تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،اردو کے ایک پروفیسر جب بھی کسی سے انجانے میں ٹکراجاتے تھے آگے سے ہمیشہ یہی بولتے۔۔ارے گدھے ہوکیا؟ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا؟؟ ایک دن بازار میں سچ مچ ایک گدھے سے ٹکرا گئے، پروفیسر صاحب کو بہت غصہ آیا کیوں کہ جلدی میں کہیں جارہے تھے ،غصے سے مڑے لیکن جب حقیقت میں سامنے گدھے کو ہی موجود پایا تو اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے بڑے ادب سے کہنے لگے۔۔ ارے ، آپ تو آپ ہیں، اب آپ کو کیا بولوں؟؟ایک درخت سے بندھے گدھے کو شیطان نے کھول دیا گدھے نے پورا کھیت تباہ کر دیا،کسان کی بیوی نے گدھے کو مار دیا۔۔گدھے کے مالک نے کسان کی بیوی کو قتل کردیا اور بعد میں کسان نے گدھے کے مالک کو قتل کر دیا۔۔ شیطان بولا،اگر سب کو تباہ وبرباد کرنا ہو تو ایک گدھا کھلا چھوڑ دیں۔۔آپ کو حیرت ہورہی ہوگی کہ بغیر کسی تمہید کے کالم کاآغاز کردیا، بس آج منہ کاذائقہ بدلنے کے لیے کچھ تبدیلی کی ہے۔ویسے بھی ملک میں ہونے والی ’’تبدیلی‘‘ تو شاید ہی کسی کو ہضم ہورہی ہو، لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ ہماری اس تبدیلی کوآپ یقینی طور پرپسند کریں گے۔۔ آج چونکہ اتوار اور چھٹی کا دن ہے، اس لیے آج آپ کے لیے ہم ٹوٹل تفریح والا ـ’’ماحول‘‘ فراہم کررہے ہیں۔ اس لیے اوٹ پٹانگ باتیں آپ نے ہی برداشت کرنی ہیں کیوں کہ آپ تو آپ ہیں۔ایک میراثی چودھری کے ڈیرے کے قریب سے گزررہا تھا، چودھری نے دیکھ کر کہا۔۔اوئے ادھر آ۔۔حقہ گرم کروایا،ٹانگیں دبوائیں، جوتے صاف کروائے اور کہا ۔۔چل اب جا۔۔میراثی گھر آیا تو بیوی نے پوچھ لیا کہ۔۔تم کدھے تھے؟؟ ۔۔ میراثی کہنے لگا۔۔ چودھریوں کے ڈیرے کا کامیاب دورہ کرکے آیا ہوں۔۔حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ لگا ہے کہ ۔۔لوگ شادی اس لیے کرتے ہیں تاکہ ایک خوشگوار زندگی گُزار سکیں۔ اور جو نہیں کرتے۔۔۔ وہ بھی اسی لیے نہیں کرتے۔۔سنا ہے کہ زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر نے جنگل میں ایک پرانے درخت کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے طلبا سے کہا۔۔یہ دو سوسال پُرانا برگد کا درخت ہے۔اگر اِس کی زبان ہوتی تو یہ نہ جانے کیا کہتا۔۔ایک چرواہا جو وہیں قریب ہی موجود تھا، کہنے لگا۔۔جناب یہ کہتا میں برگد نہیں پیپل کا درخت ہوں۔۔ ایک خاتون تیزی سے ایک دکان میں داخل ہوئی اور بولی، ڈاکٹر صاحب مجھے کون سی بیماری ہے؟دکان کے مالک نے کہا، آنکھوں کی۔ عورت بولی! مگرڈاکٹر صاحب!آپ نے چیک کیے بغیر کیسے کہہ دیا؟ اور میری آنکھوں میں کیسی بیماری ہے؟ دکاندارمسکرا کو بولا۔۔کیوں کہ یہ ڈاکٹر کا کلینک نہیں بلکہ نائی کی دکان ہے۔۔پارک میں ایک نوجوان نے کسی طرح ایک خوبصورت لڑکی سے باتیں کرنے کا راستہ نکال ہی لیا۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا۔ ہر بڑے شہر میں میرا کاروبار ہے بیس جگہوں پر میری کوٹھیاں ہیں۔ جب بھی تم مجھ سے ملنا چاہو۔ مجھے ٹیلیفون کر دینا میری رولز رائس کار تمہیں لینے کے لیے پہنچ جائے گی۔ لڑکی نے مرعوب ہوتے ہوئے پوچھا آپ کا فون نمبر کیا ہے؟؟ ایک کاغذ کے پرزے پر فون نمبر لکھ کر لڑکی کو تھماتے ہوئے نوجوان نے کہا۔۔ یہ نمبر اس نائی کی دوکان کا ہے جس کے اوپر کے کمرے میں رہتاہوں وہ مجھے بلا دے گا۔۔قیام پاکستان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی یعنی آج تک سرداروں کے لطیفے بننا بند نہیں ہوسکے۔۔لدھیانہ ابھی کافی دور تھا۔ ٹرین کے سفر کے دوران سونے سے پہلے سردار جی نے ایک حجام لڑکے کو 100 روپے دیتے ہوئے کہا۔ یار مجھے لدھیانہ ا سٹیشن پر جگا دینا،یہ کہہ کر سردار جی سو گئے۔۔تھوڑی دیر بعد حجام نے سوچا کہ سردار جی کے 100 روپے کے بدلے ان کی کچھ خدمت کرنا چاہیئے۔ چنانچہ اس نے سوئے ہوئے سردار جی کی شیو بنا ڈالی۔لدھیانہ اسٹیشن آیا۔ اس نے سردار جی کو جگایا اور خود نیچے اتر گیا۔ سردار جی باتھ روم گئے۔ شیشے میں شکل دیکھ کر چونک گئے اور واپس ڈبے میں آکر شور مچا دیا۔۔اوہ فراڈیا نائی۔ میرے کولوں 100 روپے لے کے کسے ہور آدمی نوں جگا گیا اے۔۔ لدھیانہ سے لاہور آجائیں اب۔۔لاہوری گوشت لینے دکان پر گیا تو قصاب نے اس سے پوچھا۔۔پائن گوشت لینا ہے؟؟۔۔لاہوری جو دو گھنٹے سے اپنی باری کا منتظر تھا،غصہ ضبط کرتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا اور کہنے لگا۔۔نئی میں تے بکرے دی موت دا افسوس کرن آیاں۔۔ایک خاتون نے قصائی کی دکان پر پورے دو گھنٹے بحث کے بعد اچانک پوچھا۔۔آپ کے پاس تازہ مغز ہے؟ قصائی بھی شاید فیصل آبادی تھا، کہنے لگا۔۔ پہلے تھا اب نہیں ہے۔۔باباجی نے ایک روز یوں ہی بے فضول سوال کرتے ہوئے پوچھا۔۔اگر بھینس کو ٹھنڈی سیون اپ پلادی جائے تو کیا وہ صرف دودھ دے گی یا دودھ سوڈا؟؟؟باباجی کاہی فرمان عالی شان ہے کہ ۔۔ٹریفک پولیس وہ واحد ادارہ ہے جہاں سر عام سیٹیاں مارنے اور اشارے کرنے کے بھی پیسے ملتے ہیں۔۔دو پاگل چھت پر سو رہے تھے کہ اچانک بارش ہو گئی۔ایک پاگل کہنے لگا۔۔چل اٹھ یار،اندر چل ،آسمان میں سوراخ ہوگیا ہے۔۔ اتنے میں بجلی بھی کڑکدار انداز میں چمکی، دوسرا پاگل کہنے لگا۔۔اوئے سوجا، ویلڈنگ والے بھی آگئے ہیں۔۔برسات کی ایک خوبصورت صبح ہلکی ہلکی سی پھوار میں بھیگتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔انّی دیا! ٹکراں تے نہ مار!۔۔ وہ 5سال بعد سعودیہ سے واپس آیا تو سبزہ دیکھنے کو ترسا ہوا تھا ۔ ایئر پورٹ پر اترا، کسٹم معاملات کلیئر کرنے کے بعد باہر نکلا اور ٹیکسی لے کر سفر کا آغاز کیا۔ شہر سے نکل کر گاؤں جانے کے لیے مین روڈ پر پہنچتے ہی اس نے ڈرائیور کو ایک سرسبز کھیت کے پاس گاڑی روکنے کو کہا اور تقریباً دوڑتے ہوئے اس سر سبز کھیت کے اندر جا کر بیٹھ گیا۔۔ سبزے کی ٹھنڈک کو اپنی سانسوں اور آنکھوں سے اپنے اندر تک’’ انہیل‘‘ کرتے ہوئے دونوں بازو پھیلا کے سبزے پر ہی لیٹ گیا۔ دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ قدرت کی اس گود کو چھوڑ کے واپس گاڑی میں بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد جب دل تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو واپس گاڑی میں آ بیٹھا اور ڈرائیور سے دوبارہ سفر کے آغاز کا کہا۔۔کچھ دور جانے کے بعد ڈرائیور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی معصومیت میں کہا۔۔سر جی، ایئرپوٹاں دے اندر ہن لیٹریناں ھوندیاں نے۔۔میراثی کی شوگر اچانک بڑھ گئی، چیک کرایا تو چھ سو آئی، بھاگ کر ڈاکٹر کے پاس پہنچااور ہانپتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔ڈاکٹر جی ذرا دوبارہ چیک کرو کتے پچھلے مہینے دی تے لگ کے نہیں آگئی۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔عورت اگر چاہتی ہے کہ اس کا شوہر فرشتہ ہوتو اسے چاہیئے پہلے گھرکوجنت بنائے کیوں کہ فرشتے جہنم میں نہیں رہ سکتے۔اور مرد اگر چاہتا ہے کہ اسے حور ملے تو پہلے وہ اچھا انسان بنے کیوں کہ شیطان کو حور نہیں ملتی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