تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،رمضان المبارک کی آمد سے قبل یہ آخری سنڈے ہے، اس کے بعد شیطان اگلا سنڈے نہیں دیکھ پائے گا اور پورے ایک ماہ قید رہے گا، لیکن الحمد للہ، وہ ہمیں گیارہ ماہ کے دوران اتنا کچھ سکھا جاتا ہے کہ رمضان میں بھی ہم نہیں سدھر پاتے، پھر چاندرات سے شیطان کھل جاتا ہے تو پہلے سے زیادہ انرجی ،حوصلے اور ولولے کے ساتھ اپنے ’’شاگردوں‘‘ کی تربیت شروع کردیتا ہے، کیوں کہ اسے علم ہوتا ہے کہ انہیں گیارہ ماہ تک اس طرح کی ٹریننگ دینی ہے کہ اگلے رمضان المبارک میں پھر توبہ نہ کرسکیں۔۔یہ سلسلہ برس ہابرس سے جاری و ساری ہے۔۔اب چونکہ یہ عام دنوں کا آخری سن ڈے ہے، اس لیے ہماری کوشش ہوگی کہ اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔۔نجانے کیوں رمضان شروع ہوتے ہی اوٹ پٹانگ خیالات کا بریک سا لگ جاتا ہے ۔۔
باباجی کا تھوڑی دیر پہلے واٹس ایپ میسیج آیا ہے، پوچھ رہے ہیں کہ۔۔بچپن میں ہم پیاسے کوے والی کہانی پڑھاکرتے تھے کیا اس کوے نے پانی پی لیا یا ابھی تک پیاسا ہی ہے؟؟باباجی عام لوگوں سے ذراہٹ کر سوچتے ہیں اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ چلتے چلتے وہ اچانک سائیڈ پر ہوکر سوچتے ہیں،بلکہ وہ عام سی باتوں کے درمیان سے بالکل نئی لاجک اور منطق سامنے لے آتے ہیں، جسے سن کر باباجی کی سوچ کو بھی اکیس توپوں سے سلامی دینے کا دل کرتا ہے۔باباجی فرماتے ہیں۔۔عورت جوانی میں بیوی بن کرعلیحدہ ہونے پر زور دیتی ہے اور بڑھاپے میں ساس بن کر اکٹھے رہنے پر دلیلیں دیتی ہیں۔۔ اس جملے پر ہم نے جتنا غور کیا، ہمیں سچ ہی لگا۔۔باباجی کاہی کہنا ہے کہ۔۔محبت اتنی اندھی ہوتی ہے کہ محبوب کی ناک بہہ رہی ہوتو شبنم کے قطروں کا گمان ہوتا ہے۔۔باباجی شادیوں کے تو حق میں ہیں لیکن بیویوں کے مخالف،ان کی ازدواجی زندگی ماشااللہ بہت شاندار گزر رہی ہے، ہمیشہ ان کے گھر سے ہنسنے ہنسانے کی آوازیں آتی رہتی ہیں، اس کے باوجود باباجی بیگمات کے خلاف کیوں ہیں یہ الجھن آج تک سلجھ نہیں سکی۔۔ ایک دن ہم سے کہنے لگے۔۔بیوی کو اخلاقا” مہینے میں 4 دن میکے ضرور جانا چاہیے۔آخر شوہر بھی انسان ہے ذہنی سکون اس کا بھی حق ہے۔۔زن مریدوں سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ۔۔فرمانبردار شوہروں کی آدھی زندگی۔۔’’غصہ نہیں کرو پلیزُُ‘‘ کہنے میں ہی گزر جاتی ہے۔۔کورونا کی وجہ سے آج کل شادیاں ملتوی ہورہی ہیں،باباجی کا اس حوالے سے کہناہے کہ ۔۔شادیاں مؤخر نہ کریں اگر تقریبات پر پابندی ہے تو دعوتِ ولیمہ کی ہوم ڈلیوری کر دیں۔۔ابھی ہم یہ سب لکھ ہی رہے تھے کہ پیارے دوست کا میسیج بھی آگیا،لکھتے ہیں کہ۔۔کل میں گھر کے باہر جھاڑو لگا رہا تھاآج تین رشتے آئے ہیں۔
