعفیٰ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے والوں نے مجھ سے استعفیٰ طلب کرنا شروع کردیا اور اب کی بار میں نے اپنے پرکھوں کی روایت پر قائم رہتے ہوئے کسی کی ’’طلب‘‘ پر استعفیٰ دینے سے انکار کردیا ۔۔اس تمام ’’کھیل‘‘ کا مہرا ایک ’’تار والا جن‘‘ تھا ۔۔جس نے اپنے آقاؤں کے چراغ رگڑنے پر مجھے ادارے سے نکلوانے کے تانے بانے بنے ۔۔مجھے اس کا علم نہیں کہ ’’تار والے بیوروہیڈ‘‘ کو کس کس کی آشیرباد حاصل تھی لیکن یہ میں ضرور جانتا ہوں کہ تمام کردار جلد کھل کر سامنے آئیں گے ۔۔خیر میرے انکار پر مجھے ایک ’’شوکاز نوٹس‘‘ جاری کیا گیا ،جس میں مجھ پر الزام عائد کیا گیا کہ میں ریڈیو پاکستان کا بھی ملازم ہوں ۔۔یہ شکایت’’تاروالے جن‘‘کی جانب سے سامنے آئی تھی ۔میں نے اس نوٹس کے جواب میں واضح طور پر لکھا کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ میں کسی دوسرے ادارے کا ملازم ہوں تو میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں لیکن افسوس صرف دو دن بعد مجھے اسی الزام کے تحت نوکری سے برطرف کردیا گیا ۔۔’’تاروالے جن‘‘ اور ’’ہم نیوز کے کوفیوں‘‘کا اس ڈرامے میں جو کردارہے اس کے لیے میں ان کو تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزد کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں آج سے ان کے خلاف میری جنگ کا آغاز ہوگیا ۔۔میں عدالتوں سے لے کر گلی محلے تک ان کے چہروں کو بے نقاب کروں گا ۔۔میں انصاف کے لیے ہر دروازے پر جاؤں گا ۔۔میں ’’آپا‘‘ کے درباریوں کو واضح پیغام دینا چاہتاہوں کہ ان کی طرف سے تو آج اختتام ہوگیا لیکن آج میری طرف سے آغاز ہے ۔میں اس کو صرف اپنی جنگ نہیں سمجھتا ۔۔یہ میرے ان تمام بے روزگار ساتھیوں کی جنگ ہے جن کو بلاکسی جواز کے مختلف اداروں سے نوکری سے نکالا گیا ہے ۔میں کسی کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت نہیں دیتا ۔۔میں تن تنہا ان دنیا وی خداؤں کو چیلنج کرتا ہوں ۔۔کہاوت ہے کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اسی میں جاگرتا ہے ۔۔ماضی میں ڈی ایس این جی کے تار اٹھانے والے اور حال کے بیورو ہیڈ کو تیار رہنا چاہیے کیونکہ جلد اس کو بھی اپنے کھودے ہوئے اس گڑھے میں گرنا ہے ۔۔برطرفی کا خط میرے ہاتھ میں ہے ۔۔اس آزادی کے پروانے کو لے کر قانون دانوں کے در پر جارہا ہوں ۔۔جنگ کا آغاز ہوگیا ۔۔اللہ مجھ سمیت تمام لوگو ں کا حامی وناصر ہو۔۔۔(عمیر علی انجم)۔۔
بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کامتفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