تحریر: عمارچودھری۔۔
دنیا کے سبھی لوگ خوبصورت ہیں‘ بدصورتی تو ہمارے رویوں اور ہماری سوچ میں ہے‘ میں نے یہ جملہ کسی سوشل میڈیا پوسٹ میں پڑھا تو فوراً آگے شیئر کر دیا۔ اس طرح کی اچھی باتیں آگے شیئر کرنے سے کم از کم دل کو یہ احساس تو ہوتا ہے کہ موبائل فون پر اِدھر اُدھر کی ویڈیوز اور پوسٹس میں وقت ضائع کرنے کے ساتھ کوئی اچھا کام تو ہوا اور کوئی اچھی بات کسی دوسرے تک پہنچ جائے تو یہ بھی ایک قسم کی نیکی ہے۔ اگرچہ آج کل نیکی کرنے کا زمانہ نہیں رہا۔ ‘نیکی کر دریا میں ڈال‘ کے فارمولے کو بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کیونکہ بعض اوقات آپ جس کے ساتھ نیکی کر رہے ہوتے ہیں وہ آپ کو ہی کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ جس شاخ پر کھڑے آپ کسی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ اسی شاخ کو کاٹنے میں لگ جاتا ہے۔ جہاں تک خوبصورتی کی بات ہے‘ یہ سو فیصد سچ ہے کہ انسان وہی خوبصورت ہوتا ہے جو اندر سے بھی بھلا ہو۔ صرف ظاہری خوبصورتی کافی نہیں۔ خوبصورت نظر آنا اور خوبصورت دیکھنا سب کو پسند ہے لیکن ایسی خوبصورتی کا کیا فائدہ کہ جب بولے تو منہ سے انگارے نکل رہے ہوں۔ اب تو مس ورلڈ جیسے مقابلوں میں بھی ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ بہتر کمیونی کیشن سکلز‘ تعلیم اور دیگر چیزوں کو جوڑ دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اگر دو ایک جیسی دوشیزائیں یا مرد دیکھنے میں انتہائی جاذب نظر ہوں لیکن اگر ان میں سے ایک کو اپنی مادری زبان کے علاوہ انگریزی‘ فرانسیسی اور دیگر زبانیں بھی آتی ہوں‘ وہ پی ایچ ڈی ہولڈر یا فنانشل اکائونٹنگ میں ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ہو جبکہ دوسرے کو اپنی مادری زبان ہی آتی ہو اور وہ بھی ٹھیک سے بول نہ سکتا ہو‘ عالمی حالات سے ناواقف ہو تو دونوں میں زیادہ نمبر اسے ہی ملیں گے جو ظاہری خوبصورتی کے ساتھ علمی اور اخلاقی لحاظ سے بھی برتر ہوگا۔ ہمارے ہاں بلکہ مجموعی طور پر ظاہری خوبصورتی پر ہی فوکس کیا جاتا ہے۔ جیون ساتھی کا انتخاب ہو یا گھروں کی تعمیر‘ کوشش یہی ہوتی ہے کہ خوبصورتی کو ترجیح دی جائے۔ اس کے نتائج بعد میں جس شکل میں نکلتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ بنے بنائے گھر ہی دیکھ لیجئے۔ گھر کی بنیادوں‘ دیواروں اور چھتوں میں کیسا میٹریل استعمال کیا گیا ہے‘ کسی کو پروا نہیں ہوتی۔ ویسے بھی رنگ روغن کے بعد سب کچھ چھپ جاتا ہے۔ پھر ٹھیکیدار بھی پیسے بچانے میں کسر نہیں چھوڑتے۔ دو کروڑ کا گھر بناتے ہیں‘ بیس تیس لاکھ منافع کماتے ہیں لیکن پانچ دس ہزار دیمک کی دوائی پر خرچ نہیں کرتے‘ تیسرے درجے کی اینٹ اور غیرمعیاری اور کم تعداد میں سریا استعمال کرتے ہیں لیکن سارا زور فنشنگ پر لگا دیتے ہیں۔ گھر کا فرنٹ اتنی خوبصورتی سے سجاتے ہیں کہ گاہک دنگ رہ جاتا ہے۔ پھر چھتوں میں دیدہ زیب سیلنگ ڈیزائن اور ان میں لگی سینکڑوں آرائشی بتیاں انسان پر سحر طاری کر دیتی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اوپر اتنا پیسہ لگایا ہے تو اندر بھی کچھ نہ کچھ لگا ہو گا۔ اندر کچھ ہی مال لگایا جاتا ہے۔ مریل سا ڈھانچہ کھڑا کرکے اس پر ایسا میک اپ کیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ برائلر مرغے کو دیسی بنا کر بیچا جاتا ہے یہ تو بعد میں خریدار کو لگ پتا جاتا ہے کہ وہ کر کیا بیٹھا ہے۔
