تحریر: سید عارف مصطفی
دنیا کی تباہی کس قدر قریب ہے یہ تو ہمیں نہیں معلوم سب کے اپنے اپنے اندازے ہیں، البتہ ہمارے محلے کے ایک بزرگ آئے روز اپنے بیانات میں اس ناہنجار دنیا کو اپنے اندازوں کے ٹھیلے پہ لاد کر تباہی کے عین کنارے تک لے آتے ہیں اور سننے والوں کے دل اس خدشے سے کانپ کانپ جاتے ہیں کہ کل صبح جب وہ اٹھیں گے تو یہ دنیا موجود نہیں ہوگی۔ لیکن وہ سب اس ہنگام میں بھی سوتے کیسے رہ جائیں گے اور سو کر کس جگہ اٹھیں گے یہ نہ تو وہ خود سوچتے ہیں نہ اس کی نشاندہی وہ بزرگ ہی کرتے ہیں۔ ۔ لیکن پھر صبح ہوتے ہی سب جمائیاں انگڑائیاں لیتے اپنے اپنے کام پر نکل جاتےہیں اور اس عدم توجہی پہ دنیا کی تباہی اگلے لیکچر تک ٹل جاتی ہے۔
ہمارے ہی ایک ملنے والے خیالی صاحب۔ یہ محترم دنیا کی تباہی کے بارے میں ایک اور زاویئے سے نہایت پرامید رہتے ہیں اور وہ زاویہ ہے ماحولیات کی بربادی اور آلودگی کا۔ زیادہ پڑھ جانے سے خبط کی جتنی علامتیں ہوسکتی ہیں وہ ان میں ظاہر ہوچکی ہیں اور اب وہ اس ذخیرے کو دنیا بھر میں تقسیم کرنے پہ تلے رہتے ہیں۔ دنیا کو تباہی تک لے جانے کے لئے انہوں نے اپنے طور پہ ساری ذمہ داری آلودگی کو سونپ رکھی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے اسی پہ اظہار خیال بلکہ اظہار تشویش کرتے رہتے ہیں اور اس کی مختلف مکروہ قِسمیں گنواتے رتے ہیں اور باجماعت کڑھنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ کبھی فضائی آلودگی پہ فکرمند دکھتے ہیں تو کبھی حرارتی آلودگی پہ۔ اس سوزش سے ذرا دیر کو توجہ بٹے تو آوازوں یا شور کی آلودگی پہ چیں بہ جبیں ہونے لگتے ہیں۔ ہر مجبور سامع کے سامنے اوزون لیئر کے پھٹنے پہ طیش سے یوں پھٹے جاتے ہیں کہ گویا سب قصور اسی کا ہو اور اسی خبیث کے جیب میں وہ بڑا سا سُوا ہے کہ جس سے وہ اوزون کے ابرے میں جا بجا سوراخ کرتا پھرتا ہے۔
ہمیں اس تمام قضیئے سے کوئی رغبت نہیں کیونکہ کائنات کے اس نظام میں ہمارا کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ ہمارا یقین ہے حضرت انسان کی مہربانیوں سے اب ماحولیات کے معاملات لاحولیات تک پہنچ چکے ہیں اور ہماری فکر مندی سے اب کچھ نہیں ہونے والا، پھر اکیلے بھلا ہم ہی کیوں پکڑائی دیں۔ خواجہ صاحب بھی اسے تہمت سمجھتے اور سخت برا مانتے ہیں اور کہتےہیں کہ ماحول کو خراب کرنے والی گرم گیسوں کے اخراج کی ذمہ داری صنعتوں پہ ہے اور اس سلسلے میں وہ بری الذمہ ہیں اور ان سے اس سلسلے میں ہرگز کوئی بات نہ کی جائے۔ شور کی آلودگی کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ خواتین کو گونگا کرنے کی کوئی سازش معلوم ہوتی ہے اگر کوئی ساس روز چنگھاڑ کر بہو کے لتے نہ لے اور بہو چیخ چیخ کر جواب آں غزل پیش نہ کرے تو انہیں سائنس کے نام پہ خاموشی پہ مجبور کرنا عالم نسوانیت کا سراسر عظیم استحصال ہے۔
ادھر مجھ غریب کے ماحولیاتی نظریئے کی جانب کسی کی توجہ نہیں کہ جس کے نزدیک آلودگی کی سب سے مکروہ قسم ہے غذائی آلودگی اور یہ عموماً آلوؤں کے بل پہ پھیلتی ہے خصوصاً اس وقت کہ جب آلو پندرہ بیس روپے کلو میں دستیاب ہونے لگیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آلو ادھر ذرا سستے ہوئے نہیں کہ پھر تو ہر کھانے کا جوڑ آلو سے ملایا جاتا ہے اور ہر ڈش میں آلوؤں کا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ آلو وہاں وہاں پہنچ جاتا ہے کہ جہاں شوہروں کا طائر خیال کبھی پہنچ ہی نہیں پاتا۔ بیگمات کا بس نہیں چلتا کہ آلو کے پراٹھے کے ساتھ کھانے کے لئے بھی آلو کی چٹنی ہی پیش کریں۔ نوبت یہ ہے کہ ایک ہفتے میں کئ دن تک آلو گوشت پکایا جاتا ہے اور اگلے ہفتے بس یہ تبدیلی کی جاتی ہے کہ پھراسے گوشت آلو کا نام دے دیا جاتا ہے۔ کبھی آلو میتھی کی اوٹ میں دِکھتا ہے تو کبھی چاول کی پوٹ میں۔ ایسے میں مجھ جیسے مسکین شوہروں کا پیٹ پیٹ نہیں رہ جاتا سستے آلوؤں کا عظیم الشان گودام سا بن جاتا ہے اور صلح و آشتی کی مردانہ و مدبرانہ خواہش کے سائے میں بیگمات کی غذائی دہشت گردی خوب خوب پروان چڑھتی جاتی ہے اوراسی سبب آلو کی ارزانی میری پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔
سچائی سے عرض کرتا ہوں کہ آلوکی قیمت کم ہونے کی خبریں پاتے ہی میرا دل اور معدہ بیک وقت ہولنے لگتے ہیں اور شعور و فکر میں الو سے بولنے لگتے ہیں۔ میرے خیال میں تو آلودگی کی سب سے وحشت ناک قسم وہی ہے جو کہ آلو سے پھیلتی ہےلیکن ہمارے ماہرین ماحولیات کو اس کی مطلق خبر نہیں اور وہ اس ضمن میں دن رات تحقیق پہ عوام کا پیسہ پانی کی طرح سے بہائے جاتے ہیں۔ اور ادھر ہم ہیں کہ رات دن آلو کھا کھا کے بھالو بنے جاتے ہیں اور ہر وقت یہاں وہاں لڑھکے رہنے پہ مائل ہوئے جاتے ہیں۔ ہے کوئی جو اس خرابی کا مداوا کرے۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔(سید عارف مصطفی)۔۔