تحریر: محمود شام۔۔
لکھنے بیٹھتا ہوں تو اپنے آس پاس کبھی آئی اے رحمن کو مضطرب دیکھتا ہوں۔ کبھی ابراہیم جلیس کی گرجدار آواز سنائی دیتی ہے۔ کبھی بشیر احمد ارشد ایوب دَور میں اداریے لکھتے نظر آتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی سوچ میں ڈوبے۔ مظہر علی خان تحمل سے مخاطب ہوتے ہیں۔ حمید اختر کی تحریر سامنے لہراتی ہے۔ عبدالکریم شورش کی بے چینی۔ شورش کاشمیری کا ’چٹان‘ اپنی پوری عظمت اور تسلسل کے ساتھ۔ م ش کی ڈائری۔ یوسف صدیقی بہت احتیاط سے قدم اٹھاتے۔ ظہیر بابر۔ انتہائی شائستگی۔ لیکن آنکھوں میں ایک الائو۔ عبداللہ ملک۔ سچائی کی تلاش میں۔ شیخ علی احمد سندھو کا جلال لیے۔ منہاج برنا۔ کارکنوں کا علم اٹھائے۔ نثار عثمانی بے خوفی سے جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہتے۔
میں۔ میری نسل ان سب کی مقروض ہے۔ ان سب نے ہمیں سمجھایا تھا کہ یہ قلم۔ یہ ٹائپ رائٹر۔ ہماری انگلیاں عوام کی مرہون منت ہیں۔ صحافت ہو یا کوئی بھی تحریر۔ اس کے ذریعے ہمیں عوام کا جاننے کا حق ادا کرنا ہے۔ وہ اَن پڑھ ہیں۔ ان کی رسائی اعلیٰ ایوانوں تک نہیں ہوتی۔ وہ انگریزی فائلیں نہیںپڑھ سکتے۔ اس لیے ہم جو اخبار ٹی وی ریڈیو میں آرہے ہیں۔ ہمیں عوام کے اس جاننے کے حق میں وسیلہ بننا ہے۔اخبار۔ ریڈیو۔ ٹی وی چینل۔ سوشل میڈیا۔ یو ٹیوب چینل۔ ٹوئٹر۔ انسٹا گرام سب عوام کے جاننے کے حق کے وسائل ہیں۔ یہ ایک عبادت ہے۔ اخباروں چینلوں میڈیا کمپنیوں کے مالکان ہوں، اعلیٰ عہدیدار،ایڈیٹرز، ڈائریکٹر نیوز، ڈرامہ پروڈیوسر، پریس ورکرز، رپورٹرز، اسائنمنٹ ایڈیٹرز، نیوز کنٹرولرز، نیوز ریڈرز، اینکر پرسنز، میگزین ایڈیٹرز، فیچر رائٹرز، کالم نویس سب عوام کے اس جاننے کے حق کے لیے کام کررہے ہیں۔
ان کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم سوال کا ادراک کریں کہ عوام کو کیا جاننا ضروری ہے۔ عوام کو یہ جاننا کیوں لازمی ہے۔ عوام کو یہ جاننا کیسے چاہئے اور جب عوام جان لیں کہ سچ کیا ہے تو اس کے بعد عوام کو کیا کرنا چاہئے۔ یہ جاننا صرف مزے لینے کے لیے نہیں ہے۔ اور نہ صرف چوپالوں۔ پارکوں۔ ڈرائنگ روموں۔ مارکیٹوں میں اس پر گپ شپ لگانے کے لیے۔ جاننا اس لیے ناگزیر ہے کہ عوام فیصلہ سازی میں شرکت کرسکیں۔ فیصلے ان کے لیے ان کے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کے لیے ہورہے ہیں۔ اس لیے ان کا جاننا۔ ان میں شریک ہونا بہت ضروری ہے۔نیوز ایڈیٹرز۔ سب ایڈیٹرز۔ این ایل ای۔ ٹکر بنانے والے۔ سب غور کریں کہ آپ جب خبرنیوز بلیٹن تیار کررہے ہیں تو صرف کسی کی تفریح طبع کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی تقدیر لکھ رہے ہیں۔آپ اپنے ہم وطنوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوکر انہیں با عزت زندگی کا قرینہ سکھارہے ہیں۔آپ انہیں جو معلومات دے رہے ہیں۔ وہ ان کے مطابق اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے دروازے کھٹکھٹائیں گے۔عوام کو یہ معلوم ہو کہ ہمارے حقوق۔ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اب جب ٹیکنالوجی آگئی ہے تب اپنے حقوق کس طرح حاصل کرنے ہیں۔
