بلاگ: خرم شہزاد
جہاں آج میڈیا کا بحران ایک حقیقت بن کے تمام میڈیا ورکرز کی نیندیں اڑائے ہوئے ہے وہیں یہ نئی حکومت کے لیے سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والی کیفیت ہے۔ ہمیں اس بحران سے جو لینا دینا ہے وہ بعد کی بات ہے لیکن پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی بحران کسی ایک وجہ سے نہیں پیدا ہوتا۔ حالات کرتے ہیں پرورش برسوں تب کہیں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے۔ بہت سی وجوہات آہستہ آہستہ اپنی حیثیت قائم کرتی ہیں تب کسی بحران کی بنیاد پڑتی ہے۔ نیوز چینلز کے موجودہ بحران کو سمجھنے سے پہلے ہمارا ایک سوال ہے کہ ہمارے میڈیا ہاوسزکے پاس دکھانے کو ہے کیا۔۔۔؟؟
میڈیا کے سیلاب میں ٹوینٹی فور سیون کا ایک نقصان یہ ہواکہ چینل پر صبح شام کا کوئی پتہ نہیں چلتا اور اگر نیوز چینل ہو تو صبح و شام کی تفریق بالکل ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک ہنگامہ ہے جو ہر وقت چینل پر برپا رہتا ہے، ہر وقت بریکنگ نیوز چل رہی ہوتی ہیں ۔ تین بجے کرکٹ میچ ہونا ہو تو ڈھائی بجے بریکنگ نیوز آئے گی کہ اب سے بیس منٹ بعد ٹاس ہو گا اور پھر دس منٹ میں میچ شروع ہو جائے گا یعنی ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے جس سے ناظر کو اپنی سکرین کے ساتھ باندھ کر رکھا جا سکے۔۔ چاہے وہ جس قدر فضول ہی کیوں نہ ہو ،لیکن چینل پیش کیا کرتے ہیں، سوال تو یہی ہے اور شائد ایک ایسا سوال جس کا جواب خود چینل کی انتظامیہ کے پاس بھی نہیں۔ ہم ٹھہرے پرانے زمانے کے ، جب صبح اخبار میں پورے دن کے پروگراموں کے نام اور وقت لکھا ہوا مل جاتا تھا۔ کیا آج کا کوئی چینل ایسا کر سکتا ہے۔۔؟؟ نہیں ۔ کیونکہ کوئی پتہ نہیں کب کہاں کوئی شخص کسی کتے کو کاٹ لے اور تین تین میڈیا ٹیموں کے ساتھ اس واقعے کی کوریج کرنی پڑ جائے۔ ایک رپورٹر کتے کے گھر والوں سے اپڈیٹ لینے کے لیے موجود ہو ، دوسرا ہسپتال سے اپڈیٹس دے رہا ہو اور تیسرا رپورٹر اس شخص سے وجوہات جاننے کے لیے کوشاں ہوگا جس نے کتے کو کاٹا ہو گا۔ اس پر ایک دو تجریہ کاروں کو بھی آن کال کر لیا جائے گا اور اگر کتا قریب المرگ ہو گیا تو شائد کسی اپوزیشن رکن سے بھی بیان لینے کی کوشش کی جائے گی ۔ شام کو پہلے ایک کرائم شو چلے گا جس میں پولیس والوں کو ساتھ لے کر اینکر یا اینکرنی صاحبہ ڈھائی گرام چرس برامدگی کے لیے چھاپے مارے گی۔ محلے کے اندر بنے کارخانوں پر یوں دھاوا بولا جائے گا جیسے وہ دشمن ملکوں کے خفیہ اڈے ہوں اور ان سب پر چھاپوں سے سات منٹ پہلے تک سیلمانی چادر پڑی ہوئی تھی کہ کسی کو آج تک نہ ان کا پتہ چلا نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی۔ اس کرائم شو کے آخر میں اینکر صاحب پولیس والوں سے ہاتھ ملا کر شکریہ ادا کریں گے اور ٹھیک سات منٹ بعد شروع ہونے والے ٹاک شو میں پولیس والوں کی بینڈ بجائی جائے گی۔ ان کی رشوت ستانی اور کرپشن کی کہانیاں ہوں گی ، سیاست دانوں اور دانشوروں کا پینل ایک دوسرے کی ماں بہن کرے اور عوام کو یہ باور کروائے گا کہ اصل میں تمہاری کھال اتارنے کے لیے ہم ہی درست انتخاب ہو سکتے تھے ، باقی تمام لوگ تو تمہارا کفن بھی چرا لیں گے اور ۔۔ افسوس ناک امر یہ ہوتا ہے کہ جن کی طرف وہ سیاست دان یا دانشور اشارہ کر رہا ہوتا ہے وہ اسی کا رشتہ دار لیکن مخالف پارٹی کا امیدوار ہوتا ہے ۔ وقفہ آتے ہی یہ سب ایک دوسرے کی ران پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ دیکھا آج کیسی شاندار پرفارمنس دی ہے۔ فساد اور چنگاریوں کو ہوا دیتے ہوئے اینکرز کے ٹاک شوز کا ڈرامہ ختم ہو گا تو رات کافی ہو چکی ہو گی ، بہت سے لوگ سونے چلے جائیں گے اور آپ کی سکرین پر اب دوسرے درجے کے دانشور اور تجزیہ کار اپنی دال کو بگار لگانے میں مصروف ہوں گے۔ شام میں چلنے والے کچھ پروگرام رات گئے دوبارہ نشر کئے جائیں گے اور صبح سے دوبارہ وہی چکر دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ تمام رپورٹرز پاگلوں کی طرح نکل کھڑے ہوں گے ، بیورو چیفس چیخ چیخ کر انہیں کہہ رہے ہوں گے کہ جلدی کچھ بھیجو کہ آج کیا چلانا ہے۔ ۔۔ اور پھر کیمرے کسی بندر کے تماشے، کسی ہنگامے، کسی فساد پر جا رکیں گے اور سارا دن اس کی لائیو کوریج کرتے ہوئے عوام تک سچے اور اصل حقائق پہنچائے جاتے رہیں گے، جس سے بھلے ایک عام آدمی نفسیاتی اور ذہنی مریض بن جائے لیکن میڈیا والوں نے کیمرہ جلاو گھیراو پر ہی رکھنا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پوری دنیا میں صرف ہمارے ملک میں ہر ہنگامہ اور فساد برپا ہے جبکہ باقی ساری دنیا جنت کا تیسرا محلہ ہے کیا۔؟ بین الاقوامی خبروں کے لیے مختلف چینلز کے اپنے انداز ہیں لیکن کہیں بھی یہ خبریں دو منٹ یعنی ایک سو بیس سیکنڈ سے زیادہ کا وقت نہیں لیتیں۔ کیونکہ ہر دم باخبر ، تیز، لائیو اور ایکسیلوزو خبروں والے چینل کے پاس ڈھنگ کا ایسا کوئی انتظام ہی نہیں کہ جس سے وہ بین الاقوامی دنیا کی کوریج بھی کر سکے۔ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے تمام چینلز کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی آخری خبر دئیے بھی دو سے تین ماہ گزر چکے ہیں۔ ناسا کی سیٹلائیٹ یا جاپان کے کسی نئے ربورٹ کی خبر دے کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی کی خبریں بھی اپنے ناظرین تک پہنچا دی ہیں حالانکہ یہ لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی کو دو الگ چیزیں سمجھتے ہی نہیں اور ان کے خیال میں یہ ایک ہی شعبہ ہے۔ یہ افسوس اس وقت اور بڑھ جاتا ہے کہ جب معاشرے کے ہزار ہا پہلووں اور سینکڑوں شعبہ جات کو ہمارے نیوز چینل اس لائق ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے بارے کوئی ڈھنگ کا صحافی ہی رکھ لیا جائے یا ان کی خبر ہی دے دی جائے۔ کھیلوں میں بھی سوائے دو چار شعبہ جات کے کبھی کسی دوسرے کھیل کی خبر نظر سے نہیں گزر پائی ۔ آخر یہ سب کیا ہے۔؟ میڈیا کے بحرانوں پر بات کرنے والوں کو ہمارا جواب ہے کہ میڈیا میں اصلی بحران تو خبر کا ہے جو اسی میڈیا نے پید اکیا ہوا ہے۔ عوام تک کبھی کوئی اچھی خبر نہیں پہنچ پائی بلکہ ہماری ذاتی رائے کے مطابق تو عوام تک کوئی خبر پہنچتی ہی بہت مشکل سے ہے۔ رہی بات اس بحران کی تو شکر کریں کہ میڈیا کی عزت بچانے کے لیے آپ لوگوں کا ڈرامہ کامیاب ہونے کے قریب ہے اور آپ کا خودساختہ بحران ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے لیکن بطور ناظر ہمارا سوال تو بہر حال یہی ہے ناں کہ اگر آپ لوگوں کے لئے ( خدانخواستہ ) ہر وقت کہیں نہ کہیں پاکستان میں کوئی ہنگامہ، کوئی دھرنا، کوئی فساد یا سیاسی ڈرامہ نہ ہوتو آپ لوگوں کے پاس دکھانے کو ہے کیا۔۔۔؟ یہ سوال تو آپ کو بھی روز پریشان کرتا ہے اور جو کچھ آپ دکھا رہے ہیں اس کے بعد ہمیں بھی پریشان کرنے لگا ہے کہ میڈیا بحران کا رونا تو چلو اپنی جگہ، حکومتی کارکردگی بھی اپنی جگہ اور حالات بھی ہم سمجھ لیں گے کہ آپ اپنے لیے کوئی بہترین راستہ چاہتے ہیں لیکن آپ یہ بتائیں کہ عوام کو ذہنی اور نفسیاتی مریض بنانے کے اور دھرنے، فساد، ہنگامے اورسیاسی ڈرامہ بازیوں کے علاوہ دکھانے کو آپ کے پاس ہے کیا۔۔۔؟ (خرم شہزاد)