دوستو، آج کی نئی نسل میں یہ بات تو اچھی ہے کہ وہ کسی کو کسی بھی قسم کا کام بولنے سے قبل یہ معلوم ضرور کرلیتے ہیں کہ۔۔ آپ بزی تو نہیں؟؟ ہمارے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اگر کسی نے کام کہہ دیا اور سامنے والے نے اپنی مصروفیت کی وجہ سے انکار کردیا تو سمجھ لیں خاندانی دشمنی شروع ہوگئی، سوشل بائیکاٹ ہوجاتا تھا۔۔چلیں اگر آپ بزی نہیں تو ہماری اوٹ پٹانگ باتوں سے تھوڑی دیر لطف اندوز ہولیں۔
امریکا میں کیے گئے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ خبروں کیلیے سوشل میڈیا پر بھروسہ کرنے والوں کی بڑی تعداد کورونا ویکسین لگوانا نہیں چاہتی۔دی کووِڈ اسٹیٹ پروجیکٹ کے عنوان سے جاری ایک وسیع منصوبے کے تحت کیے گئے اس سروے میں امریکا کی 50 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ کولمبیا سے مجموعی طور پر 20,669 افراد نے حصہ لیا۔واضح رہے کہ کووِڈ 19 کی حالیہ عالمی وبا میں سوشل میڈیا سے پھیلنے والی افواہوں نے دنیا بھر میں بے یقینی کی فضا نہ صرف پیدا کی ہے بلکہ اب تک اس فضا کو قائم بھی رکھا ہوا ہے۔ اسی بنا پر عالمی ادارہ صحت نے پچھلے سال ہی بے تحاشا معلومات کے اس سیلاب کو ”انفوڈیمک“ (اطلاعات کی وبا) کا نام دے دیا جبکہ کووِڈ 19 کو اس کے بعد عالمی وبا قرار دیا گیا۔تازہ امریکی سروے میں جہاں عمومی طور پر یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا کی ”خبروں“ پر بھروسہ کرنے والوں کی بڑی تعداد کورونا ویکسی نیشن کے خلاف ہے اور دوسروں کو بھی یہ ویکسین لگوانے سے روک رہی ہے، وہیں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایسی خبروں کے پھیلاؤ میں فیس بُک اور اس سے وابستہ دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یعنی واٹس ایپ اور انسٹاگرام کا کردار سب سے نمایاں ہے۔یہ کیفیت ایسے افراد میں سب سے زیادہ (تقریباً 21 فیصد) تھی جو خبروں کیلیے صرف ”فیس بُک“ کو واحد ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ان کے برعکس وہ لوگ جو مختلف ذرائع سے خبریں حاصل کررہے تھے، ان میں سے صرف 7 فیصد میں کورونا ویکسین مخالف (اینٹی ویکس) خیالات مشاہدے میں آئے۔واضح رہے کہ فیس بُک انتظامیہ نے کووِڈ 19 اور ویکسی نیشن کے بارے میں افواہیں پھیلانے والے اکاؤنٹس اور گروپس بند کرنے کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے لیکن پھر بھی یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔اگرچہ یہ سروے امریکا میں کیا گیا ہے لیکن اس کے نتائج ان ہی عوامی رویّوں کی تائید کرتے ہیں جو پاکستان سمیت دنیا بھر کے عام لوگوں میں نمایاں ہیں۔ایک حالیہ تحقیق سے یہ خدشہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی طرزِ عمل کو درست طور پر نہ سمجھا گیا تو یہی سماجی میڈیا، انسانی سماج کیلیے خطرہ بھی بن سکتا ہے۔کورونا ویکسین کے بارے میں افواہوں اور ویکسین مخالف رجحان کے فروغ سے متعلق ویب سائٹ ”ہیلتھ لائن“ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ناول کورونا وائرس (سارس کوو 2) سے مرنے والے 99 فیصد افراد وہ ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔
