تحریر: جاوید چودھری۔۔
وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں ریاضی پڑھاتے تھے‘ طبیعت سیلانی تھی‘ آدھا یورپ اور پورا امریکا گھوم چکے تھے‘ مجرد زندگی گزار رہے تھے‘ کوئی آگے تھا اور نہ پیچھے‘ پانچ کمروں کے مکان میں اکیلے رہتے تھے۔
پورے گھر میں صرف ایک کمرے میں فرنیچر تھا‘ وہ اسی میں رہتے تھے جب کہ باقی تمام کمرے بالکل خالی تھے‘ عام سی ڈھیلی ڈھالی سی پتلون چڑھا لیتے تھے‘ بوٹوں میں تسمے نہیں ہوتے تھے‘ کوٹ البتہ زیادہ تھے اور وہ روزانہ تبدیل کرتے تھے‘ سگریٹ اور چائے بے انتہا پیتے تھے‘ سگریٹ سلگانے کے بعد اسے سینے کے قریب لاتے تھے‘ آنکھیں بند کرتے تھے اور پھر سرمستی کے عالم میں سر کو ہلکا سا جھٹکا لگاتے تھے۔
میں چند سیکنڈ کے اس فیز کا عاشق تھا‘ میں انھیں سگریٹ لا کر دیتا تھا‘ سلگانے میں ان کی مدد کرتا تھا اور پھر ان کے سر جھٹکنے کا انتظار کرتا تھا‘ وہ سرجھٹکتے تھے اور میں بھرپور قہقہہ لگاتا تھا‘ وہ بھی بچوں کی طرح کھی کھی کر کے ہنستے تھے‘ ان سے دوستی یونیورسٹی کی کینٹین پر ہوئی تھی‘ وہ کلاس پڑھانے جا رہے تھے‘ مجھ سے ٹائم پوچھا اور میں نے مذاق میں دس منٹ کم بتا دیے‘ وہ کینٹین پر کھڑے ہو کر سگریٹ پینے لگے اور یوں کلاس سے لیٹ ہو گئے۔
وہ اگلے دن مجھے تلاش کرتے ہوئے آئے‘ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر کہا ’’نوجوان آپ نے مذاق میں مجھے لیٹ کرا دیا‘ آپ کو اس سے چند سیکنڈ کی خوشی مل گئی ہو گی لیکن میری نظر میں آپ کی کریڈیبلٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی لہٰذا زیادہ نقصان کس کا ہوا‘ آپ کا یا میرا؟‘‘ میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا‘ وہ بولے ’’انسان کو اپنی کریڈیبلٹی پر کبھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے‘ یہ اگر ایک بار ضایع ہو جائے تو پھر یہ دوبارہ نہیں ملتی‘‘ میں نے دل سے معذرت کی اور یوں ان سے دوستی ہو گئی۔
ہم روز ملتے تھے‘ چائے پیتے تھے اور گپ شپ کرتے تھے‘ میں نے ایک دن ان سے کہا ’’میں پوری دنیا دیکھنا چاہتا ہوں‘ ابن بطوطہ اور مارکو پولو بننا چاہتا ہوں‘ میں کیا کروں‘‘ وہ ہنسے اور کہا ’’تم آج شام موٹر سائیکل کا بندوبست کرو اور میں تمہیں پوری دنیا دیکھنے کا نسخہ بتا دوںگا‘‘ بہاول پور میں اس وقت میرے ایک دوست ہوتے تھے رانا محمد شہزاد‘ ہائی وے میں ملازم تھے‘ ان کے پاس ایک نہایت ہی واہیات سا تھکا ہوا موٹر سائیکل تھا۔
رانا صاحب نے ہماری تحریک پر بی اے کیا‘ ایم اے کیا اور یہ آج کل بہاول پور میں شعبہ ابلاغیات میں پروفیسر ہیں‘ میں نے بہرحال ان سے موٹر سائیکل لیا اور پروفیسر صاحب کے گھر پہنچ گیا‘ وہ میرے پیچھے بیٹھے اور مجھے دریا ستلج کی طرف جانے کا حکم دے دیا‘ ہم دریا پر پہنچ گئے‘ پروفیسر صاحب نے مجھے دریا پار کر کے لودھراں کی حدود میں داخل ہونے کا حکم دیا‘ میں انھیں لودھراں کی حدود میں لے گیا‘ وہ موٹر سائیکل سے اترے‘ دریائے ستلج کی طرف دیکھا اور قہقہہ لگا کر کہا ’’لو تم مارکو پولو بن گئے‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ’’دنیا ہمیشہ ہمسائے سے اسٹارٹ ہوتی ہے۔
