nakafi hein lafazian

“عالمی نظریہ9 مئی”

تحریر: شکیل احمد بازغ

صحیح یا غلط ، آپ کا نظریہ ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کسی نظریئے کے بغیر ہیں تو عصرِ حاضر میں آپ کہیں کے نہیں۔ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ کسی نظریئے کا حامل ہونا اس لئے ضروری ہے کہ آپ سوچ بچار کرنے والی مخلوق میں سے ہونا ثابت کر سکیں۔ وہ لوگ مجھے سخت نا پسند ہیں جو حق و باطل، سچ جھوٹ، ٖظالم مظلوم کی تفریق کے بغیر ہی زندگی بسر کر کے اپنے وقت پر گمنام مر جائیں۔ زندگی کا مقصد اور نظریہ زندگی گزارنے کیلئے نہایت اہم ہے۔ جو زندگی کے آغاز سے ہی صحیح سمت اور صحیح سوچ دے کر پروان چڑھائے گئے۔ یقینا” زمانوں کے فاسد اور مادی نظریات کی گرد انکے اذہان کو پراگندہ نہیں کرتی۔ اور جنہیں زندگی کے اوائل میں سوچ سمجھ سوجھ بوجھ کیلئے متفرق نظریات یا پھر باطل نظریات دیکھنے سمجھنے اور سیکھنے کو ملے ہوں۔ وہ زندگی بھر ٹامک ٹوئیوں میں گزار کر وقت ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ اور آخری ایام میں لوگوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں۔ خدارا کوئی میری زندگی کے دن لوٹا دے کہ میں اسے عقل کے گھوڑے سے اتر کر  اطاعت میں گزارکر عاقبت سنواروں۔

وہ جنہیں منفی سوچ دے کر پروان چڑھایا گیا ہو، ایسے فرد گروہ یا جماعت ملک و قوم کے نام پر دھبہ بن کر ابھرتے ہیں۔ اور ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

نومئی کا ماسٹر مائنڈ عالمی طرز کی نیکسٹ لیول کی سیاست کر رہا تھا۔ جو کہ پاکستانی معاشرے میں اس طرح رائج نہیں تھی بلکہ نہایت سست رفتاری سے پنپ رہی تھی۔ میں آگے چل کر عالمی طرز سیاست اور پالیسیز کی ہلکی سی جھلک دکھاؤں گا۔ پہلے یہ بات کریں کہ اس ماسٹر مائنڈ نے نوجوانوں کو اپنے کھلاڑی ہونے کا ثبوت دکھا کر ساتھ ملایا پھر بڑی عاجزی اور تمکنت سے پہلے روایتی کواڑوں پہ دستک دی۔ مخاطب کو سائل کے سے عاجزانہ انداز میں سر پر دست شفقت رکھنے پر قائل کیا اور پھر گھر میں کرسی پر بیٹھ کر نوجوانوں کو آئندہ کیلئے ہم جولی بنانے پر با آوازِ بلند توجہ مذکور کی۔ نہ صرف ملکی سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کا سخت گیر ناقد بن کر انہیں تاک تاک کر رگیدا بلکہ بیرونی آقاؤں اور سامراجی اسٹیبلشمنٹ کے اصل مرکز کو بھی ساتھ ملانے پر خوب توجہ دی۔ انہیں بتایا کہ ان کے مفادات کا ملک میں تحفظ اور نفاذ کیلئے جس دیدہ دلیری اور نوجوانوں کی حمایت کی ضرورت ہے ایسی ہر چال اور طاقت میری زنبیل میں موجود ہے۔ زیر عتاب آنے کے بعد امریکی کانگریس کے سات اراکین کو خط لکھنا عالمی مبصرین نامہ نگاروں اور با اثر لوگوں کو اپنی مظلومیت کے قصے سنانا اور مقامی اسٹیبلشمنٹ پہ دباؤ ڈالنے کا پہلے سے انتظام موصوف نے کر رکھا تھا۔

عالمی طرز سیاست گلوبل ولیج کانسیپٹ ہے۔ جس میں دنیا کے تمام لوگ بلا امتیازِ رنگ و نسل، مذہب، حق و باطل، جغرافیہ اور دیگر تفرقات کے ایک نظام، ایک آئین اور ایک مرکز کی غلامی کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی عدالت، عالمی دن، عالمی معیارات، مذہبی ہم آہنگی، عالمی نظریات، مشترکہ افواج، مشترکہ مشقیں، عالمی مالیاتی ادارے، مشترکہ دولت، جیسے ادارے اور نظریات کو فروغ ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہر سیاست دان عالمی رجحانات کی جانب اپنے اپنے عوام کو ہانک رہا ہے۔ پاکستان میں تو اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ عوام کے یوٹیلیٹی بلز میں بڑھوتری بھی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے حکم پر ہوتے ہیں۔ یہی کہہ کر عوام کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ کہ عالمی اداروں کا حکم ہے۔ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں جی سکتے۔ نو مئی کے ماسٹر مائند کے 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہی، اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات نے طلباء سے خطاب میں اپنی حکومت کے پوشیدہ منصوبوں کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ ہمیں اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے تحت ملک کو انٹرنیشنل کوارڈینیشن میں لبرل سٹیٹ بنانا ہے۔