اگر آپ نے ویکسین لگوا لی ہے تو کوئی بات نہیں، نہیں لگوائی تو فوری لگوالیں۔۔ٹینشن میں آنے کی ضرورت نہیں۔ شوہرنے بیوی کی کال کاٹتے ہوئے کہا۔۔بیگم میں بزی ہوں فری ہو کر کال کروں گا۔شوہر نے فون بند کیا ہی تھا کہ پڑوسن کی کال آ گئی،پڑوسن نے بڑے لگاوٹ سے پوچھا، آپ بزی تو نہیں؟ شوہر نے کہا، نہیں جی، آپ حکم کریں۔۔ پڑوسن جلدی سے بولی، جی وہ آپ کی بیگم بات کرنا چاہ رہی تھیں۔ اگلے ہی لمحہ بیگم کی دھاڑ کانوں میں گونجی، شام کو ذرا جلدی گھر آنا اور آتے ہوئے آئیو ڈیکس ضرور لیتے آنا۔۔ڈرائیورکی زندگی بھی جب کھیل ہے، موت سے بچ گیا تو سینٹرل جیل ہے۔ ایک ڈرائیور صاحب نے انکشاف کیا کہ۔۔صبح صبح جب میں اپنی وین نکالتا ہوں تو گانا لگاتا ہوں۔۔ محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا۔۔ سب مسافر چلانے لگتے ہیں۔۔ خدا کا خوف کرو استاد صبح صبح کا ٹائم ہے۔۔ پھرمیں قوالی لگادیتا ہوں۔۔ یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، تیری نظر کا قصور ہے کہ شراب پینا سکھا دیا۔۔سب لوگ عقیدت سے جھومنے لگے۔۔ایک سردار جی کے گھر رات کے دو بجے بیٹا پیدا ہوا،پیدا ہوتے ہی سردار نے تھپڑ دے مارا،بیوی چیخ کر بولی۔۔کوئی بچے کو بھی ایسے مارتا ہے،سردار بولا۔۔ یہ پہلی رات ہی دو بجے گھر آیا کل جوان ہوگا تو نجانے کس وقت آئے گا۔۔اب باباجی کی کچھ باتیں اور یادیں تازہ کرلیتے ہیں۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔قطع تعلقی، کتا تعلقی سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔۔ان کا مزید کہنا ہے کہ۔۔کچھ لوگ اتنے سمجھدار ہوتے ہیں آپ انہیں سمجھدار کہیں تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔قومی لباس سے متعلق باباجی کا فرمانا ہے۔۔شلوارقمیص اس لئے ہمارا قومی لباس ہے کہ اس میں جھولی اٹھا کر بددعا دینے کا آپشن موجود ہے۔۔باباجی نے ایک روز ہم سے ایک سوال بڑے معصومانہ انداز میں کیا، پوچھنے لگے، یہ پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں لوگ آفس ہی کیوں جاتے ہیں؟ کیا ان کی دکانیں وغیرہ نہیں ہوتیں؟؟باباجی کا کہنا ہے کہ۔۔اُدھار دیں مگر سوچ سمجھ کر اپنے ہی پیسے بھکاری بن کر مانگنا پڑتے ہیں، اور ادھار لینے والا جج بن کر تاریخ پہ تاریخ دیتا رہتا ہے۔۔ پاکستانی قوم کے حوالے سے باباجی کا فرمان عالی شان ہے۔۔پاکستانی قوم زیادہ گرمی اور زیادہ سردی میں کام نہیں کرسکتی،اور جب موسم خوشگوار ہو تو ان کا ویسے ہی کام کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔
آج جمعہ ہے تو اسی حوالے سے ایک واقعہ بھی سن لیجئے۔۔ایک یمنی دوست کہتے ہیں کہ ان کے صنعا شہر میں ایک یہودی بزرگ رِبی رہتا تھا جسے سب لوگ چچا کے نام سے جانتے تھے۔ ایک دفعہ چچا نے جمعہ والے دن صنعا سے کافی دور والے ایک شہر ریدہ میں اپنی یوم السبت (ہفتہ والے دن کی عبادات) کی تقریبات میں شرکت کے لئے جانا تھا۔ چچا نے ایک ٹیکسی والے سے بات کی اور کرایہ پانچ ہزار یمنی ریال طے ہو گیا۔ ٹیکسی والے نے چچا سے کہا۔۔ چچا، جمعہ کا خطبہ ہونے میں آدھا گھنٹہ رہتا ہے، آپ مجھے جمعہ پڑھ لینے دو، پھر میں آپ کو پہنچا آتا ہوں۔۔ چچا نے ٹیکسی والے سے کہا، تجھے کرایہ پانچ کے بجائے دس ہزار ریال دونگا تو مجھے بس ابھی ہی لے چل۔ ٹیکسی والے نے بلا تردد چچا کی بات مانی اور چل پڑے۔ راستے میں گپ شپ کے دوران ٹیکسی والے نے چچا سے کہا۔۔ چچا، آپ کی چل چلاؤ کی عمر ہے، آپ اسلام کیوں نہیں قبول کر لیتے؟چچا نے ٹیکسی والے کی بات سنی، قہقہہ لگا کر ہنسے اور کہا۔۔ پُتر اوئے، پہلے تو خود تو اسلام قبول کر لے۔ میں نے اپنے ہفتے کو بچانے کے لئے دس ہزار خرچ کئے ہیں اور تو نے دس ہزار کے لئے اپنا جمعہ بیچ دیا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نیند اور جہالت جتنی گہری ہوگی، جگانے پر اتنا ہی زیادہ غصہ آئے گا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