تحریر: شکیل احمد بازغ۔۔
دنیا بھر میں ہم کٹ رہے ہیں، ہم مر رہے ہیں۔ ہم مٹائے جا رہے ہیں۔ اور ہمیں اس کی پرواہ بھی نہیں، ہم نہ تو قوم رہے ، اور نہ مسلمان۔ کیونکہ نہ مسلمان ظلم برداشت کرتا ہے۔ نہ ظالم کو چھوٹ دیتا ہے۔ اور نہ مسلمان غافل ہوکر جیتا ہے۔
فلسطین پر صیہونی بربریت اور اس پر اقوام عالم خصوصا” عالم اسلام کے حکمرانوں اور عرب کی خاموشی بتاتی ہے کہ روئے زمین پر عہد جبر کا غلبہ ہے، مسلمانوں کی نسل کُشی پر دنیا بھر کے انسانوں کی خاموشی یہ بتاتی ہے کہ نہایت سرعت سے صیہونی اس خاموشی کا دہائیوں سے انتظام کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے ممبران ممالک (کم و بیش تمام ممالک ) کے حکمرانوں کو معاشی پیچیدگیوں، کاروباری داؤ پیچ، سیاسی اقتدار کی لالچ، کرپشن کی چھوٹ کے بعد احتساب کا خوف، لذت پرستی، مفادات کا حرص، ترقی کا بھونڈا نعرہ جیسے مکر و فریب میں مبتلا کر کے نہ صرف مذمتوں تک محدود رکھا بلکہ ان سے فلسطین کے دو ریاستی حل اور اس کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرانے کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔ عوام کو بھی چکرا دیا گیا، افواج اسلامی ممالک کو صیہونی عالمی ایجنڈوں کے نفاذ کیلئے مالی معاونت کے عوض استعمال کرنا، نیز انہیں مسلمانوں ( دہشتگردوں) کے خلاف استعمال کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اب مسلمان مسلمان کو مار کر ایک جہنم واصل اور دوسرا شہید کہلوادیا جاتا ہے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ مسلمان جس کے تکیئے کے نیچے تلوار ہمہ وقت رکھی ہوتی تھی۔ وہ بات کرتا تھا تو شریعت اس کے پیش نظر ہوتی تھی۔ یہودو نصارٰی کی بدمعاشی سے جسے دشمنی تھی۔ فقر و غنا جس کی شخصیت جہاد جس کا شعار اور اطاعت و حُبِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس کا ایمان تھا۔ اسے آج لذتِ جسمانی، مادیت پرستی، کریئر کے نام پر حرام و حلال کی تمیز سے ماورا دنیاوی علوم کا چسکا، انٹرٹینمنٹ کے نام پر غفلت کے ساز و سامان (کرکٹ، فلم بینی)، حیاباختگی، دھونس دھاندلی، موسیقی اور بے مقصدیت کا سبق پڑھایا گیا۔ مدارس کو دہشتگروں کی خانقاہ اور علوم اسلامی کو دہشتگردانہ تربیت، علماء کو دہشتگرد اور فرسودہ رسومات کے دلدادہ و نام نہاد ترقی کے دشمن بار بار بتایا گیا۔ مسلمان بچوں کے رجحانات بدلنے کیلئے جدید تعلیمی نظام، بائیو وار، غفلت پرستی جیسے مکروہ و حرام طریقوں کو دل آویز انداز میں فراہم کیا گیا۔ اسلام کو تباہ کرنے کیلئے مذہب پرستوں کو دہشتگرد ثابت کرکے ان کی نسل کُشی کیلئے خود کرائے گئے دھماکوں سے عوام کے چیتھڑے اڑائے گئے۔ اور اس کے پیچھے کسی داڑھی والے کا کھُرا نمایاں کیا گیا۔ ( یہ داڑھی والے کفار افواج کے سپاہی تھے، جن سے مسلمان عوام کو شہید کرایا گیا۔ پھر ان دھماکوں کو جواز بنا کر غیرت مند مسلمانوں پر چڑھائی کی جاتی رہی) مسلمانوں کو میڈیا کی یلغار سے عریاں کر دیا گیا۔ ماڈرنسٹ علماء( جو یہودی مدارس میں اسلام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کیلئے تربیت دیئے گئے) کے ذریعے ایمان والوں پر عام عوام کو تنقید در تنقید کا جواز تراش کر دیا گیا۔ آج مذہبی رجحان والوں کو لوگ وہ کہہ کر نفرت کرتے ہیں۔ جو یہود و نصارٰی چاہتا تھا۔ اور یہ جہالت تعلیم کے نام پر نسلوں کے ذہنوں میں اتاری گئی۔
پھر یوں ہوا کہ دنیا بھر کے کفار و مشرکین اپنی بساط میں (پس پردہ باہم مشترک ہوکر) ایک ایک کرکے مسلمان ملکوں کے غیرتمند حکمرانوں کو انکے ہی عوام کے ذریعے تباہ کرتے قتل کرتے روندتے اور غلام بناتے آگے بڑھتے گئے۔ شام میں بشار الاسد جیسے منافقوں کے ذریعے چالیس لاکھ مسلمانوں کو شہید کرایا گیا۔ اور نظریاتی مذہبی پاکستان کو بزدل بے غیرت اور غلامانہ ذہن کے حکمران دے کر بغیر جنگ کے فتح کر لیا گیا۔ آج ان بد قماش ابن الوقت حکمرانوں کی دین فروش مزاج کی وجہ سے قوم رسول ہاشمی صیہونی ٹکڑوں پر پلنے کے عادی ہو چکے۔ سود کو ہم نے اپنا لیا۔ اور اللہ سے جنگ پر آمادہ ہو چکے۔ آج بیت المقدس کی حفاظت پر مامور مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اور امت مسلمہ کرکٹ سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ کھانے پینے میں مصروف ہے۔ مال پانی بنانے ہتھیانے پر کاربند ہے۔ غفلت میں ڈوبی اس قوم پر اللہ کا عذاب آ چکا کہ ایمان ان کے دلوں سے خروج پا چکا۔ کفار انکے ذہن جسم، لباس، تہذیب اولادوں اور آئندہ نسلوں پر غلبہ پا کر اپنا غلام بنا چکے۔ بچ جانے والے نام نہاد مسلمان بس اب کفار کے کسی آتشگیر مادے سے جل کر مرنے کے منتظر ہیں۔ پھر بھی نہ آنکھ کھُل پا رہی ہے، نہ کچھ سوچ شعور سجھائی دے رہا ہے۔ اور نہ سامنے کھڑا حق دکھائی دے رہا ہے۔ عہد جبر ہے۔ جس کے بعد احادیث کے مطابق عہدِ خلافت علٰی منہاج النبوۃ ہے۔ عصرِ حاضر پہ تلوار کے ذریعے اللہ کے نرے خالص بندے غلبہ پائیں گے۔ ظالم نظام کا تخت الٹیں گے۔ مظلوم مگر اللہ کے فرماں بردار بندوں کو ظالم سے نجات دلائیں گے۔ اور اسلام کا پرچم بلند کریں گے۔ تب تک یہی عالمی تہذیب کی گندگی مسلمانوں کو جہنم کا سزاوار بناتی رہے گی۔ آج کی تازہ خبر جسے پاکستانی میڈیا پروموٹ کر رہا ہے کہ، پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو پاکستانی کھانے بھاگئے، انہوں نے کراچی میں ڈیرے ڈال لئے۔ ڈونلڈ بلوم کراچی والوں کیساتھ گھُل مل گئے۔
یہ کفار تب بھی برصغیر کے لوگوں کے ساتھ گھُل مل گئے تھے۔ جب برطانوی کمپنی مصالحے بیچنے برصغیر آئی تھی۔ اور بدلے میں مغلوں کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹ کر ان حکمرانوں کو بے غیرتی کا لیبل لگا کر گئی تھی۔
اللہ ہمیں سچوں کیساتھ کر دے۔ اللہ امت مسلمہ کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
شکیل احمد بازغ