تحریر:سید عارف مصطفیٰ
سردی کب شروع ہوتی ہے اس بارے میں الگ الگ کئی اندازے ہیں لیکن اس پہ سب کا اتفاق ہے کہ جب لگنا شروع ہوجائے اسی دن سے سردی شروع ہوجاتی ہے ، تاہم روایتی طور پہ سردی کا آغاز بالعموم دسمبر کے مہینے سے شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ہر برس دسمبر کی آمد پہ گرما گرم شاعری اور سرد مغالطوں کی نئی فصل کاشت ہوتی ہے اور ہر بار عاشق دسمبر کی آمد کا جس بیتابی سے انتظار کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس بار کے دسمبر میں تو وہ اپنے عشق کی کیاری میں ذاتی خون جگر سے رومان کی فصل سینچ ہی لیں گے ۔۔۔۔ لیکن پھر ہوتا یوں ہے کہ ان کا عشق سرد موسم کے دو تین ٹھٹھراتے غسل ہی میں کافی ٹھنڈیا جاتا ہے اور پھر وہ سارا خنک موسم کھانستے چھینکتے اور بڑا سا گرم ٹوپا پہنے رقیب کی مونگ پھلیاں ٹھونگتے اور اس سے فرمائش کرکے گرما گرم چکن سوپ پیتے گزار دیتے ہیں۔ یوں مزید عشق کرنے کے لیے وہ بھی سلامت رہتے ہیں اور رقیب کو بھی گزند نہیں پہنچتی۔ کچھ ہونہار عاشق اس موسم میں محبوب کے بھائی سے دوستی گانٹھ کے اس کی گلی میں بلکہ عین اس کے گھر کے سامنے اکثر بڑے دھڑلے سے لکڑیاں جمع کرکے الاؤ روشن کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ، یوں محبوب کا بھائی ہاتھ تاپتا ہے اور وہ دل تاپتے ہیں اور گاہے آنکھیں سینکتے ہیں۔
سردی کی کونپل چونکہ دسمبر میں سر ابھارتی ہے چنانچہ کچھ خاص قسم کے شعراء کی افزائش کا مہینہ بھی یہی ہے جنہیں ہم دسمبری شاعر کہتے ہیں کیونکہ ان کے کلام کا مرکزی نکتہ سرد دسمبر کا گرم انتظار اور اس کا والہانہ خیرمقدم ہوتا ہے اور یہ دسمبری کلام عام طور پہ تاثیر کے لحاظ سے ٹھنڈے موسم سے بھی کہیں زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے ، اتنا ٹھنڈا کہ اس کی خنکی سے اس کے تمام ردیف اور قافیے اور اوزان وغیرہ بھی ٹھٹھر جاتے ہیں-
ہجر و فراق کے رموز پہ گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق تکنیکی و فنی لحاظ سے سردی کا موسم ہی درحقیقت سرد آہ بھرنے کا اصل موسم ہے۔ غیرمحتاط اور ناتجربہ کار عاشق گرم مہینوں میں سرد آہ کھیچنے کی کوشش میں اپنی بچی کھچی توانائی اور محبوبہ کا اعتبار کھوتے ہیں۔ سرد موسم میں سرد آہ بھرنے پہ کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ پھر وہ بھاپ بن کے خارج ہوتی ہے اور ارد گرد کے ماحول کے لیے راحت افزا ہوتی ہے- اس بارے میں آغا کی جانفشانی سے کی گئی ریسرچ کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ اگر 10 ہزار عاشق شہر کے کسی ایک حصے میں جمع ہو کر ایسی بھاپ کےاخراج کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو اس کی حدت سے شہر میں ٹھنڈ کی شدت میں مناسب کمی لائی جاسکتی ہے۔
