تحریر: سیدعارف مصطفیٰ۔۔
مجھے جب میرے دوست علی عمران جونیئر نے جب یہ بتایا کہ وہ کراچی پریس کلب کے انتخابات میں جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کے لیئے بطور امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو مجھے چنداں حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہ کام تو برسوں پہلے ہی ہوجانا چاہیئے تھا اور اب تک تو انہیں زیادہ اہم منصب پہ فائز ہونا چاہیئے تھا لیکن کیا کیجیئے کہ اصلاح اور بہبود کو اپنا شعار بنالینے والے اس فرد نے قلم کو ہی علم بنالیا ہے اور ایک میڈیائی ویب سائٹ بناکے اسکے پلیٹ فارم سے صرف کراچی ہی نہیں بلکہ سارے ملک کے میڈیائی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کی جنگ بڑی مستعدی سے لڑ رہا ہے – اور یہی وجہ ہے کہ اس کی ویب سائٹ عمران جونیئر ڈاٹ کام میڈیا کے وبستگان کی واحد چھپر چھاؤں بن چکی ہے اور ملک بھر میں میڈیا سے منسلک افراد کے دلوں کی ترجمان کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اوراسی لیئے یہ فرد میڈیا کے سیٹھوں کی صفوں میں کہرام برپا کرنے والے باغی کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔۔
یہ اندازہ تو بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اربوں روپے سے کھڑے کئے گئے بڑے بڑے میڈیا ھاؤسیز کے کرتادھرتاؤں نے میڈیا کارکنوں کے تحفظ کے لیئے علی عمران جونیئر کی جدوجہد پہ انہیں توڑنے اور خریدنے کے لیئے کیآ کچھ نہ کیا ہوگا لیکن یہ ہمارے بھائی علی عمران دراصل اس عجب کیمسٹری کے لوگوں میں سے ہیں کہ جنہیں خریدنے کے قابل کرنسی ابھی کسی ٹکسال نے بنائی ہی نہیں اور اسی لیئے ایسے دیوانوں کے لئےانتخابی کنوینسنگ کرنا بہت مشکل بھی ہے اور نہایتت آسان بھی ۔۔۔ مشکل اس لئے کہ کیونکہ ان کی دوستی صرف اور صرف اہلیت اور معیار سے ہے اور آسان اس لیئے کیونکہ ہمارا معاشرہ خواہ کتنی ہی ابتری اور زوال کا شکار کیوں نہ ہو مگر اسے اپنی نمو اور بقاء کے لیئے بہرحال انہی دو معیارات کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے۔۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بہبود اور بہتری کے امور کا اک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بالعموم معیار اور محنت و اہلیت سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر ہم اپنے معاشرے کی سماجی و اخلاقی حالت کو دیکھیں تو یہ حقیقت بڑی کھل کے سامنے آتی ہے کہ معاملہ اگر معیار کو فوقیت دینے کا نہ ہو تو پھر تو ہرکام آسان ہوجاتا ہے خواہ کسی شعبے کا ہو اور کیسا بھی ہو ۔۔۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ کچھ کاموں کے لئے معیار اس قدر لازمی بلکہ ناگزیر ہوجاتا ہے کہ اس سے ذرا بھی صرف نظر ممکن نہیں رہتا – تحریر وتنظیم ہو یا تدریس و تقریر یا پھر انصاف و رہبری کے امور اسی ذیل میں شمار ہوتے ہیں – بھائی علی عمران کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ وہ محنت و اہلیت اور حق و معیار کے صرف پرچارک ہی نہیں ہیں بلکہ ان پہ عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن طور پہ جدوجہد کے لئے سربکف ہوئے پھرتے ہیں اور اسی لیئے انہوں نے ہمیشہ ہی میڈیا کے کارکنان کے حقوق کی جنگ بڑی استقامت و پامردی سے لڑی ہے اور میڈیا کے آشوب اور ابتری کے دور میںتو وہ ظلم کے خلاف بیخوف جدوجہد کا استعارہ بن کے ابھرےہیں اور اب یونائیٹیڈ پینل سے وہ اپنی اس جدوجہد کا دامن اور دراز کرنے کے لئے کمربستہ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ میڈیا کے کارکنان اسکی ابتک کی شبانہ روز محنتوں کا عملی خراج اسے اپنے اس اعتماد کی صورت پیش کرتےہیں یا نہیں کہ جسے ووٹ کہا جاتا ہے اور الیکشن کے اختتام پہ اسکی دیوانگی و ریاضت کس قدر معتبر ٹہرتی ہے۔۔(سید عارف مصطفی)۔۔