khairsh ka khadsha

آم ہی تو خاص ہیں  (طنزومزاح)

تحریر: سید عارف مصطفی۔۔

جو کوئی منش تمیز سے آم کھاسکتا ہے، اس سے یقینناً ڈرنا چاہیئے کیونکہ اس قدر منظم شخص تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔۔۔۔ خود کو معتدل و غیر موذی ثابت کرنے کے لیئے یہ بات ہمارے دوست خواجہ نے ایک بار اس وقت کہی تھی کہ جب وہ تازہ تازہ دریائے آم سے تیر کے پار اترے تھے اور اسکی موجوں میں سے ایک لہر انکی مونچھوں پہ ٹہری ہوئی تھی،،، وہ جب کبھی آموں کے مورچہ سے پلٹتے ہیں تو کافی دیر یہ کنفیوژن رہتا ہے آیا انہوں نے آم کھائے ہیں یا آموں نے انہیں کھایا ہے کیونکہ اس گھمسان کے آثار پوری طرح انکی مونچھوں اور چہرے و تھوڑی پہ ہویدا رہتے ہیں یوں کہ لیجیئے کے ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے آم نہیں کھائے بلکہ آموں کا رد الفساد کیا ہے۔

انکے کے اس مقولے کی وجہ سے اب بہت سے ایسے لوگ اپنے آپکو باذوق ثابت کرسکتے ہیں کہ جو طبعی طور پہ تمیز سے آم نہیں کھاسکتے۔

خواجہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ہر وہ جو چیز جو بیک وقت دونوں ہاتھوں سے کھائی جاتی ہے وہاں قاعدوں قرینوں کا کیا کام۔۔۔ اور آم کی بابت تو انکا فرمان یہ ہے کہ ” کوئی یا تو آم کھالے یا تمیز کرلے۔۔۔ انکے خیال میں آم تمیز سے کھائے تو جاسکتے ہیں لیکن پھر ان میں ذائقہ بھی نہیں رہتا ”۔

انکے اسی فرمان کے بعد سے تو اب کئی یاروں کو تو گویا بدتمیزی کا کھلا لائسنس سا مل گیا ہے اور اب وہ ذرا کھل کھلا کے آموں کے بھرے تھال کے ساتھ وہ کچھ کرتے ہیں کہ جو کوئی سستا سا ویلن کسی فلم میں مہنگی سی ہیروئن کے ساتھ کرتا ہے کہ جسے اسکی آبرو کے بکھیڑوں کو جلد سے جلد نپٹانے کا فریضہ سونپا گیا ہوتا ہے۔

یاروں کی جس محفل میں کہیں آم کٹنے کی اطلاع پائیں تو یہ متاثرین آم، ہری مکھی سے بھی جلد جائے وقوعہ پہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ خواجہ کا ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ عشق اور مشک کے علاوہ آم کی خوشبو بھی چھپائے نہیں چھپتی اور ان کا اسی ضمن میں مقولہء مزید یہ ہے کہ کسی کے مسلمہ احمق ہونے کے لیئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی کو پتا نہ چلنے دینے کی خوش گمانی بھی کرتا ہے اور غضب یہ کہ چھپاکے آٓم بھی کھاتا ہے۔

جبکہ اس پھل کی اسی خاص اشتہائی صفت کے تحت کتنے ہی ازدواجی جوڑے ‘پیلے ہاتھوں’ پکڑے گئے ہیں اور ساسوں کی نوج سمیٹنے کا سبب بنے ہیں۔۔۔ خواجہ کا یہ کہنا ہے کہ اگر آپکو کھانے کے بعد بھی یہ بتانا پڑے کہ آپنے آم کھایا ہے تو پھر آپ جلدی سے قے کردیں کیونکہ پھر آپنے یقینناً آم کے نام پہ کچھ اور ہی کھا لیا ہے، بھلا وہ آم ہی کیا کہ جسکی مہک کھانے اور منہ دھو کر پونچھ لینے کے بعد بھی منہ سے کچھ دیر نہ آتی رہے کوئی اور پھل نہیں صرف آم ہی ہے کے جس کے بارے میں بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کے موسم میں عام آدمی کے لیئے کرنے کے اہم کام بس دو ہی ہیں یا تو وہ آم کھائے یا آم کھانے کے انتظار میں رہے اور پھر بھی وقت بچ رہے تو پالتو محبوب کو انبوا کی ڈالیوں پہ جھلنا جھلائے۔

