علی عمران جونیئر
دوستو،ایک طرف حکومتی معاملات چلانے کے لئے قرضے لینے پڑرہے ہیں، دوسری طرف اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے اگست کے وسط تک تحلیل کردی جائیں گی، نگراں سیٹ اپ کیا ہوگا ؟ کون نگراں وزیراعظم بنے گا، یہ تو اہل علم ہی جانتے ہونگے۔ لیکن جس طرح بار بار قرضوں کے بل پر حکومت اپنے معاملات چلاتی ہے اور کسی حکومت کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ قرض واپس کون کرے گا؟ قرض واپسی کے لئے حکمت عملی کیا ہوگی؟ ہر حکومت ٹیکس لگا کر اور پیٹرولیم مصنوعات مہنگی کرکے سمجھتی ہے کہ ذرائع آمدن میں اضافہ ہوگیا حالانکہ انہیں شاید یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ عوام کی نفرتیں سمیٹ رہے ہیں۔ہمارے محترم دوست اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی ناصر جمال نے حکومتی خزانہ بھرنے کے لئے بہترین تجویز دی ہے جس سے عوام پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور مہنگائی کا تو نام و نشان نہیں رہے گا۔وہ تجویز دیتے ہیں کہ ۔ ۔ میرا تو مشورہ ہے کہ قومی اسمبلی کی340 سیٹوں کی کُھلی بولی لگوائی جائے۔ ساتھ میں سینیٹ ختم کرکے اُس کی 108 سیٹوں پر بھی بمعہ صوبائی اسمبلیوں کے بولی لگوالی جائے۔ بلکہ اسمبلیوں میں ممبران کی تعداد بڑھا کر ایک ہزار کر دی جائے۔ بولی ڈالر اور دوسری غیر ملکی کرنسی میں لگوائی جائے۔ اسمبلیوں کی مدت دس سال کر دیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی برابری کی بولی میں حصہ لینے دیاجائے۔بلکہ ایک اور نیا کام کریں۔ لگے ہاتھوں بلدیاتی اداروں کی سیٹوں کا اعلان کرکے وہاں بھی بولی لگوا لیں۔ میں تو یہ بھی مشورہ کہ بیورو کریسی کی پرنسپل سیکریٹری، چیف سیکریٹری، سیکریٹریز، ڈی سی۔ اے سی، آئی جی، آر پی او، ڈی پی او تھانے، کسٹم، انکم ٹیکس بلکہ سفیروں کی بھی بولی لگوالیں۔ آپ کم از کم پچاس سالوں کے لئے بجٹ سے آزاد ہوجائیں گے۔
اگر حکومت اس تجویز پر غور کرے تو سوچیں نہ صرف خزانہ بھر جائے گابلکہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی اپنی بلندیوں کو چھوئیں گے، کرپشن کا شور بھی ختم ہوجائے گا۔لیکن ہمارے حکمرانوں کی سوچ کیسی ہوتی ہے یہ تو سب کے علم میں اچھی طرح سے ہے، لیکن حکمرانوں کو چلانے والی بیوروکریسی کی سوچ کیسی ہوتی ہے؟اس کی مثال اس ایک واقعہ سے لے لیں۔عارف نکئی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔۔انہیں عجوہ کھجور کا باغ لگانے کا شوق چرایا۔محکمہ زراعت کو حکم دیا گیا کہ اعلی نسل کی عجوہ کھجور کا باغ لگایا جائے۔سارا محکمہ عجوہ کھجور ڈھونڈنے میں مصروف ہو گیا لیکن نہ ملی۔اس مسئلے کے پیش نظر ایک اعلی سطح کی میٹنگ کال کی گئی۔سب افراد اس مسئلے کا حل دینے میں ناکام رہے ۔ایک جونیئر افسر نے رائے دی کہ کوئی سی بھی کھجور لگا دیتے ہیں۔کھجور بڑی ہونے تک انہوں نے کونسا وزیر اعلیٰ رہنا ہے ۔پھر اگلے ہی دن عجوہ کھجور کا باغ لگا دیا گیا۔
آپ لوگوں نے اکثر دیکھا ہوگا کہ پاکستان کا موازنہ سنگاپور سے کیا جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ پاکستان کو جلد سنگاپور بنادیں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں سنگاپور میں صرف ایک فیصد غریب بستے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں وہاں کی حکومت کسی قسم کا ٹیکس نہیں لیتی۔۔کیا آپ کے علم میں ہے کہ دنیا کا طاقت ور ترین پاسپورٹ سنگاپور کا ہے۔ وہاں شرح خواندگی ستانوے فیصد ہے، ملک میں نوے فیصد سفید دھن ہے۔ ملک میں تعلیمی نظام مثالی ہے۔ صفائی کا نظام قابل رشک ہے۔سرعام تھوکنے یا چیونگم چبانے پر بھی پولیس گرفتار کرلیتی ہے اور عدالت فوری سزا سناتی ہے۔ میڈیکل سہولتوں کا جواب نہیں۔قیمتیں کنٹرول میں اور سستی ہیں اور عام انسانوں کی پہنچ کے اندر بھی۔بیروزگاری صرف 1 فیصد ہے۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ پاکستان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں؟ شاید نہیں! ایسے کئی حقائق ہیں جن سے آپ واقف نہیں ہوں گے۔ یہاں ہم اپنے پیارے پاکستان کے بارے میں چند دلچسپ حقائق سے آپ کو آگاہ کریں گے۔پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس ہے۔چھانگا مانگا کا جنگل انسان کا بنایا ہوا دنیا کا سب سے بڑا جنگل تھا۔صوبہ خیبر پختونخوا میں آنسو کے قطرے کی طرح دکھنے والی ایک جھیل ہے جسے انگریزی میں ٹئیر ڈراپ لیک بھی کہاجاتا ہے، اس جھیل کو انیس سو ترانوے میں پاکستان ائیرفورس کے پائلٹس نے کم اونچائی پر پرواز کرتے ہوئے دریافت کیا تھا۔دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد کے ٹو پہاڑ کی چوٹی کا نام آتا ہے جو کہ پاکستان میں موجود ہے۔دنیا کا چوتھا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام پاکستان میں ہے۔کھیوڑہ کی کانیں دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہیں جسے سکندر اعظم کی فوج نے حادثاتی طور پر دریافت کیا تھا۔پاکستان کی سرحدیں ہندوستان کی کم از کم 3 ریاستوں کے ساتھ ملتی ہیں جس میں راجستھان، گجرات اور پنجاب شامل ہیں۔صحرائے تھرپار دنیا کا واحد زرخیز صحرا ہے۔سیف الملوک پاکستان کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔پاکستان منفرد شہتوت پیدا کرنے کے لیے جانا جاتا ہے جو کافی رسیلے ہونے کے ساتھ ساتھ میٹھے بھی ہوتے ہیں۔ یہ شہتوت 3.5 انچ سے زیادہ بڑھ سکتے ہیں جو کہ عام شہتوتوں کے مقابلے میں سائز بڑا ہے۔پہلا بین الاقوامی کرکٹ میچ کراچی میں ہوا۔ اسے دیکھنے کیلئے پانچ ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ دوہزار سترہ میں پاکستان دنیا بھر میں واحد ملک تھا جہاں سب سے زیادہ اے ٹی ایمز تھے گنیز ورلڈ ریکارڈ میں بھی اس کا نام آیا تھا۔تربیلا ڈیم دنیا کا واحد ڈیم ہے جس کی تیاری کیلئے بنیادوں میں سب سے زیادہ پتھر اور اضافی زمین کی تہہ بچھائی گئی ہے۔
زندگی میں شوہر کے آنے سے خواتین کے گھریلو کام کاج میں کتنا اضافہ ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس حوالے سے ہمارے علم میں کافی اضافہ کیا ہے۔اس نئی تحقیق کو پڑھ کر شاید خواتین شادی سے ہی انکار کردیں۔یونیورسٹی آف مشی گن کے ماہرین کی ٹیم نے تحقیقاتی نتائج میں بتایا ہے کہ زندگی میں شوہر کے آنے سے کسی بھی خاتون کے گھریلو کام کاج میں اوسطاً 4گھنٹے فی ہفتہ کام کا اضافہ ہوتا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ماہر معاشیات فرینک سٹافرڈ کا کہنا تھا کہ ”جدید دنیا میں میاں بیوی کے برابر گھریلو کام کاج کرنے کا تصور پایا جاتا ہے مگر حقیقت میں اب بھی گھر میں خواتین ہی کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ امریکی خواتین 20ویں صدی کے وسط میں ایک ہفتے میں 26گھنٹے کام کرتی تھیں۔ اب ان کے کام کی شرح میں کمی واقع ہو چکی ہے اور وہ ہفتے میں اوسطاً 17گھنٹے کام کرتی ہیں۔فرینک سٹافرڈ کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں مردوں کے کام میں لگ بھگ د گنا اضافہ ہوا ہے۔ 20ویں صدی کے وسط میں مرد ہفتے میں اوسطاً 6گھنٹے کام کرتے تھے اور آج 13گھنٹے کر رہے ہیں۔خواتین کے گھریلو کام کاج پر شادی کے اثرات کے حوالے سے فرینک سٹافرڈ اور ان کی ٹیم نے بتایا کہ 1976ء میں شادی کرنے کے بعد خواتین کو ہفتے میں اوسطاً9گھنٹے اضافی کام کرنا پڑتا تھا۔اس میں بھی بتدریج کمی ہوئی ہے اور 2005کے بعد سے شادی کے بعد خواتین کو 4گھنٹے اضافی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح اس عرصے میں بھی شادی کے بعد مردوں کے کام میں اضافہ ہوا ہے اور 2005کے بعد سے شادی کے بعد وہ ہفتہ وار 5گھنٹے اضافی کام کر رہے ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ بڑی بڑی باتیں تو بچہ بھی کرتا ہے… انسان تب سمجھدار ہوتا ہے جب وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سمجھ سکے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