گزشتہ دس سے بیس برس کے دوران پوری دنیا میں مارکیٹنگ کے شعبے کو بہت وسعت ملی ہے۔ ان کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ کم درجے کے مال کو اعلیٰ بنا کر پیش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہک راغب ہو سکیں۔ ایک چیز کو بار بار اور اتنی بار چلایا جاتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والے کو خواب بھی اسی چیز کے آنے لگتے ہیں۔ وہ آئینے میں چہرہ اپنا دیکھتا ہے لیکن نظر کسی اشتہار میں نظر آنے والی دوشیزہ کا آتا ہے۔ پھر موبائل فون کے آنے کے بعد تو صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔ اب تو کوئی موبائل ایپ ڈائون لوڈ کرنی ہوتو وہاں بھی ویڈیو کی شکل میں تشہیر شروع ہوچکی ہے‘ یعنی آپ چاہیں بھی تو کہیں سے بچ نہیں سکتے۔ آپ جو کام کرنے لگیں گے ساتھ میں کوئی نہ کوئی پیغام سننا ہی پڑے گا۔ اس سارے معاملے کی وجہ ایک ہی ہے‘ یہ کہ اس دنیا کے تمام انسان بالخصوص موبائل اور کمپیوٹر صارفین خود ایک پروڈکٹ بن چکے ہیں۔ بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وٹس ایپ اور دیگر ایپس اس قدر مفید اور مؤثر سروسز مفت کیسے دے رہی ہیں۔ اس کا جواب یہی ہے کہ اصل پروڈکٹ وہ ایپ نہیں ہوتی بلکہ پروڈکٹ تو آپ ہیں۔ ہم بھی بادشاہ لوگ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ مفت میں مل جائے اور اگلا بھوکا مرتا رہے۔ اب یہ گوگل یا دیگر سرچ انجنز بھی تو یہی چیز ہیں۔ آپ استعمال کرتے ہیں بلکہ استعمال ہوتے ہیں تو آپ کے ذریعے وہ بھی کماتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگ اور جتنا زیادہ استعمال ہوں گے اتنا ہی ان کا منافع بھی بڑھے گا۔ پھر یہ موبائل ایپ یا ویب سائٹ بنانے میں اتنا خرچ نہیں آتا جتنا چلانے میں۔ جتنے زیادہ صارفین ہوں گے اتنا زیادہ ڈیٹا ڈائون لوڈ ہوگا اور ایپ کو اتنا ہی زیادہ آگے سپیس کا بل دینا پڑے گا۔ وہ یہ بل صارفین کی جیب سے ادا کرواتے ہیں اس کیلئے وہ تشہیر سے کام لیتے ہیں۔ اس سے تینوں فریقوں کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں۔ صارف کو سروس مل جاتی ہے‘ تشہیری کمپنی کو اس کا شیئر مل جاتا ہے اور ایپ بنانے والوں کو اسی شیئر میں سے حصہ مل جاتا ہے۔ اگر کسی موبائل ایپ کے پوری دنیا میں کل ملا کر ایک ارب صارفین ہیں تو ان پر چلنے والے اشتہاروں سے وہ روزانہ کروڑوں کما لیتے ہیں۔ یہی ٹیکنالوجی کا کمال ہے اور اس کا فائدہ سب سے زیادہ مارکیٹنگ کمپنیوں نے اٹھایا ہے۔ پھر کاروباروں کو بھی بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں جہاں چاہیں‘ جس عمر یا علاقے کے لوگوں تک چاہیں فوکس کرکے پیغام کو پہنچانا آسان ہو چکا ہے۔ ایسے میں مگر غلط صحیح کی پہچان بھی مشکل ہو گئی ہے۔ خاص طور پر آن لائن شاپنگ کے معاملے میں بہت فراڈ ہورہا ہے۔ دکھایا کچھ جاتا ہے اور بھیجا کچھ۔ اور یہ صرف پاکستان میں نہیں ہورہا‘ ہر جگہ کا مسئلہ ہے۔ ایک خبر نظر سے گزری کہ بھارت میں ایک صارف نے مہنگا ترین آئی فون آن لائن خریدا لیکن جب اس نے کوریئر سے موصول شدہ باکس کھولا تو اندر اینٹ رکھی ہوئی ملی۔ اس نے آن لائن کمپنی سے رابطہ کیا تو معلوم ہواکہ کمپنی کا ایڈریس اور دیگر معلومات ہی غلط ہیں۔
جیسے جیسے وقت گزررہا ہے‘ دھوکے اور فراڈ کے نئے نئے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لوگ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں صارفین کا وقت اور پیسہ برباد کررہے ہیں۔ پھر موبائل فون پرموصول ہونے والے انعامات کے پیغامات بھی ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ ان میں زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ ہی پھنستے ہیں‘ لیکن کریڈٹ کارڈ اور بینک وغیرہ کے فراڈ میں اچھے خاصے لوگوں کو بھی چونا لگتا ہے۔ اس میں بھی خوبصورتی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بڑے احترام سے آپ کو بینک کے جعلی نمائندے یا کسی تشہیری کمپنی کی کال موصول ہوتی ہے‘ وہ آپ سے یوں بات کرتا ہے گویا پچھلے جنم میں آپ اس کے سگے بھائی رہا ہو۔ پھر وہ آپ سے چکنی چپڑی باتیں کرکے بینک کی اہم معلومات اور پن کوڈ وغیرہ نکلوا لیتا ہے یا آپ کواپنی جعلی پراڈکٹ بیچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے؛ چنانچہ دھوکے سے بچنا ہے تو کبھی بھی کسی کی ظاہری خوبصورتی پر نہ جائیں‘ نہ ہی گولڈن آفرز سے متاثر ہوں کیونکہ آپ کوکوئی بھی اپنے خرچ سے چیزنہیں دے گا‘ یا تو آپ کو دونمبر چیز ملے گی یا پھر آپ خود پروڈکٹ کے طور پر استعمال ہو جائیں گے‘ دونوں صورتوں میں احتیاط آپ ہی کو کرنا ہو گی۔(بشکریہ دنیا)