جہاں تک معاملہ ہے آم کے طبی محاسن کا تو یہ سائنسی طور پہ جو بھی ہوں لیکن اس کی بابت بس یہ جان لینا بھی کافی ہے کے یہی وہ فضیلت مآب پھل ہے کہ جس کے طبی فوائد کے بارے میں حکماء و فضلا عموما ء اس سے دوگنا چوگنا بتاڈالتے ہیں جتنا کے خود انہیں معلوم ہوپاتا ہے اور اسی وجہ سے انکے پاس علاج کے لیئے زیادہ تر وہی سعادت مند مریض آتے ہیں جنہوں نے حکیم صاحب کی ہدایت پہ اور انکے دست شفاء کے آسرے پہ تابڑ توڑ آم کھاکے لگاتار دستوں کی جزاء پائی ہوتی ہے اور پھر وہ جیسے تیسے گرتے پڑتے مطب پہنچتے ہیں اور پیٹ پکڑکے دائیں بائیں دیکھ کے سرسراتی آواز اور سرگوشیانہ انداز میں حکیم سے جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ دراصل اس سیزن میں آموں کی پانی پت کے گھمسان میں میں انکی ذاتی فتوحات کی داستان ہوتی ہے۔

اور اس بات سے تو ہرکس و ناکس واقف ہے کہ ایسی پیچیدہ و پیچشی طویل داستانیں سننے کے لیئے خدا نے اس خطے کے حکیموں کو خصوصی کانوں، بے پناہ صبر اور وافر فاضل وقت سے نواز رکھا ہے لیکن اسکے برعکس اکثرایلو پیتھک ڈاکٹروں کا رویہ اپنے تئیں بہت ہشیاری پہ مبنی ہوتا ہے اور وہ مریضوں کو آموں کے خواص کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتاتے بلکہ چھپاتے ہیں۔

شاید بلکہ یقینناً اس لیئے کہ اگر وہ جانتے بوجھتے بھی آم کی خاصیتیں بتادیں تو پھر سننے والے پورا سیزن گھر بیٹھے بس آم سے ہی طاقت پائینگے اور انکے طاقت کے سیرپ مریضوں کی راہ تکتے تکتے اپنی طاقت اور وہ خود کئی مریض کھو بیٹھیں گے۔ کاش یہ ڈاکٹر اس راز سے وقف ہوتے کے اکثر حکیموں کے بڑے بڑے مالیاتی مسائل آموں کے موسم میں (یا حکیموں کے نزدیک طویل دستوں کے سیزن میں) خوش اسلوبی سے حل ہوپاتے ہیں اور اس سیزن کے لدتے ہی کہیں کوئی حکیم اپنا کوٹھا پکا کراتا دیکھا جاتا ہے تو کوئی اپنی دختر نیک اختر کو سرخ جوڑے میں بابل کی دعائیں لیتی جا سنا رہا ہوتا ہے۔

محض آم کے بل پہ حاصل ہونے والی اتنی بڑی بڑی خوشیوں کو مدنظر رکھ کے آم کی طاقت سے بھلا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔

 آموں کی طاقت صرف حکماء ہی نہیں ادب پہ بھی اثر انداز ہوئی ہے بالخصوص شاعروں کے اعصاب پہ تو آم ہی آم چھایا ہوا ہے اور اسی اعصاب زدگی نے آم کو پھلوں کا بادشاہ بنایا ہے۔۔ اختر شیرانی ہوں کہ عباس تابش یا حفیظ جالندھری ہوں کہ اخترالایمان، سب کے سب پیڑوں پہ بور آنے سے لے کر کوئل کے کوکنے اور پپیہے کی چہکار تک ہر جگہ آموں کے بوجھ تلے دبے نظرآتے ہیں یادوں کے سب موسم اور ہجر کے سارے دکھ اسی پھل کے تذکرے کے ساتھ جوڑے گئے ہیں تاہم عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میں کہیں بھی کسی جگہ آموں کو محبوب سے تشبیہ کے لیئے استعمال نہیں کیا۔