باباجی کی زندگی دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے۔۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہوگا کہ ان کے ساتھ کوئی مزاحیہ سین نہ ہوا ہو، پھر جب وہ اسے اپنے انداز میں سناتے ہیں تو سونے پہ سہاگا ہوجاتا ہے، ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے۔۔ ایک بار باباجی کے ڈرائنگ روم میں محفل جمی ہوئی تھی۔ شادیوں کا موضوع چل رہا تھا، انہیں ایک دلچسپ واقعہ یادآگیا۔۔ کہنے لگے۔۔ لوجی، شادی کی بات ہورہی ہے تو ایک عجیب و غریب واقعہ سنو۔۔ہم سب ہمہ تن گوش ہوگئے۔۔باباجی بولنا شروع ہوئے۔۔ ہم ایک شادی میں گئے، ہمیں دلہا کے ابا نے اسٹیج پر یہ کہہ کر بٹھادیا کہ آپ محلے کے بزرگ ہیں، کچھ دیر میں نکاح ہوگا، آپ کی موجودگی باعث برکت ہوگی۔۔دلہا کے منہ پرسہرا اور گلے میں نوٹوں،پھولوں کے کئی ہار تھے۔۔نکاح شروع ہوا۔نکاح خواں نے ایجاب و قبول کے مرحلے میں لڑکے سے کہا۔۔تیسری اور آخری بار پوچھ رہا ہوں آپ کو قبول ہے ۔۔دلہا خاموش رہا،کچھ نہیں بولا۔۔ہمیں لگا ،شاید لڑکا کسی اور لڑکی کو پسند کرتا ہوگا اور ماں باپ زبردستی شادی کرا رہے ہیں۔۔نکاح خواں نے پھر دھمکی لگائی۔۔آخری بار پوچھ رہاہوں،آپ کو قبول ہے؟۔۔لڑکے نے منہ سے کوئی آواز نہیں نکالی۔۔باپ شش و پنج میں ،ماں حالت غشی میں ۔۔رشتے دار بھی کھسرپھسر کرنے لگے کہ ،لڑکے کا شاید کسی اور سے چکر ہے۔۔جب حاضرین کی بھنبھناہٹ بڑھنے لگی تو لڑکے نے اچانک سہرہ سائیڈ پرکیا۔۔صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔اسٹیج کے پیچھے جاکر گردن کو ایک طرف جھکایا، پھر واپس صوفے پرآکر بیٹھا، کہنے لگا۔۔مولوی صاحب، قبول ہے،قبول ہے، قبول ہے۔۔ منہ میں گٹکا تھا، اتنی دیر سے گردن ہلارہا تھا، آپ نے بھی گٹکا پھنکوا کر ہی دم لیا۔۔
باباجی نے شادی کا واقعہ اداکاری کرتے ہوئے کچھ اس انداز سے سنایا کہ ہم کافی دیر تک ہنستے ہی رہے۔۔ اچانک باباجی کو کچھ یاد آگیا، کہنے لگے۔۔ یار مہنگائی بہت ہوگئی ہے، کل اپنی زوجہ ماجدہ کے ساتھ جوتے خریدنے بازار گیا، چار پانچ دکانیں گھومنے کے بعد ایک دکان پر جوتے پسند آگئے۔ قیمت پوچھی تو دکاندار کہنے لگا چھ ہزار روپے۔۔بالکل ایسا ہی جوتا ہمارے ایک دوست نے گزشتہ ماہ ہی لیا تھا، جب ہم نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے بتایا تھا کہ بائیس سو روپے کا لیا ہے۔۔ اب ایک ماہ میں جوتا بائیس سو سے چھ ہزار کا کیسے ہوگیا؟؟ہماری یہ بات سن کر دکاندار مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی لاجک پیش کرنے لگا۔۔