سرد موسم کی نسبت سے ایک اہم اور بڑی سچائی یہ بھی ہے کہ موسم سرما کی شدت کا اندازہ تو تھرمامیٹر یا کیلون میٹر قسم کے آلات کی مدد سے کیا جاسکتا ہے لیکن سردی کا احساس ان پیمانوں سے ماورا ہے کیونکہ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ سردی اور بے عزتی کو جتنا محسوس کرو وہ اتنا ہی لگتی ہے ویسے کسی بندے کا اختیار تو دونوں پہ نہیں لیکن سردی کے احساس کو ختم کرنے کے لیے گرم کپڑے لادنے پڑتے ہیں اور بے عزتی کے احساس کو ختم کرنے کے لیے دوسروں کے کپڑے بھی اتارنے پڑتے ہیں-۔ آغا کہتے ہیں کہ سردی طاقت کے پیمانوں کو الٹ دینے والے ایک ایسے زمانے کا نام ہے جس میں بھالو جیسے بھاری بھرکم افراد سب سے زیادہ کپکپاتے دکھتے ہیں جبکہ قدرت نے ان کے اندرون میں چربی کے ایک دو کمبل پہلے ہی گردا گرد لپیٹ دیے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ سب سے زیادہ سردی کے مارے معلوم ہوتے ہیں۔
ان کے برعکس ان چھیچھڑا سی جسامت والوں کو دیکھیے ، کہ اکثر سخت سردی میں دانت پہ دانت جمائے نیلے پڑتے ہونٹوں کو بھینچے ، چھلکا سی ٹی شرٹ پہنے نظرآتے ہیں اور اپنے چند کلو والے منحنی وجود کا سپاٹ سینہ اس حد تک تانے و نکالے ، ادھر سے ادھر لیفٹ رائٹ کرتے پھرتے ہیں کہ گویا : شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا ۔۔۔لیکن زیادہ حیرت انگیز معاملہ خواتین کا ہے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ سردی کے موسم نے ہمیشہ خواتین سے مات کھائی ہے ۔۔ اگر کسی کو یقین نہیں آئے تو ذرا اس موسم میں ہونے والی کسی تقریب میں شرکت کرکے خود دیکھ لے ، جہاں مرد حضرات گرم سوٹوں جیکٹوں اور سوئٹروں کے اندر پناہ گزین ہونے کے باوجود بغلوں میں ہاتھ دبائے اور دانت پہ دانت جمائے کرسیوں اور صوفوں پہ پڑے ٹھٹھرتے پائے جاتے ہیں وہیں یہ نازک اندام مخلوق موسمی حفاظتی اقدام سے بےنیاز ہوکے باریک ریشمی و جاپانی کپڑوں میں ملبوس سینہ تانے مجاہدانہ خروش سے ہر سمت دوڑتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔
موسم سرما کی خصوصیات یوں تو بیشمار ہیں لیکن آغا ان میں سے خاص الخاص یہ قرار دیتے ہیں کہ سردی درحقیقت قدرت کی طرف سے کپکپانا سکھانے کا وہ سالانہ ٹریننگ پروگرام ہے جس سے ملازمت اور ازدواجی زندگی ، دونوں ہی کو خوش اسلوبی سے بھگتانے میں بڑی اخلاقی مدد ملتی ہے اور اس سیزن سے حاصل کردہ سبق کےتحت بغلوں میں ہاتھ دبائے رکھنے اور کسی قدر خمیدہ پشت ہوکے چلنے کی عادت پڑجانے سے اور بعد از موسم سرما اس انداز کو معمول بنالینے سے تو دنیاوی درجات کی بلندی تقریباً یقینی ہوجاتی ہے- یہ سب بھاؤ اور سبھاؤ دراصل سردی کے تحفے ہیں ۔۔۔۔ اور جب ذکر تحفوں کا نکل ہی آیا ہے تو سردی کے خاص تحفوں کا بیاں بھی ہو ہی جائے ہو ہی رہا ۔۔۔۔۔۔ یہاںاگر آپ کے ذہن میں بھاپ اڑا تے قہوے کافی یا سوپ آرہے ہیں یا پھر گاجر کے کھوئے اور انڈے والے حلوے اور بھاپ اڑاتے سوپ کے جلوے دھیان میں ہیں یا خشک میوہ جات کی فہرست نظر میں ہے تو اپنی نیت اور سوچ پہ قابو رکھیے کیونکہ یہاں میری مراد فقط لحاف سے ہے جو کہ سردیوں میں یہ بے تحاشا نیند لانے کا جادوئی اور مجرب آلہ ہے اور اسے اوڑھ کے جو نیند آتی ہے ویسی نیند صرف سرکاری ملازموں کو دفتر میں ہی آ پاتی ہے-
آغا لحاف کو ایک ایسی عمل انگیز شے بتاتے ہیں کہ جس کے اوڑھنے سے کبھی کبھی دماغ سے پہلے ضمیر سوجاتا ہے- اب یہ سردی بچاؤ ڈھال محض گاؤں دیہاتوں یا غریب غرباء تک ہی محدود ہو گئی ہے کیونکہ اس کی روئی کئی نسلوں تک ساتھ دیتی ہے اور اس میں کئی بزرگوں کی بسی باس ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہتی ہے اور اسے آئندہ بھی یقینی بنائے رکھنے کے لیے لحاف ترکے اور وراثت میں آگے منتقل ہوتے رہتے ہیں –
آغا کے مطابق لحاف خصوصی رومانویت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان کی تیاری کا اہم ترین عنصر ڈورے ڈالنے جیسا جذبات انگیز عمل ہے۔ لحافوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ بوسیدگی سے بننے والے سوراخوں کو بھنا کے یا سٹپٹا کے دفعتاً بھرا یا چینپا جاسکتا ہے اور کئی بچوں کو اس میں سلاکے شریک حیات سے محبت کے دو میٹھے بول بے خطر بولے جاسکتے ہیں جبکہ کمبل انگریز کی دین ہے اور سراسر انہی کی طرح ناقابلِ اعتبار و بیوفا قسم کی شے ہے – اس میں ایک بار کہیں سے سوراخ ہوجائے تو بڑھتا ہی جاتا ہے اور کئی خوفناک امکانات کے باعث بہت ڈراتا ہے اور زیادہ سہانا وقت دوسرے کے کمبل کی طرف سے ہوشیار اور چوکنا رہنے میں ضائع ہوجاتا ہے – ایک خامی اس میں مزید یہ ہے کہ ذرا بے احتیاطی سے فورا” تنبیہی “کرنٹ بھی مارتا ہے-
موسم سرما سے اپنے آغا کو جتنی الفت ہے خواجہ صاحب کو اتنا ہی زبردست بیر ہے اور بہت پرانا ہے جس کی پہلی وجہ شاید یہ ہے کہ اس پورے موسم میں ا ن کی ناک کی پھننگ ثابت قدمی سے سرخ رہتی ہے جس کے نیچے سےایک چشمہ سا دائم رستا نظر آتا رہتا ہے اور شاید اسی لیے اس موسم کی مذمت میں وہ بہت دور کی کوڑیاں لاتے ہیں اور اکثر یہ کہتے ہیں کہ سرما ایسا واہیات موسم ہے کہ اس میں جذبے ہی نہیں سوچ تک سکڑ جاتی ہے اور بندہ صحیح طرح غورو فکر بھی نہیں کرسکتا ۔ حالانکہ وہ تو کبھی گرمیوں میں بھی غور و فکر کرتے نہیں پائے گئے- ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اسی موسم کا کھٹراگ ہے کہ لقوے اور تقوے کو ایک ساتھ بیدار کرتا ہے اور زوجہ خواہ کتنی ہی حسین نازنین کیوں نہ ہو نہانے پہ مجبور کرنے والی سازش کا آلہ کار معلوم ہوتی ہے- ادھر اپنےخواجہ صاحب تو سردیوں میں نہانے والی خالی بالٹی کی طرف نظر بھر کے بھی نہیں دیکھتے کیونکہ کہتے ہیں کہ صرف اسے دیکھنے سے بھی بہت دیر تک ٹھنڈ لگتی رہتی ہے -تاہم خواجہ جب کبھی اہل خانہ کے پیہم تقاضوں اور احباب کے مسلسل اصرار پہ اگر کبھی دل کڑا کرکے نہانے کے لیے خود کو قضا و قدر کے حوالے کربھی دیتے ہیں تو وہ موسم سرما کا گرم ترین دن ہوتا ہے لیکن پھر بھی ان کے غسل کی تیاری کا ماحول غسل میت سے صرف اسی حد تک کم ہوتا ہے کہ بیری کے پتے نہیں منگائے جاتے ۔