ہم جس دن اپنے شہر سے نکل کر دوسرے شہر میں قدم رکھ دیتے ہیں ہمارا مارکوپولو بننے کا سفر اس دن اسٹارٹ ہو جاتا ہے‘ میں نے آج تمہیں دریائے ستلج سے پار پہنچا دیا‘ سمندر پار کرنا اب تمہارا کام ہے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’زندگی میں کوئی بھی کام کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے لیٹس اسٹارٹ‘بس شروع کرو‘ اسباب اور ٹریننگ وقت کے ساتھ ساتھ ہو جاتی ہے‘‘ میرے اندر دھماکا ہوا اور میرا ذہن فوراً روشن ہو گیا۔
یہ میری زندگی کے ابتدائی سیلف ڈویلپمنٹ لیسنز میں سے ایک سبق تھا ’’بس اسٹارٹ کرو‘‘ آپ یقین کریں یہ فقرہ صرف فقرہ نہیں یہ جادو ہے‘ میں کل دنیا کے دو ہزار 7 سو 55 ارب پتی لوگوں کی عادات پڑھ رہا تھا‘ ان تمام لوگوں کے بزنس ماڈلز ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ان دو ہزار 7 سو55 لوگوں میں ایک عادت کامن ہے اور وہ ہے ’’اسٹارٹ‘‘ ان تمام لوگوں نے جس دن اپنے ٰآئیڈیا پر کام کا فیصلہ کیا۔
یہ لوگ سوچے سمجھے بغیر اگلی صبح اٹھے اور اپنے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا تھا اور یہ کام یاب ہو گئے‘ ان سب نے اپنی زندگی کی کہانی میں بے شمار ایسے دوستوں اور استادوں کا ذکر کیا جوان سے زیادہ ذہین‘ فطین اور محنتی تھے مگر وہ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے‘ ان 27 سو 55 لوگوں میں ڈراپ آئوٹ بھی ہیں‘ یہ تعلیمی اداروں سے نالائق اور کم ذہین ڈکلیئر کر کے نکال دیے گئے تھے لیکن یہ اس کے باوجود زندگی میں بے انتہا کام یاب ہوئے جب کہ ان کے وہ کلاس فیلوز جو ذہین بھی تھے اور ٹاپر بھی وہ زندگی کی ریس میں پیچھے رہ گئے‘کیوں؟ سوال یہ ہے ان دونوں میں کیا فرق تھا؟
ڈیٹا ثابت کرتا ہے دنیا کے تمام کام یاب لوگوں میں ایک عادت کامن ہوتی ہے اور وہ ہے اسٹارٹ‘ کام یاب لوگ اپنے آئیڈیا پر اگلے ہی دن کام اسٹارٹ کر دیتے ہیں اور کسی مخالفت اور رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے‘ کام یاب لوگوں کی طرح ناکام لوگوں میں بھی ایک عادت کامن ہوتی ہے اور وہ ہے ’’اسٹارٹ نہ لینا‘‘ دنیا کا ہر ناکام شخص سوچتا ہی رہ جاتا ہے‘ یہ مشورے کرتا کرتا تھک کر مر جاتا ہے چناں چہ کام یابی اور ناکامی میں صرف ایک چیز کا فرق ہوتا ہے اور وہ ہے ’’اسٹارٹ‘‘ اور آپ اگر کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ بھی بس اسٹارٹ کریں۔
آپ نے سیرت النبیؐ کا وہ واقعہ سنا ہو گا جب ایک صحابیؓ آتا ہے اور نبی اکرمؐ سے امداد طلب کرتا ہے‘ آپؐ اس سے پوچھتے ہیں تمہارے گھر میں کیا کیا ہے؟ وہ بتاتا ہے ایک پیالہ اور ایک کمبل‘ آپؐ وہ دونوں چیزیں منگوا کر فروخت کردیتے ہیں اور آدھی رقم اسے دے کر فرماتے ہیں تم اس کا اپنے اہل خانہ کو کھانا خرید کر دے دو اور باقی رقم سے کلہاڑی خرید کر لے آئو‘ وہ اہل خانہ کو کھانا دے کر کلہاڑی خرید لاتا ہے اور آپؐ اس میں دستہ ٹھونک کر فرماتے ہیں تم اس سے جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور بازار میں بیچو‘ اللہ تمہارے رزق میں اضافہ فرمائے گا اور اللہ نے اس کے رزق میں اضافہ بھی فرمایا‘ وہ شخص چند ہفتوں میں خوش حال ہو گیا۔
سیرت کے اس واقعے کا مغز بھی ’’اسٹارٹ‘‘ تھا‘ آپؐ نے اس سے بزنس فزیبلٹی نہیں بنوائی‘ اس سے مارکیٹ سروے نہیں کرایا اور اس سے تعلیم اور ہنر کے بارے میں نہیں پوچھا‘ اسے بس فوری اسٹارٹ کا حکم دیا اور اس فوری اسٹارٹ نے اسے چند ہی دنوں میں اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا‘ ہمارے بزنس سیشنز میں لوگ اکثر گلہ کرتے ہیں ہمارے پاس کاروبار کے لیے رقم نہیں ہے اور میں ان سے کہتا ہوں کاروبار کرو گے تو ہی رقم آئے گی اور وہ ہنس کر پوچھتے ہیں ’’پھر کاروبار کرنے کا طریقہ کیا ہے‘‘ میں جواب دیتا ہوں ’’بس اسٹارٹ کرو‘‘۔