حالانکہ قدرت کی عنایت خاص سے یہاں ہر حلیئے اور جسامت کی تشبیہ کے لیئے آم کی کوئی نہ کوئی قسم دستیاب ہے چھوٹی موٹی سی گول مٹول محبوبہ کو انور رٹول اور دسہری سے ملایا جاسکتا ہے، درمیانی سی جسامت والی کو سرولی سا کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں،اگرمحبوب سروقامت ہے تو سندھڑی سا بتانا عین درست ہے۔۔۔ مناسب صحت ہو تو اسے چونسہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہاں تاہم چند دیگر اقسام ایسی ہیں کہ ان کی بابت کچھ گھمبیر مسائل بلکہ ذلت آمیز رزائل بھی درپیش ہوسکتے ہیں کیونکہ بہت فربہ و لحیم شحیم محبوبہ کو بینگن پھلی سا ٹہرایا جانا رسک سے خالی نہیں اور کرلاتی و پھدکتی و اچھلتی سی چال والی نازنین کو لنگڑے آم سے تشبیہ دینے کے بعد خود کو لنگڑا ہونے سے بچا پانا ہرگز یقینی نہیں۔

 یہ بھی تحقیق سے ثابت ہے کہ آم کے علاوہ چند شعراء کے یہاں البتہ سیب کا ذکر بھی ملتا ہے جھکے جسے محبوب کے گالوں کی تشبیہ کے لیئے استعمال کیا گیا ہے لیکن یہ ان وقتوں کی بات تھی کہ جب سیبوں کو سینت کے رکھنے کے لیئے کولڈ اسٹوریج نہیں ہوا کرتے تھے۔

۔۔ ورنہ کولڈ اسٹوریج کے جو سیب فروخت کے لیئے عام طور پہ دستیاب رہتے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ایسے گالوں والی محبوبہ کے لیئے تصؤر میں جانی کے بجائے صرف نانی کا شفیق چہرہ ہی ابھرتا ہے۔

 باقی رہے دیگر پھل جیسا کہ کیلا ناشپاتی اور آڑو وغیرہ تو انکی فطری و طبعی شکل ہی ایسی ہے کہ خوف فساد محبوب سیکسی بھی درجے کے رومانس میں انکا تشبیہی استعمال دافع الفت اور بدرجہء حرام گمان کیا جاتا ہے۔

بارے بات آموں کی قدرناشناسی کی بھی ہوجائے۔۔۔ ہمارے خیالی صاحب اپنے ایام جوانی میں آم سے ویسے ہی دور رہا کرتے تھے جیسے اہل تقویٰ گمراہی و کبائر سے، لیکن پھر جیسے ہی انہیں غالب کے حوالے سے اس مشہور لطیفے سے آگہی ہوئی کہ گدھا آم نہیں کھاتا تب سے وہ سیزن میں آم کی دو چار پھانکیں چچوڑ لیا کرتے ہیں۔۔ کسی کے گدھا ہونے کی سند غالب دیتا ہو تو دانشوری کی آبرو بچانے کے لیئے بہتر راہ یہی ہے کہ بس چپ چاپ ہر سیزن میں چند گواہوں کی موجودگی میں دو چار آم کھا مر ہی لیئے جائیں۔

۔۔ لیکن اسکے باوجود کئی ادب ناشناس یا غالب بیزار لوگ اب بھی ایسے ہیں جو آم نہیں کھاتے۔۔۔ لیکن پھر بھی چار ٹانگوں پہ نہیں صرف دو ٹانگوں ہی پہ چلنے کی گستاخی کرتے ہیں۔۔۔ لیکن ہم تو ایسوں میں ہرگز نہیں بلکہ ویسوں میں ہیں کہ جیسے ہمارے ددھیالی اکبر الہ آبادی تھے یعنی ایسے کے جنکے سامنے اگر کہیں ذرا آم کا ذکر بھی ہوجائے تو آن کی آن منہ میں پانی بھر جاتا ہے اور آنکھوں کا پانی یکدم مر جاتا ہے اور اسی مشترکہ ‘ آمیانہ خصلت’ کے باعث ہم بھی اکبر کے الفاظ میں یہ کہنے پہ مجبور ہیں کہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں پختہ اگرچہ بیس تو دس خام بھیجئے معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس سیدھے الہ آباد مرے نام بھیجئے ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں تعمیل ہوگی پہلے مگر دام بھیجئے۔(سید عارف مصطفی)۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں