تحریر: جنید جاوید
میڈیا انڈسٹری وہ واحد انڈسٹری تھی جس کے ورکرز کا بند مٹھی بھرم اور سفید پوشی اب سے کچھ عرصے قبل تک برقرار تھا ۔ لیکن جوں ہی تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو سفید پوشی سے پردہ اور اچھے ادارے میں کام کرنے کا بھرم بھی تار تار ہوگیا ۔۔اداروں میں مالی بحران آیا تو کئی صحافی بے روز گار ہوئے اور کئی صحافیوں کی اداروں میں تنخواؤں میں بھی کٹوتی کی گئیں جس میں شادی شدہ صحافیوں کی ازدواجی زندگی اور کنوارے صحافیوں کی شادی بھی چیلنج بن گئی ۔۔کہا جاتا ہے کہ اگر تنخواہ اچھی ہو تو لڑکی والوں کے استخارے میں ہاں ہی آتا ہے بدلتے موسم اور سیاسی ماحول کی وجہ سے اب یہ حال ہو چکا ہے کہ صحافی کی تنخواہ چاہے کتنی ہی اچھی ہو استخارے میں اب نا ہی آنا شروع ہو چکا ہے کیونکہ نیوز چینلز کا ماحول اور ان کی تنخواہوں میں تاخیر ہر شخص کے علم میں ہے انہی داستانوں میں آپ بیتی بھی بیان کرتا چلوں سن دو ہزار دس میں ایک اخبار کے ساتھ منسلک ہوا رپورٹنگ میں انٹرن شپ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے چینلز میں ملازمتیں ملتی رہیں دو ہزار تیرہ سے سترہ تک میٹرو ون نیوز میں رپورٹنگ کے فرائض انجام دئے گھر والوں کو لگا بیٹا کماؤ پوت ہوچکا ہے شادی کردینی چاہئیے کئی لڑکیاں تلاش کیں لیکن ہر در سے نا ہی سننے کو ملی ایک رات بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ آخر کیا وجہ ہے تو ابو جان بے ساختہ قہقہے لگاتے ہوئے بولے ویلکم فلم دیکھی ہے جس میں ڈائیلاگ تھا انسان کو اپنا برا کئے کی سزا اسی جنم میں ملتی ہے میں بولا بھلا اس ڈائیلاگ کا مجھ سے کیا تعلق ہے ابو بولے بیٹا تم صحافی تو بن رہے ہو لیکن یہ ذہن میں رکھو کے تنخواہ اچھی ہوتی ہے تب ہی استخارے میں ہاں کا جواب آتا ہے بلاخر میں نے ہمت پکڑی اور امی کو بتایا کہ میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں امی نے کچھ نہ کہا لیکن پھر دو تین دن بعد ہی مجھے کہا کہ رشتہ بھیجنا ہے ایڈرریس بتاؤ میں خوشی سے نہال ہوگیا لڑکی کی امی ، ابو ، بھائی ، بہن سب جانتے تھے مجھے لگا کہ سب اچھے کی رپورٹ ہوگی لیکن جیسے ہی رشتے کی بات چلی تو جواب مایوس کن ملا ۔۔سوچ بچار کے بعد لوگوں سے پوچھا کہ وجہ کیا ہے منع کیوں ہوا تو زرائع سے معلوم ہوا بچہ رپورٹر ہے اور تنخواہ بھی کم ہے اسی لئے استخارے کو بہانا بنا کر منع کیا گیا ہے، افسوس تو بہت ہوا لیکن ڈھیٹ صحافی جوٹھہرا، فیلڈ ایک عادت بن چکی تھی جو چھوڑی نہیں گئی اور پھر کئی مہینوں کوششوں کے بعد تنخواہ اچھی ہوئی اور پھر بلاخر استخارے میں ہاں آہی گیا ازدواجی زندگی گزرانے لگا تو معلوم ہوا کہ جو تنخواہ میری ہے وہ انتہائی ناکافی ہے گھر کا خرچہ ، بجلی کا بل اور دیگر معاملات گزارنا مشکل ہو رہا تھا ایسے میں عمران خان وزیر اعظم کی صورت میں ہمارے ملک پر نازل ہوئے اور میری عام سی ازدواجی زندگی میں معاشی مسائل پیدا ہونے لگے۔۔ آج کے دور میں سوچتا ہوں کہ غیر شادی شدہ صحافیوں کو لڑکی کون دے گا اور استخارے میں منع کا ریشو کس حد تک بڑھے گا جس تیزی سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے یہ تمام صحافی کہاں جائینگے جب اس حد تک شادی زدہ صحافیوں کی زندگی میں معاملات خراب ہو رہے ہیں تو کوئی صحافی گو عمران گو کیوں نہ کہے ۔۔(جنید جاوید)۔۔
(نوجوان صحافی جنید جاوید کی آپ بیتی سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