آپ جب ایک آزاد وطن حاصل کرچکے توآپ کا حق ہے کہ ہر قانون کا پس منظر جانیں۔ آپ کے ارد گرد کونسے کیمیکلز استعمال ہورہے ہیں۔ آپ کو کھانے پینے کی جو چیزیں مل رہی ہیں ان کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ آپ کارکن ہیں تو کمپنی کے اکائونٹس جاننا آپ کا حق ہے۔ آج کل ڈیٹا سب سے بڑی طاقت ہے۔ عوام کا حق ہے انہیں درست ڈیٹا تک رسائی ہو۔ وہ ہر دفتر ہر کمپنی تک نہیں جاسکتے۔ اس لیے میڈیا کو وسیلہ بننا چاہئے۔ کوئی سڑک بن رہی ہے۔ اس کا ٹھیکہ کس کو کتنے میں ملا ہے۔ اس میں جو تعمیراتی مٹیریل استعمال ہورہا ہے اس کی کیا مقدار ہے۔ اوّل تو سڑکوں کے کنارے یہ ساری معلومات ہوں۔ یا پھر میڈیا یہ بتائے۔ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ملک کے معدنی وسائل کہاں کہاں کیا کیا ہیں۔ ریکوڈک سینڈک اور کہاں کہاں سونا تانبا ہے۔ نکالا جارہا ہے تو کتنا۔ نہیں نکالا جارہا ہے تو کیوں۔ پینے کا صاف پانی کہاں کہاں میسر ہے۔ جہاں نہیں ہے تو کیوں۔ ہماری زمین فی ایکڑ کتنی پیداوار دے رہی ہے۔ دوسرے ملکوں میں فی ایکڑ پیداوار کتنی ہوگئی ہے۔ ہمارے ہاں کم ہے تو کیوں۔ ہمارے ہاں ان بنیادی امور پر یونیورسٹیوں میں سرکاری تحقیقی اداروں میں تازہ ترین دریافت کیا کیا ہے۔ یہ بھی اخبار۔ رسالوں۔ ٹی وی چینلوں۔ ریڈیو۔ سوشل میڈیا۔ ذاتی یو ٹیوب چینلوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ہم وطنوں کو یہ ضروری معلومات دیں تاکہ وہ کچھ اہم فیصلے کرسکیں۔پہلے عوام اخبارات کو اس سلسلے میں خط لکھا کرتے تھے۔ یہ گوشہ سب سے اہم ہوتا تھا۔ کہیں اس کا عنوان ہوتا تھا۔ ’’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں‘‘۔ ’’ کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں‘‘۔ اُردو اخبارات میں یہ گوشہ بتدریج پہلے محدود پھر ختم کردیا گیا ہے۔ انگریزی میں اب تک ہے۔ قومی زبان کے اخباروں میں نہیں ہے۔
ہمارے ہاں گزشتہ نصف صدی سے نہ جانے کس نے کیسے طے کیا ہے کہ عوام صرف سیاستدانوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں۔ ان کی اولادیں کیا کرتی ہیں۔ شادیاں کیسے ہوتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ان کے کرپشن اسکینڈل کیا ہیں۔ ٹی وی چینلوں کے زیادہ گھنٹے۔ سوشل میڈیا کی زیادہ پوسٹیں۔ اخبارات کے پہلے اور آخری صفحات میں اشتہارات سے بچنے والی زیادہ جگہ 22کروڑ میں سے ان چار پانچ سو معززین کے لیے ہی وقف کردی گئی ہے کہ کون جلا وطن ہے۔ کس کی ڈیل ہورہی ہے کس کی نہیں۔ کون دن دہاڑے کس سے ملا۔ کون رات کی تاریکی میں۔ باقی 21کروڑ 80 لاکھ کیا کررہے ہیں۔ فصلیں کیسے پیدا ہورہی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں کیا تحقیق ہورہی ہے۔ دانش ور کیا نتائج اخذ کررہے ہیں۔ ہماری تجارت کے اعداد وشُمار کیا ہیں۔ ٹیکسٹائل ملیں کیا پیش کررہی ہیں۔ سمندر سے کیا فیض حاصل کررہے ہیں۔ ہمارے دریا کب سے صاف نہیں ہوئے۔ نہروں میں پانی کتنا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے باشعور عوام یہ حقائق جاننا نہیں چاہتے۔
کوئی بتائے کہ یہ کیسے فرض کرلیا گیا ہے کہ عوام صرف وہی جاننا چاہتے ہیں جو ہم اہل میڈیا انہیں اخباری صفحات۔ ٹی وی نیوز۔ سوشل میڈیا میں بتارہے ہیں۔ وہ اپنی زمین۔ اپنے اداروں۔ اپنی درسگاہوں اور اپنے مستقبل کے بارے میں جاننا ہی نہیں چاہتے۔(بشکریہ جنگ)