اسلام آبادکی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک نے دعویٰ کیا ہے کہ ان پر دباؤ ڈال کر ماضی میں آپ ٹی وی کے لئے کئی ماہ تک ادائیگیاں کرائی جاتی رہیں۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں انہوں نے کئی خوفناک انکشافات بھی کئے۔ روزنامہ جنگ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹا دی۔زمین پر قبضے کے الزام میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ہیومن رائٹس کیس کی سماعت ہوئی۔سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت فریقین کے خلاف متعلقہ فورمز موجود ہیں، سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے، درخواست گزار نے آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار پر سنگین الزامات عائد کیے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا درخواست گزار وزارت دفاع سے رجوع کر سکتے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ریٹائرڈ فوجی افسران کا کورٹ مارشل بھی ہو سکتا ہے، آرٹیکل 184/3 کا استعمال ایسے نہیں ہونا چاہیے کہ غیر موجود فرد کے بھی بنیادی حقوق متاثر ہوں، زاہدہ اسلم کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے چیمبر کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار سے کہا کہ آپ کی درخواست میں سنگین الزامات ہیں۔درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ کیس کی سماعت کو مختصر عرصے کے لیے ملتوی کر دیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ التواء نہیں دیں گے ابھی ہی تیاری کر لیں۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 12مئی2017ء کو جنرل (ر) فیض حمید کے حکم پر میرے گھر اور آفس پر چھاپہ مارا گیا، چھاپے میں قیمتی سامان اور ہماری نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کر لیا گیا، میرے خلاف غیر قانونی کارروائی کا مقصد ٹاپ سٹی ون کا کنٹرول حاصل کرنا تھا، ریڈ کے بعد مجھے اور میرے 5 ساتھیوں کو گرفتار کر کے حبسِ بے جا میں رکھا گیا، وفاقی حکومت جنرل (ر) فیض حمید، ان کے بھائی نجف اور دیگر کے خلاف کارروائی کرے، فیض حمید نے درخواست گزار کو 5 فیملی ممبرز کے ساتھ اغواء کر کے حبسِ بے جا میں رکھا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے سوال کیا کہ تو عدالت کیا کرے؟درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ وزارتِ دفاع کو حکم دیا جائے، وہ کارروائی کی مجاز اتھارٹی ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پوچھا کہ کیا یہ کیس پہلے بھی اس عدالت کے سامنے آیا تھا؟وکیل نے بتایا کہ ہماری درخواست تو پہلی بار سماعت کے لیے مقرر ہوئی ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کے سامنے 2 درخواستیں ہیں، زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست بھی ہمارے سامنے ہے، ہم نے تاریخیں دینے کی روایت ختم کردی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے حفیظ الرحمٰن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب تیاری نہیں ہے تو گھر جائیں، اب تک جو اس کیس سے ہم سمجھ پائے وہ آپ کو بتا رہے ہیں، برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے2017ء میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184/3 کا کیس دائر کیا، سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے چیمبر میں نومبر 2018ء میں فریقین کو بلا کر کیس چلایا، کیا چیف جسٹس چیمبر میں سنگل جج کے طور پر فریقین کو بلا کر کیس چلاسکتا ہے؟ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس، سی ٹی ڈی کو نوٹس کیا، اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے سابق چیف جسٹس گلزار کے سامنے بھی رکھی، سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184/3 کی درخواستیں دائر کی گئیں، جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184/3 کے ہی تحت دائر کی گئی ہے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، کیس کے حقائق میں نہ جائیں، میں نے ہائی کورٹ میں فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ہے، ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا، جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر سماعت کیسے کی گئی؟