تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
عالم ارواح کا موسم آج کچھ خشک سا ہے ۔۔میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ہوں جو میری طرح کے ہی حالات کا شکار ہوکر یہاں آگئے ہیں ۔۔خیر اپنی ذات کی حد تک تو کچھ اطمینان ہے کہ چلو روز روز کی ذہنی اذیت سے تو نجات مل گئی ہے ۔۔تنخواہ کب آئے گی ؟؟؟ آج گھر کے راشن کا کیا ہوگا ۔۔کہیں نوکری سے نکال نہ دیا جائے ؟؟؟؟ وہاں روز جینا اور روز ہی مرنا پڑتا تھا ۔۔یہاں ایسی کوئی بندش نہیں۔۔لیکن زمین کی جانب سے دیکھتا ہوں تو دل بیٹھ سا جاتا ہے ۔۔میں تو اپنے بچوں کو یتیم چھوڑ کر آگیا یہاں ۔۔ان کا آخر ہوگا کیا ؟؟؟؟اللہ بھلا کرے کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن والوں کا کہ ہمت دکھا کر میرے واجبات دلانے میں کامیاب ہوگئے ۔۔وگرنہ یہ چینل مالکان اور نام نہاد رہنما تو میرے کفن تک کے پیسے نہیں دیتے ۔۔
میں سمجھا تھا کہ میری موت سے شاید کچھ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ صدق دل کے ساتھ میری برادری کے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کا عزم کرینگے۔۔۔مگر یہ سیاست بڑی بے رحم ہے ۔۔اس میں سب کچھ کچل دیا جاتا ہے ۔۔کانوں کو بھلا لگتا ہے تو بس یہ کہ ”آوے گا بھئی آوے گا کوئی نہ کوئی تو آوے گا ”۔۔یہاں عالم ارواح میں تنگ دستی ،غربت اور بھوک سے تنگ آئے ہوئے صحافیوں کے لیے ایک مخصوص گوشہ مختص کردیا گیا ہے ۔اسے عالم ارواح کاکافی ہاوس سمجھ لیں ۔۔مگربے موسمی موت کا شکار ہونے والے ہم خیال دوستوں کی نظریں ہمیشہ نیچے کی جانب لگی رہتی ہیں کہ دیکھیں آج ہمارا کون سا ساتھی ہے جو مالکان اور صحافی رہنماؤں کے گٹھ جوڑ کا نشانہ بن کر ہمارے پاس آتا ہے ۔۔۔۔
مجھے اپنے چینل کے لوگ سب سے زیادہ اداس نظرآتے ہیں ۔۔میری موت کے بعد ان سے کچھ وعدے کیے گئے تھے ۔۔کاوشیں ساری کی ساری کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کی تھیں لیکن اسے کیش کرانے بہت سے جغادری رہنما بھی آن پہنچے تھے ۔۔جودستخط کرنے والوں میں بھی شامل تھے ۔۔۔آس دلائی گئی تھی کہ اب ملازمین کو تنخواہ کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا لیکن دوست بتارہے ہیں کہ حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں ۔ہاں تمہارے مرنے کی وجہ سے ہمیں ایک مہینے کی تنخواہ ضرور مل گئی تھی ۔۔یہ سن کر مجھے ایک صحافی کی اوقات کا ٹھیک طرح سے اندازہ ہوا ہے ۔۔۔ہم اگر مر بھی جائیں تو ہماری اوقات صرف ایک تنخواہ کے برابر ہے ۔۔۔
میں ایک گوشے میں بیٹھ کر کچھ سوچ رہا ہوں ۔۔۔مجھے سوچ میں غرق دیکھ کر ایک دوست نے کہا کہ کیا ہوا عرفان بھائی !کیا سوچ رہے ہیں ؟؟؟میں نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ ہمیں کس جرم کی سزا ملی ہے ؟؟؟اس نے نفی میں سر ہلایا تو میں بھی خاموش ہوگیا ۔۔۔اور مجھے ساغر صدیقی یاد آگئے ۔۔لاہور کی سڑکوں پر آوارہ گھومنے والا ساغر بھی گنگناتا پھرتا تھا کہ ” جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
مجھے اچانک ایک آواز نے چونکا دیا ۔۔۔ایک اور صحافی عالم ارواح کی جانب آرہا تھا ۔۔ہم سب نے مل کر اس کا استقبال کیا ۔۔حال احوال پوچھا گیا ۔۔کہانی نئی نہیں تھی ۔۔وہ بھی ان ہی حالات کا شکار ہو کر یہاں تک پہنچا تھا ،جس سے میں اور میرے دوست گزر کر یہاں تک آئے تھے ۔۔میرے گھر والوں کو تو میری موت کے بعد کچھ نہ کچھ مل ہی گیا تھا ۔۔باقی دوستوں کے اہل خانہ کا حال بے حال ہے ۔۔نہ کوئی سننے والا ہے اور نہ کوئی دکھوں کا درماں بننے والا ہے ۔۔الیکشن الیکشن کھیلا جارہا ہے ۔۔رہنمائی کا زعم ہے ۔۔نمائشی اقدامات بھی ختم ہوگئے ۔۔نئے آنے والے جو حالات بتائے ہیں ان کو دیکھ ہم سب نے مل کر ایک فیصلہ کیا ہے ۔۔۔ہمیں عالم ارواح کا ”کافی ہاوس’ بہت چھوٹا لگنے لگا ہے ۔۔جس تیزی کے ساتھ ہمارے ساتھی ہماری طرف آرہے ہیں ۔۔اس کو دیکھتے ہوئے ہم نے نئی جگہ کے لیے تلاش شروع کر دی ہے ۔۔زمین والے نام نہاد رہنما کچھ کریں نہ کریں اور ہمارے ساتھیوں کو ہمارے پاس بھیجتے رہیں ۔۔ہم یہاں ان کے استقبال کے لیے تیار ہیں ۔۔اور ہاں نام نہاد رہنماؤں سے صرف یہ کہنا ہے کہ آپ بے شک موت کے سوداگر بنے رہیں ۔۔لیکن آنا یہیں پر ہے ۔۔۔اور اس وقت سے ڈریں جب یہاں موجودآپ کے ساتھی آپ کا گریبان پکڑ کر حساب مانگیں گے۔۔میرا یقین کریں ۔۔۔آپ کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی ۔۔۔(عمیر علی انجم)۔۔
(عمیر علی انجم کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