جناب آپ نمازی آدمی ہیں ،آپ نے نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔یہ جوتا حلال جانور کی چمڑی سے بنا ہے جبکہ وہ جوتا حرام جانور کی چمڑی سے بنا تھا۔۔دکاندار کی لاجک سن کر ہم نے کہا۔۔بھائی میں نے کبھی جوتے پہن کر نماز نہیں پڑھی، تم مجھے حرام جانورکی چمڑی کا ہی جوتا دے دو،حرام،حلال چمڑیوں کے آڑ میں ہماری چمڑی تو نہ اتارو۔۔باباجی کی بات سن کر پیارے دوست کہنے لگے، بالکل ایسا ہی ہے، یہاں دکاندار من مانے ریٹ لگاتے ہیں، اگر کوئی چیز وہ ہزار روپے کی دے رہا ہے، دوسری دکان سے وہی چیز آپ کو پانچ ،چھ سو کی مل جائے ،آپ وہ چیز لے کر ہزار میں بیچنے والے دکاندار کو بتائیں کہ دیکھو اگلی دکان سے کتنی سستی ملی ہے تو وہ آگے سے آپ کی خریدی ہوئی چیز کو غیرمعیاری اور دونمبر قرار دے کراپنے مال کو اعلیٰ ترین قرار دے گا۔۔
اب ایک دلچسپ واقعہ بھی سن لیجئے۔۔ایک پہاڑی سلسلے کے اوپر رن وے بنا ہوا تھا۔ ایک طیارہ مسافروں سے بھر چکا تھا۔ ابھی تک پائلٹ نہیں آیا تھا۔ کہ اچانک مسافروں نے دیکھا کہ دو افراد ہاتھوں میں سفید چھڑی لیے آنکھوں پر سیاہ چشمے پہنے آئے۔ اور کاک پٹ میں چلے گئے۔مسافروں میں چہ می گوئیاں شروع ہوئیں کہ پائلٹ تو دونوں نابینا ہیں۔ا سپیکر پر آواز آئی۔ کہ میں پائلٹ فلاں صاحب جہاز کا کیپٹن بول رہا ہوں اور میرے ساتھ فلاں صاحب میرے معاون پائلٹ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم دونوں نابینا ہیں۔ لیکن جہاز کے جدید آلات اور ہمارے وسیع تجربے کو دیکھتے ہوئے فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم باآسانی جہاز چلا لیتے ہیں۔ بے شمار پروازیں کر چکے ہیں۔ مسافروں میں بے چینی کچھ کم ہوئی لیکن ان کی تشویش کم نہ ہوئی۔خیر انجن سٹارٹ ہوا۔ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا۔ دونوں اطراف میں کھائیاں تھیں۔ مسافر سانس روک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاز دوڑتا گیا۔ سامنے بھی کھائی تھی۔ لیکن جہاز دوڑ رہا تھا۔ کھائی کے بالکل قریب جاکر مسافروں کی چیخیں نکل گئیں کہ جہاز نے فلائنگ گیئر لگایا اور ہوا میں بلند ہوگیا۔مائک کھلا رہ گیا تھا۔ معاون پائلٹ کی آواز آئی۔ پائلٹ سے کہہ رہا تھا۔۔استاد جی کسی دن مسافروں کو چیخنے میں دیر ہوگئی تو پھر کیا بنے گا؟ واقعہ کی دُم: جہاز اور نابینا پائلٹوں کو قطعی طور سیاسی نہ سمجھا جائے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ماسک پہنیں یا نہ پہنیں آپ کی مرضی ہے،لیکن کم از کم اِسے ’’ماکس‘‘ نہ بولیں ۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