آپ کو یہ بات عجیب محسوس ہو گی لیکن یہ حقیقت ہے دنیا کے ہر مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ’’لیٹس اسٹارٹ‘‘ بس شروع کرو اور مسئلہ حل ہونا شروع ہو جاتا ہے‘ آپ پڑھنا چاہتے ہیں بس پڑھنا شروع کر دیں‘ آپ اسمارٹ ہونا چاہتے ہیں آپ بس ایکسر سائز شروع کر دیں‘ آپ ٹائم کی پابندی کرنا چاہتے ہیں آپ بس ٹائم کی پابندی شروع کر دیں۔
آپ لوگوں کا احترام کرنا چاہتے ہیں آپ بس احترام شروع کر دیں‘ آپ بزنس کرنا چاہتے ہیں آپ بس بزنس شروع کر دیں اور آپ گلوکار بننا چاہتے ہیں‘ اداکاری کرنا چاہتے ہیں‘ لکھاری یا شاعر بننا چاہتے ہیں‘ صحافی یا اینکر بننا چاہتے ہیں یا پھر آپ نوکری کرنا چاہتے ہیں تو اس کا صرف ایک ہی حل ہے آپ بس شروع کر دیں‘ آپ یقین کریں آپ کا ہر آنے والا دن اور ہر اٹھنے والا قدم آپ کو منزل کے قریب لے جائے گا‘ آپ کام یابی کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔
میری زندگی میں سیکڑوں ایسی مثالیں ہیں جن میں لوگوں نے کام شروع کیا‘ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت ڈالتا رہا اور وہ اپنے گول تک پہنچ گئے‘ میں نے ایک پاکستانی ڈاکٹر کی کہانی پڑھی تھی‘ وہ میڈیکل کا طالب علم تھا‘حادثہ ہوا اور وہ زندگی بھر کے لیے مفلوج ہو گیا‘ ڈاکٹروں نے اسے بتایا تم زندگی میں دوبارہ بستر سے نہیں اٹھ سکو گے لیکن نوجوان نے یہ میڈیکل ایڈوائس ماننے سے انکار کر دیا۔
وہ روز بستر پر لیٹ کر اپنی مفلوج ٹانگیں اٹھانے کی کوشش کرتا تھا اور ناکام ہو جاتا تھا لیکن اس نے کوشش نہ چھوڑی اور پھر ایک دن اس کی ایک ٹانگ میں حرکت ہوئی‘ یہ حرکت آہستہ آہستہ بڑھتی رہی یہاں تک کہ وہ بستر سے اٹھا‘ فرش پر کھڑا ہوا‘ میڈیکل کالج میں گیا‘ ایم بی بی ایس کیا‘ ڈاکٹر بنا‘ سیکڑوں لوگوں میں شفاء تقسیم کی۔ ’’تیسرا جنم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور ہزاروں بے ہمت پاکستانیوں کو زندگی کا نیا راستہ دکھا دیا‘ میرے پاس ایک بزنس مین آئے‘ یہ اس وقت ملک میں 145 اسٹورز کے مالک ہیں۔
انھوں نے بتایا میں کاروبار کا سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا‘ میرے والد کو پتا چلا تو وہ غلہ منڈی گئے‘ کیری ڈبے میں چینی‘ چاول اور آٹے کی بوریاں لادیں‘ ہمارا ڈرائنگ روم گلی کی طرف کھلتا تھا‘ والد نے بوریاں ڈرائنگ روم میں رکھیں‘ محلے کی مسجد میں اعلان کرایا ’’ہم نے کریانہ کی دکان کھول لی ہے‘‘ پہلا گاہک آیا‘ والد نے مجھے بلا کر اس کے سامنے کھڑا کیا اور کہا ’’لو تمہارا بزنس شروع ہو گیا‘‘ اور پھر وہ دن ہے اور یہ دن ہے‘ میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
میری آپ سے بھی درخواست ہے آپ زندگی میں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں آپ اس کی لمبی چوڑی پلاننگ نہ کریں‘ بس اٹھیں اور اسٹارٹ کر دیں‘ دنیا کی کوئی رکاوٹ آپ کا راستہ نہیں روک سکے گی اور یہ بھی یاد رکھیں صرف مسافر ہی منزلوں پر پہنچا کرتے ہیں اور زاد سفر کا انتظار کرنے والے پوری زندگی اپنے گھر کی دہلیز پار نہیں کر پاتے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