سینئر صحافی ، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ۔۔سوشل میڈیا کے عروج نے بڑے بڑے ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ پاپولر جرنلزم کریں۔ سچ جھوٹ کے چکر میں نہ پڑیں‘ بس وہ بات کریں جو لوگ سننا چاہتے ہیں اور سن کر واہ واہ‘ بلے بلے کریں اور تالیاں بجائیں۔ ان کے شوز کو ریٹنگز ملیں‘ چاہے پورا ملک جل ہی کیوں نہ جائے۔ انہیں پروانہیں۔ اس کی خوراک سوشل میڈیا پر ہر لمحے داد سمیٹنا ہوتی ہے۔ دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔میں روایتی طور پر انفارمیشن کو ایک طاقت سمجھتا آیا ہوں۔میں خود صحافی ہوں لہٰذا خبر اور انفارمیشن کی طاقت سے بخوبی آگاہ ہوں۔ عمر بھر کوشش کی کہ دانستہ طور پر ایسی انفارمیشن یا خبر شیئر نہ کی جائے جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بڑی بڑی خبریں ہاتھ لگیں لیکن کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ڈراپ کرنا پڑا۔ ۔مگر سوشل میڈیا ایسی جناتی طاقت بن کر اُبھرا ہے جس نے عام انسان کی آواز کو طاقت تو دی ہے‘ وہیں اس نے جھوٹ‘ فیک نیوز اور پروپیگنڈا کو بھی اگلے لیول تک پہنچا دیا ہے۔وہ مزیدلکھتے ہیں کہ۔۔میں ایک ٹی وی شومیں شریک تھا جہاں اس بات کا رونا رویا جارہا تھا کہ میڈیا پر بہت پابندیاں ہیں۔ کافی دیر تک سنتا رہا پھر پوچھ لیا کہ ہم اینکرز بیٹھے ہیں‘ آپ کس کو ٹی وی شو پر نہیں بلا سکتے؟ کون سی بات ہے جو ٹی وی پر نہیں ہوتی؟ کیا بیرسٹر گوہر‘ سلمان اکرم راجہ‘ شیر افضل مروت‘ علی محمد خان‘ فیصل چوہدری‘ شعیب شاہین‘ بیرسٹر علی ظفر وغیرہ کے ٹی وی شوز میں آنے پر پابندی ہے؟ کیا لطیف کھوسہ پر بھی پابندی ہے کہ وہ ٹی وی شوز میں نہیں آسکتے؟