تحریر: سید بدرسعید۔۔
یہ صرف آپ نیوز کے ورکرز کا دکھ نہیں ہے. یہ دکھ ہر اس صحافی کا ہے جو زندہ رہنا چاہتا ہے. یہ داستان صرف ایک ادارے کی نہیں ہے. یہ پریشانی کسی ایک کی نہیں ہے. آپ نیوزکے اچانک بند ہونے سے صرف اس ادارے کے ورکرز پریشان نہیں ہوئے بلکہ ہر صحافی کو دھچکا پہنچا ہے. یہ ایک ٹرینڈ ہے جو سیٹھ کے ہاتھ لگ گیا ہے۔۔ اس سے قبل نوائے وقت گروپ کی مالکہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ نے وقت نیوز بند کیا تھا. تب ایک ایک کر کے ورکرز کو نکالا گیا. چند لوگ باقی رہے اور پھر ایک دن معلوم ہوا کہ باقی رہ جانے والوں کو بھی نکال دیا گیا ہے اور چینل بند ہو گیا ہے۔۔وقت نیوز بند ہونے سے پہلے اس چینل کے حالات خراب ہونے لگے تھے. ہمیں صاف نظر آ رہا تھا کہ جلد ہی چینل بند کر دیا جائے گا. آپ نیوز میں اس تکلف کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی. کام کرتے کرتے اچانک خبر آئی کہ ادارہ بند کر دیا گیا ہے. یہ عمل زیادہ خطرناک ہے۔۔
اب لاکھ تسلی اور وعدے کیے جائیں لیکن لگ بھگ ڈیرھ ہزار صحافی یہ رمضان اور عید ذہنی دباؤ کے ساتھ گزاریں گے. یہ سچ ہے کہ اس وقت پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی میڈیا انڈسٹری برے حالات میں ہے اور نئے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ یورپ میں میڈیا ہاوس سے نکالے جانے والے لوگ کوئی بھی دوسرا روزگار اپنا لیتے ہیں۔۔ وہ چھ چھ ماہ بےروزگار رہنے کا رسک نہیں لیتے. پاکستان میں صحافی ابھی تک اس جانب متوجہ نہیں ہوئے. ہمیں اب اس جانب بھی دیکھنا ہو گا. تعلیمی قابلیت میں اضافہ کر کے لیکچرر شپ کے کیریئر کا آپشن اپنے ہاتھ میں رکھنا ہو گا۔
آن لائن شارٹ کورسز کی جانب سوچنا ہو گا. یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے متعلق جاننا ہو گا. کیا ایک صحافی سے زیادہ بہتر انداز میں کوئی پبلک ریلیشنگ ایجنسی چلا سکتا ہے؟؟ کیا نئے دور کے سوشل میڈیا سیل کو ایک پروفیشنل صحافی سے زیادہ اچھا کوئی اور چلا سکتا ہے؟ کیا صحافی لابنگ ایجنسی اور پی آر کمپنی نہیں بنا سکتے؟ تجربہ ہم سب کے پاس ہے، کچھ شارٹ کورسز، تھوڑی ہمت اور کچھ رسک البتہ درکار ہو گا۔۔
ہمیں جہاں میڈیا میں اپنی جنگ لڑنی ہو گی وہیں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے باعزت روزگار کے نئے مواقع بھی تلاش کرنے ہوں گے. بہت سے کام کم سرمائے اور تجربہ کار پارٹنرز کے ساتھ مل کر کیے جاسکتے ہیں۔۔سیٹھ نے ایک راستہ اختیار کر لیا ہے، اب کچھ عرصہ بعد کوئی دوسرا سیٹھ بھی یہی کام کرے گا، پھر تیسرا سیٹھ بھی ایسا ہی کرے گا. لاہور کا ہی ایک چینل محض چار رپورٹرز کے ساتھ چلایا جا رہا ہے. دو چینلز کو بیچنے کے لیے اندر کھاتے ڈیل چل رہی ہے اور مالکان بیچ رہے ہیں۔۔انہیں خریدنے والا سیٹھ کیسے چلائے گا یہ بعد کی بات ہے لیکن تلوار لٹک رہی ہے. باقی اداروں میں سے بھی اکثر میں ایک ایک شخص تین تین لوگوں کے حصے کا کام کر رہا ہے، تنخواہیں بروقت نہیں ہیں یا نیچے لگی ہوئی ہیں، ان میں بھی کٹ لگ رہے ہیں. ان حالات میں صحافتی تنظیمیں تو جو کریں گی سو کریں گی لیکن صحافیوں کو خود بھی انفرادی سطح پر کچھ نیا سوچنا ہو گا۔۔
ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں. یہاں لفظ “ہم” کی اہمیت ہے. سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ہمیں اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ ماضی کے برعکس اب وہ عزت، احترام یا رعب و خوف نہیں رہا. چند ایک کی بات الگ ہے لیکن اکثریت کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے. اس کی وجہ جو بھی ہو لیکن ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پرنٹ کے بعد اب الیکٹرانک میڈیا بھی اولڈ میڈیا میں شمار ہو رہا ہے، نیو میڈیا کچھ اور ہے جس پر اکثر صحافیوں کی گرپ نہیں ہے۔۔ میں سمجھتاہوں کہ ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے ہمیں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے ایسے لیکچرز کا اہتمام کرنا ہو گا جس میں کسی بھی صحافی کے لیے ممکنہ نئے راستوں کی نشاندہی کی جائے اور اس حوالے سے تربیت کی جائے. شاید میں خود بھی اس حوالے سے کام کروں، ان دنوں ایک روڈ میپ بنا رہا ہوں، ایسے شعبوں اور ان کے طریقہ کار پر پیپر ورک بھی جاری ہے جو صحافی متبادل روزگار کے طور پر اپنا سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے کسی لیکچر، سیمینار یا نشست کے لیے سینئرز کی جانب ہی دیکھ رہا ہوں کہ مجھ سے قبل یہ کام وہی کریں تو زیادہ مناسب رہے گا۔۔
آپ نیوز کی یک دم بندش کے اعلان نے جہاں خوف اور مایوسی کی فضا قائم کی ہے وہیں یہ ہمارے لیے اچھا اعلان بھی ہے کہ ہم ایک روایتی حصار سے باہر نکل کر نئی منزلوں کے راستے کھوجنے لگے ہیں۔(سید بدرسعید)۔۔