تحریر: زاہدہ حنا۔۔
ملکوں کی تاریخ میں اس بات کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے کہ حکومتیں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی کس حد تک صلاحیت رکھتی ہیں۔میڈیا کی آزادی عموماً حکومتوں اور طاقتور طبقات کو قطعاً گوارا نہیں ہوتی، اس آزادی کا فائدہ اٹھا کر حکومت مخالف عناصر اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں، حکومتوں کی ناکامیوں کو منظر عام پر لاتی ہیں اور انھیں شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ اخبارات،رسائل، جرائد اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے متبادل بیانیے سامنے آتے ہیں جو سرکاری بیانیے کے خلاف ہوتے ہیں۔ میڈیا کو پابند رکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اور بعض حالات میں ریاستی بیانیے کا کوئی زیادہ قابل عمل متبادل بیانیہ لوگوں کے سامنے نہ آسکے۔
میڈیا کی آزادی جہاں حکومتوں اور اس سے وابستہ مراعات یافتہ عناصر کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے وہیں دوسری طرف یہ آزادی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ میڈیا کی آزادی دراصل اظہار رائے کی آزادی سے مشروط ہے۔ اظہار رائے کے حق کا بنیادی تعلق اختلاف رائے اور انحراف کی آزادی سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں عناصر تحقیق اور ترقی کے عمل کو نہ صرف تیز تر کرتے ہیں بلکہ سماج میں جدت طرازی اورشعور و آگہی کو فروغ دیتے ہیں جس سے ایک متوازن اورصحت مند سماج وجود میں آتا ہے ، ہرقسم کی انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اسے عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوتی۔ میڈیااور اظہار رائے کی آزادی صرف ان ملکوں میں برداشت کی جاتی ہے جہاں جمہوری نظام مضبوط و مستحکم ہوتا ہے۔ یہ بات زیادہ لوگوں کے علم میں شاید نہیں ہوگی کہ انسانی تاریخ میں آج تک کسی جمہوری ملک میں قحط نہیں پڑا۔ اس کے برعکس، قحط کے بدترین واقعات ان ملکوں میں رونما ہوئے جہاں بادشاہتیں، فوجی، شخصی یا یک جماعتی آمریتیں مسلط تھیں۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ میڈیا کی آزادی اور جمہوریت کی موجودگی سے قحط جیسے حالات کے پیدا ہوتے ہی اخبارات میں اس کی باز گشت سنائی دینے لگتی ہے، حزب اختلاف کی جماعتیں اس مسئلے کو بنیاد بناکر حکومتوں کے خلاف صف آرا ہوجاتی ہیں جب کہ لوگوں کی مدد کے لیے امدادی تنظیمیں فوراً فعال ہوجاتی ہیں۔ یہ صورت حال حکومتوں کو فوری اقدامات پر مجبور کردیتی ہے۔ حکومت میں شامل جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ انھیں آنے والے انتخابات میں ووٹ لینے کے لیے عوام کے پاس جانا ہوگا اور اگر قحط سالی کے دوران انھوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا توان کا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہوجائے گا۔
مذکورہ بالا حقائق اپنی جگہ لیکن بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں جمہوری حکومتیں بھی ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے نام پر خبروں پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ایک طرح کی سنسر شپ نافذ کردی جاتی ہے۔ ان دنوں دنیا کورونا کی زد پر ہے۔لہٰذا میں نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ حکومتیں خطرناک وباؤں کی صورت میں اس حوالے سے کس رد عمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کو آزادانہ رپورٹنگ کے مواقع فراہم کرتی ہیں یا ان پر سنسر شپ نافذ کردی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جب 20 ویں صدی کی سب سے ہلاکت خیز وبا اسپینش فلو کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس فلو کا وائرس امریکا میں پیدا ہوا تھا لیکن اسے اسپینش فلوکا نام دے دیا گیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس وائرس اور وبا کا آغاز اسپین سے ہوا تھا ۔ جب کہ صورتحال اور حقائق کچھ اور تھے۔ یاد رہے کہ اسپینش فلو کی عالمی وبا 1918 اور 1919 کے درمیان اپنے عروج پر تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پہلی عالمی جنگ جاری تھی اور اس جنگ میں شامل ملکوںنے اخبارات، رسائل اور ریڈیوکو مجبور کیا کہ وہ اس وبا کی درست رپورٹنگ نہ کریں کیونکہ جنگ میں شامل ہر ملک کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر دشمن ملک کو یہ معلوم ہوگیا کہ اس کے مخالف ملک کے فوجی مہلک وبا سے بیمار اور ہلاک ہورہے ہیں تو کہیں وہ اس پر حملہ نہ کردے۔اس وبا کی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا کے شہر کینساس میں مارچ 1918 میں اس فلو کا آغاز ہوا تھا اور سب سے پہلے مریض کی اطلاع بھی یہیں سے ملی تھی۔ یہ وبا کس قدر بھیانک تھی اس کا اندازہ یوں لگا لیجیے کہ اس کے نتیجے میں اس وقت کی دنیاکی ایک تہائی آبادی صفحہ ہستی سے فناہو گئی تھی۔ یورپ کا ملک، اسپین پہلی جنگ عظیم میں شریک نہیں تھا اور اس نے اس جنگ میں خود کو غیر جانبدار رکھا تھا۔ اسے محض اتفاق کہیں کہ اسپین کا بادشاہ الفونسو اس وائرس کا شکار ہوگیا چونکہ اسپین کا میڈیا آزاد تھا لہٰذا اس خبر کی زبردست تشہیر ہوئی اور لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا کہ اس وبا کی ابتدا اسپین سے ہوئی ہے، اسی مناسبت سے اس وبا کا نام اسپینش فلو پڑگیا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران خبروں کو روکنے کے لیے یورپ میں پریس سنسر شپ کافی پہلے سے لگادی گئی تھی کیونکہ یورپ 1914 سے پہلی عالمی جنگ میں شامل تھا لہٰذا 1918 میں جب اسپینش فلو کی وبا آئی تو یورپی ملکوں نے اس کی خبروں کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کردی۔ امریکا 1917 میں عالمی جنگ کا حصہ بنا تھا لہٰذا اس نے 1918 میں بغاوت ایکٹ منظور کرایا جس کے تحت ہر وہ بات جرم قرار پائی جو حکومت کی نظر میں ملکی مفاد یا جنگی کوششوں کے منافی تصور کی جاسکتی تھی۔
اخبارات نے اس وبا کی خبروں کی اشاعت بھی اس خوف کی وجہ سے روک دی کہ حکومت کہیں اسے بھی بغاوت اور غداری کے زمرے میں نہ ڈال دے۔ برطانیہ کی جانب سے بھی خبروں کو روکنے کے لیے ایک قانون بنایا گیا جس کے تحت حکومت کو ایسی خبر کی اشاعت کے خلاف کارروائی کا اختیار مل گیا جسے وہ ’’قومی مفاد‘‘ کے خلاف تصور کرتی ہو۔ اس قانون کے ڈر سے اخبارات نے اس وبا کی خبروںکو مناسب کوریج نہیں دی۔ اٹلی کی صورت حال تو یہ تھی کہ وہاں کے وزیر دفاع نے یہ اعلان تک کردیا تھا کہ ان کے ملک میں یہ وبا سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔
جرمنی کے فوجی اسپینش فلو سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ اس کے ایک فوجی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر دشمن کو یہ علم ہوگا کہ ہمارے فوجی فلو سے مررہے ہیں تو وہ ہم پر حملہ آور ہوجائے گا۔ لہٰذا یہاں بھی خبروں کو دبا دیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں شامل ملکوں کو اس وبا نے معاشی طور پر اتنا تباہ کردیا تھا کہ جنگ کو جلد ختم کرناان کی ترجیح بن گئی تھی۔اسپینش فلو کے 100 سال بعد دنیا، کورونا کے رحم و کرم پر ہے اور امریکا میں سب سے زیادہ لوگ ہلاک ہورہے ہیں۔ صرف نومبر 1918 میں فلو وائرس سے 195000 امریکی ہلاک ہوئے تھے لیکن اس وقت کے صدر وڈروولسن اس وبا کو بالکل اہمیت نہیں دے رہے تھے اور اخبارات بھی اس سے متعلق خبروںکونظر انداز کررہے تھے۔ کورونا وبا کے دوران صدر ٹرمپ نے بھی اسے نظر انداز کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ ایسٹر سے پہلے لاک ڈاؤن ختم کردیا جائے تاکہ لوگ چرچ جاسکیں۔ حکومت کی غیرسنجیدگی سے میڈیا میں بھی اس وبا کو ابتدائی دنوں میں مناسب کوریج نہیں دی گئی۔اٹلی، اسپین، برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے بھی شروع میں اس وبا کی سنگینی کو کم کرکے دیکھا جس کا اثر میڈیا پر بھی پڑا۔ روس، ترکی، ایران، سعودی عرب، چین اور شمالی کوریا میں بھی میڈیا کی صورت حال سامنے ہے۔
میڈیا کی آزادی، کورونا جیسی عالمی وباؤں کو روکنے کے لیے حکومتوں کے سامنے اصل حقائق لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے حالات پر قابو پانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی سے ڈرنے والی حکومتیں ہمیشہ خسارے میں رہتی ہیں لیکن نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ نقصان کا سودا کرتی ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