چیف جسٹس نے کہا کہ حفیظ الرحمٰن صاحب، زاہدہ اسلم اور آپ کی درخواست کیا آرٹیکل 184/3 میں آتی ہے۔وکیل حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ زاہدہ اسلم کی درخواست 184/3 میں نہیں آتی کیونکہ وہ معاملہ سول عدالت میں زیر سماعت تھا، ہماری درخواست آرٹیکل 184/3 میں آتی ہے کہ یہ معاملہ کسی اور فورم پر نہیں گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ چیمبر میں بیٹھا جج سپریم کورٹ نہیں ہوتا، عدالت میں بیٹھے ججز سپریم کورٹ ہیں، چیمبر میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کی کارروائی نہیں چلائی جا سکتی، چیمبر میں صرف چیمبر اپیلیں سنی جا سکتی ہیں، سینئر وکلاء سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا چیمبر میں بیٹھ کر جج کسی کیس کو سن سکتا ہے؟وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ چیمبر میں آرٹیکل 184/3 کے مقدمات نہیں سنے جا سکتے، چیمبر میں مخصوص نوعیت کی چند درخواستیں سنی جا سکتی ہیں۔سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سلمان بٹ صاحب، آپ نے بطور اٹارنی جنرل ہیومن رائٹس سیل کے خلاف بات کیوں نہیں کی؟ ہیومن رائٹس سیل حکومت کو غیرقانونی نوٹس بھجواتا رہا ہے، حکومت کی ذمے داری نہیں تھی کہ ہیومن رائٹس سیل کے خلاف عدالت میں سوال اٹھاتی؟ 2010ء سے ہیومن رائٹس سیل غلط طریقے سے چل رہا ہے، کسی نے آواز نہیں اٹھائی، سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا اختیار ہر معاملے میں مت گھسیٹیں، آرٹیکل184/3 کے تحت جبری گمشدگیوں سمیت کئی ناگزیر معاملات موجود ہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ نہیں ہوتا، سپریم کورٹ ججز اور چیف جسٹس پر مشتمل ہوتا ہے، فیئر ٹرائل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ ڈی جی ایچ آر سیل سپریم کورٹ کون ہے؟ کیا آپ کے پاس کوئی قانونی آرڈر یا نوٹیفکیشن ہے جس کے تحت ایچ آر سیل چل رہا ہے؟ڈی جی ایچ آر سیل نے بتایا کہ ایچ آر سیل 2005ء کے ایک سرکلر سے عمل میں آیا تھا،دسمبر 2019ء میں فل کورٹ اجلاس میں ایچ آرسیل کے رولز بنانے کا معاملہ آیا لیکن بنائے نہیں گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 2019ء کے بعد تو فل کورٹ اجلاس میری سربراہی میں 18 ستمبر کو ہوا، کس قانون کے تحت سرکلر ہوا؟ثاقب نثار کس قانون کے تحت چیمبر میں کیس سنتے رہے؟ڈی جی ایچ آر سیل نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس چیمبر میں کیس سننے کا کوئی جوڈیشل اختیار نہیں تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا ایچ آر سیل نے اپنا ریکارڈ ضائع کر دیا ہے؟ڈی جی ایچ آر سیل نے کہا کہ ثاقب نثار کے کہنے پر ایچ آر سیل کی3 لاکھ 98 ہزار درخواستوں کا ریکارڈ ضائع کیا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ازخود اپنے چیمبر میں رپورٹس منگواتے تھے؟جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایچ آر سیل کی تشکیل ہی غیر آئینی ہے، سپریم کورٹ کے پاس بنیادی حقوق کے لیے اختیار صرف آرٹیکل 184/3 کے تحت ہے، بذریعہ ایچ آر سیل 2005ء سے متوازی عدالتی نظام چل رہا ہے جس کی آئین میں گنجائش نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس اپنے چیمبرمیں کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا، چیف جسٹس کیس کو کھلی عدالت میں مقرر کر کے فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہر صورت ہو گا ورنہ اس کیس میں عدالت مثال قائم کرے گی۔وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ملک کا قانون بالا ہو گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوالی کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا قانون سے بالا ہے؟وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہو۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے وکیل سلمان بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہوں، یہ آپ کا ذاتی کیس نہیں ہے۔