عالمی نظریات و پالیسیز کے نفاذ کی اضافی شرح پر کاربند نو مئی کے دہشتگرد ماسٹر مائنڈ نے برائے بُک کیپنگ مقامی عقائد کی آٹے میں نمک کے مساوی ترویج کا کام بھی جاری رکھا۔ تاکہ مستقبل میں شرافت اور عوامی نظریات کی ترویج پر نیت کی صداقت ایک سند رہے۔ مسلسل ففتھ جنریشن وار کا ہم تذکرہ سنتے رہے۔ بحیثیت مجموعی اس کی ترویج پر عالمی سطح پر کام ہوا۔ جس کی معاونت دنیا بھر کی مقامی حکومتیں کرتی رہیں۔ ففتھ جنریشن وار کے دریا کو کوزے میں بند کریں تو وہ یہ ہے کہ عوام کسی مقامی فرد واحد، جماعت یا ادارے کو عنانیت کی طاقت حاصل نہ کرنے دے۔ یہی دنیا بھر کیلئے ان کا قانون ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کے قدامت پسند نظریات پر بائیں بازو کی اقلیتوں کو حاوی کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ جبکہ بھارت میں بائیں بازو کی جماعت کو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ پر لگا رکھا ہے۔ تاکہ حقیقی طاقتور طبقہ کہیں نظام پہ حاوی نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نو مئی کے ماسٹر مائنڈ نے پاکستان میں موجود سب سے طاقتور مذہبی طبقے کو گولیوں سے بھوننے جیسے جُرائم کرکے عالمی استعماری قوتوں سے نقد شاباشی بھی وصول کی۔ نیکسٹ لیول کی عالمی طرز سیاست میں اگلا اقدام اپنی ہی فوج پر بالادستی ثابت کرنا تھی۔ جس کے لئے مسلسل حامی نوجوانوں کو موصوف نے بغاوت جیسے اقدامات پر زبانی کلامی جلسوں جلوسوں نجی بحث و مباحثوں پر ابھارا۔ پھر لاوا پکاتے پکاتے نو مئی کو جا پھوڑا، جس کا ہدف شہداء تھے، محافظِ پاکستان تھے۔ اور پاکستان تھا۔ تاکہ یوں ناقابل تسخیر ہوجانے کا پیغام مغربی قوتوں کو جائے اور پاکستان میں شہری مطلق العنان بادشاہ سلامت عالمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے کرسی پر براجمان ہوکر تاحیات اقتدار کے مزے لوٹیں۔ اس کے لئے ملک اس کے نظریات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنا تھا۔

لیکن خدا کا شکر ہے کہ نظریہءِ نو مئی کے مس ایڈوینچر کا ڈراپ سین ہوا۔ اور فتنہ پرور ٹولہ اور اسکے تمام نظریات قوم پر واضح ہو گئے۔ اور ملک اپنی شناخت سے محروم ہو کر عالمی استعماری قوتوں کے مضبوط پنجوں اور غلامی میں جانے سے بچ گیا۔ وگرنہ آج اسرائیل  پاکستان کا حمایت یافتہ ہو چکا ہوگا۔ اور پاکستان میں اسرائیل کے سرکاری دفاتر کی برانچز کھُل چکی ہوتیں۔ اسلامی نظریات پر قدغن لگ چکی ہوتی۔ ملک عالمی استعمار کو ٹھیکے پر دیا جا چکا ہوتا۔ اور نظریہ پاکستان پر نظریہءِ نو مئی غالب آ چکا ہوتا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو پاکستان کبھی نیتن یاہو اور اسرائیل کو دہشتگرد نہ کہتا۔

آپ صحیح یا غلط نظریہ ضرور رکھیں، لیکن اتنا غلط بھی نہیں کہ ملکی سالمیت، اسلامی تشخص اور پاکستان کا وجود ہی ختم کرنے کے درپئے رکھنے والے نظریات کے حامی ہو کر رہ جائیں۔۔بڑے لوگوں سے ملنے میں ذرا سا فاصلہ رکھنا،جہاں دریا سمندر سے ملا، دریا نہیں رہتا۔واللہ اعلم(شکیل احمد بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں