تحریر: ستار چودھری
نااہلی حسد کو ،حسد سازش کو جنم دیتا ہے۔
لطیفہ پرانا ہے،اب تو اس کی مونچھیں بھی سفید ہو چکیں۔ ایک سیاح دوزخ کی سیر کرنے گیا۔گائیڈ اسے ایک کنویں کے پاس لے کر گیا۔آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔اس سے نکلنے کی کوشش کرتا تھا تو پہرے پر کھڑے گارڈ اسے گرز مار کر نیچے گرا دیتے۔ سیاح نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ گائیڈ نے بتایا یہ امریکن ہیں۔ ایسے ہی سیاح ہر ملک ،ہر قوم کے کنویں پر گیا۔ تمام کی ایک جیسے صورتحال۔سیاح اس وقت حیران ہواجب ایک کنویں کے پاس کوئی پہرے دار نہیں کھڑا تھا۔گائیڈ سے مخاطب ہوا، یہ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ باہر آنے کی کوشش نہیں کرتے؟ گائیڈ مسکرایا،کہنے لگا یہ پاکستانی ہیں،ان کیلئے پہرے دار کی کوئی ضرورت نہیں۔سیاح بولا وہ کیوں؟۔گائیڈ سیاح سے مخاطب ہو کر کہنے لگا در اصل یہاں اگر کوئی باہر نکلنے کی کوشش کرے تو دوسرے خود ہی اس کی ٹانگیں کھینچ لیتے ہیں۔
صحافت کے شدید بحران پر بحث چل رہی تھی۔ایک دوست کہنے لگا۔ دراصل پاکستانیوں میں ٹانگیں کھینچنے والی پریکٹس یہاں ہی ہوتی ہے۔ شعبہ صحافت کو دیکھ لو۔
آخر کیوں ؟
صرف اور صرف نااہلی۔ظاہر ہے نااہل شخص دوسروں کی ترقی سے حسد کرے گااور پھر سازش کرے گا۔دوست کہنے لگا! میڈیامالکان ورکرز کے خلاف نہیں ہیں۔بحران ان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتے۔ہم لوگ ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ہم ہی دوسروں کیلئے گڑھے کھودتے ہیں اور آخر خود بھی اس گڑھے میں گر جاتے ہیں۔ہم وہ لوگ ہیں جو ایک بوٹی کی خاطر دوسرے کا بکرا ذبح کر دیتے ہیں۔شدید بحران میں “آپ نیوز”کا لانچ ہونا خزاں میں بہار کی آمد تھی۔ ابھی تو ہنی مون کے دن بھی نہ گزرے تھے کہ افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔
بس ایک شور اٹھا، آ فتاب اقبال کا خاندان چینل کھا گیا۔کہا گیاسات،آٹھ ارب روپے خرچ ہوئے۔میں نے سوچا دو چینل ہیں خرچ ہو گئے ہوں گے۔
پھر آواز آئی آفتاب اقبال نے پوراخاندان بھرتی کر لیا۔سوچا ممکن ہے،آخر وہ سی ای او ہیں،خاندان کو ہی ترجیح دیں گے۔
ایک آدمی نے بتایاآفتاب اقبال کی تنخواہ تین کروڑ ہے۔چند دن بعد مارکیٹ میں خبر آئی آفتاب اقبال کی بیٹی ساڑھے آٹھ لاکھ لے رہی ہیں۔گروپ ایم ڈی جنید اقبال کی تنخواہ اڑتیس لاکھ بتائی گئی۔
جو سب سے بڑی خبر آئی وہ یہ تھی کہ آفتاب اقبال نے اپنے بھائی جنید اقبال کے نام پر ایک کمپنی بنائی اوراس کمپنی سے چینل کی تمام چیزیں کرائے پرحاصل کیں،کوئی چیز خریدی ہی نہیں گئی۔آخر سازشیں اور افواہیں اتنی بڑھیں کہ جنید اقبال استعفیٰ دے گئے۔پھر اچانک ایک دن خبر آئی ملک ریاض نے”آپ نیوز”کو گود لے لیا ہے۔مجھے سب سے زیادہ اسی خبر نے پریشان کیا،یقین ہو گیاکہ اب چینل بند ہو جائے گا۔ملک ریاض کب تک گلے میں پڑا ڈھول بجاتے رہیں گے؟ ان کا روزنامہ جناح نکالنے کا تجربہ سب دیکھ چکے ہیں۔
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا،ملک ریاض کی ایک ای میل پرچینل بند کر دیا گیا۔ سیکڑوں افراد بے روزگار ہو گئے۔ایک بار پھر آفتاب اقبال کا خاندان زیر بحث آ گیا۔ہر شخص اپنے اپنے ظرف کے مطابق تنقید کرنے لگا۔ بڑی چشم کشا رپورٹس سامنے آنے لگیں۔وہ افراد بھی الزمات کے تیر برسانے لگے جنہیں “آپ نیوز”کے متعدد کارکنوں نے جنید اقبال کے جوتے اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں وہ شخص بھی شامل ہے جو اپنے ویڈیو پیغام میں جنید اقبال سے دیسی مرغیوں کا حساب مانگ رہے ہیں اور اپنی دو عشروں سے جاری صحافت کا حوالہ دے رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں وہ الیکٹرانک سامان کے ڈیلر ہیں اور ان کے بڑے بھائی “پریس ریلیز”کا کاروبار کرتے ہیں۔
خاکسارپہلے دن سے کہانیاں سن رہا تھا اور آخر تک داستانیں سن لیں۔ سوچا کیوں نہ”آپ”کی کہانی بیان کر دوں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق تینوں چینل “آپ نیوز” ، “انڈس نیوز” اور “ڈگڈگی” کیلئے دو ارب خرچ ہوئے،وہ بھی تھوڑے تھوڑے کر کے،یہ بھی بتاتا چلوں دو ارب روپے اے کے ڈی اور این کے پی نے خرچ کئے تھے،یہ دونوں چینل کے مالک تھے اور ان دو ارب روپے میں نہ صرف دو چینل لانچ ہوئے اور تیسرے پر کام جاری تھا یہاں تک کہ دو سال ملازمین کی تنخواہیں بھی اسی رقم میں سے ادا ہوتی رہیں۔
آفتاب اقبال کی تنخواہ تین کروڑ نہیں،اسی لاکھ تھی۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس نیوز میں ایک کروڑ پینتیس لاکھ لے رہے تھے۔
آفتاب اقبال کی صاحبزادی ساڑھے آٹھ لاکھ نہیں صرف ایک لاکھ لے رہی تھی۔ حالانکہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو رہی تھی،برطانیہ سے تعلیم یافتہ لڑکی کسی اور چینل میں ہوتیں تو کم از کم تین ،چار لاکھ تنخواہ ہوتی۔
رہے جنید اقبال جو گروپ مینجنگ ڈائریکٹر تھے اڑتیس لاکھ نہیں بارہ لاکھ تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔
آفتاب اقبال خاندان کے ایک شخص کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں،چودھری ناصر کا تعلق پتوکی سے ہے۔ میرا پورا خاندان پتوکی میں رہتاہے۔ میں خود بھی وہاں چار سال رہا۔چودھری ناصر ایک بزنس مین ہیں اور ان کا کروڑوں کا کاروبار ہے،نہ جانے انہیں کیا سوجھی،وہ بھی چینل میں آ گئے۔ تنخواہ کتنی؟ایک لاکھ،کام کتنے؟ لا تعداد۔ چوبیس گھنٹے پریشانی،الزامات الگ۔
رہا کرائے کا سامان ۔اب چینل تو بند ہو چکا۔ابھی تک جنہوں نے کرائے پر سامان دیا تھا وہ سامان اٹھانے تو نہیں آئے،وہیں کا وہیں پڑا ہے۔جبکہ کہا تو یہ گیا تھا کہ رینٹ والی کمپنی جنید اقبال کی ہے؟ کیا جنید اقبال کو کرایہ مل رہا ہے؟
آخر یہ ٹائی ٹینک ڈوبا کیسے؟سازش کس نے کی؟
یہ سب الزامات لگانے والا ٹولا تھا۔ سب کو معلوم ہے پردہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔مقصد کیا تھا؟اس مقام پر پہنچناجہاں آفتاب اور جنید تھے۔پہلے دن سے ہی دونوں بھائیوں کو بائی پاس کر کے مالکان کے ساتھ ڈائریکٹ ہونے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔سکرپٹ کے مطابق دونوں بھائیوں پر الزامات لگائے گئے ،ایک پورا نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔رزلٹ کیا نکلا؟دونوں بھائیوں کو کنویں میں گراتے گراتے خود اندھی کھائی میں جا گرے اور ساتھ سیکڑوں ملازمین کو بھی لے ڈوبے۔
“آپ نیوز”بند ہونے سے متاثر ہونے والے ملازمین کو چاہییے وہ اپنے اصل “دشمن “کی پہچان کریں۔حقائق میں نے سامنے رکھ دئیے ہیں ۔ایسے لوگوں کا محاسبہ ہونا چاہیے جو ذاتی مفادات کیلئے سیکڑوں خاندانوں کے چولہے ٹھنڈے کر رہے ہیں ۔
یہ چھاتہ برداراور چھاتی بردار،نااہل،نالائق،سازشی،حسد کے مارے ہوئے نام نہادصحافی جنہوں نے مقدس پیشے کو طوائف کے کوٹھے سے بھی زیادہ بدنام کر دیا ہے۔(ستار چودھری)
(ستارچودھری کی تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔علی عمران جونیئر)۔۔