سردی کی آمد کی اطلاع بھی بالعموم ہمیں خواجہ صاحب سے ہی ملتی ہے اور وہ یوں کہ وہ اچانک مسلسل کئی دن دکھائی نہیں دیتے اور پھر جب نظر آ جائیں تو ذرا پہچانے نہیں جاتے ، کیونکہ اپنا منہ بہت بڑے سے اونی ٹوپے میں پیک کیے بغیر گھر سے نہیں نکلتے جس کے گرد اونی مفلر کی فصیل بھی حصار بندی کیے ہوتی ہے- ان کےنہایت گرم و مجہول ملبوس کو دیکھ کے لگتا ہے کہ جیسے موسم سرما بھی کوئی کانا دجال ہے کہ جس سے وہ جہاد کو خوب تیاری سے نکلے ہیں ۔ سچ کہیں تو ان کی سردی کو دیکھ کے ہمیں یکایک بہت سردی محسوس ہونے لگتی ہے اور جسمانی پارہ دھڑام سے کئی سینٹی گریڈ گرجاتا ہے – ویسے روایتی طور پہ خواجہ صاحب سرد موسم کے مقابلے کے لیے ہر برس ایک ایسے تاریخی اوور کوٹ کا سہارا لیتے ہیں کہ جو کبھی ان کے دادا جان کا تھا جو کہ ولولے ظرف جسامت اور گھیرے میں یعنی ہر طرف سے ان سے بے تحاشا بڑے تھے اس لیے دیکھنے میں ایسا کم لگتا ہے کہ انہوں نے اوور کوٹ پہنا ہے بلکہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ جیسے اوور کوٹ نے انہیں پہنا ہوا ہے کیونکہ اس میں کم ازکم ایک ڈیڑھ فرد کی مزید گنجائش ہمیشہ باقی معلوم ہوتی ہے یہ تاریخی اوور کوٹ اپنی ہیئت اور ضخامت اور بوسیدگی کے لحاظ سے دیکھنے میں کسی پرانے یادگاری تاریخی قلعے کا سا نظر آتا ہے اور خواجہ اس قلعے کے ایک کونے میں پڑے ایسے دیرینہ قیدی معلوم ہوتے ہیں کہ جسے اپنے زندان سے ایسی انسیت ہوچلی ہے کہ گویا اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے۔ وہ ہمیشہ اور ہربار اس اوور کوٹ کی تاریخ اور افادیت اسی جوش اور ولولے سے بیان کرتے ہیں کہ جیسے تگڑی ٹپ ملنے کی امید میں تاریخی قلعوں کے گائیڈز کا شعار ہوا کرتا ہے۔
خواجہ صاحب کے برعکس آغا کو البتہ سردی کا موسم بہت مرغوب ہے کیونکہ انہیں سویٹر پہننا بہت پسند ہے اور وہ بھی اپنی کلبلاتی جوانی دیوانی کے زمانے کے ، کہ جب وہ شوخ رنگوں اور بہت سی چٹاخ پٹاخ رنگین پٹیوں والے سویٹروں کے بل پہ بغیر کوشش کے بھی کہیں نہ کہیں سے خوبصورت دکھ جاتے تھے-سچ یہ ہے کہ یار من آغا اس راز کو پا چکے تھے کہ سردی ایک ایسا مہربان موسم ہے جو اپنے خوبصورت سویٹروں اور جیکٹوں کے سہارے پہاڑ بِجُو کی سی شکل والوں کو بھی جیسے تیسے کہیں نہ کہیں سے قبول صورت بنا ہی دیتا ہے اور دلکش نظر آنے کے اس آسان راز کو سمجھنے میں انہیں 60 اور 70 کی دہائی کی بھارتی و پاکستانی فلموں سے خصوصی مدد ملی تھی کیونکہ اس دور کے ہرفلمی گانے میں کم ازکم پانچ چھ خوبصورت سویٹروں اور جیکٹوں کی نمائش بطور نسخہء خاص ضروری سمجھی جاتی تھی کہ جن سے حاصل کردہ جمالیاتی سہارے کی بدولت ان میں کسی بھی انسانی شکل کا ہیرو بلا جھجھک ڈال دیا گیا ہوتا تھا اور یوں کسی ایسے گانے میں اپنے منہ سے دگنا تگنا بڑا جوڑا ہلاتی اور بڑی بڑی مصنوعی پلکیں پٹپٹاتی ہیروئن کا چہرہ رنگ بھرے نہ بھرے ہیرو کا بہت سی رنگارنگ پٹیوں والا سویٹر ضرور خاطر خواہ حد تک رنگ بھر دیا کرتا تھا – اس ضمن میں خواجہ صاحب کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ زیادہ ترغلط بنے رومانی جوڑے سرد موسم کے ان غلط فہمی پرورحسین پہناوؤں کے بل پہ ہی بنتے ہیں اورپھر تاعمر آنسو بہاتے اور یخنی کی بھاپ جیسی گرم آہیں خارج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے آغا صاحب کا موسم سرما سے ایسا والہانہ رشتہ ہے کہ ان کے بقول اس موسم میں ترنگ ومستی کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور کیف و سرورکو اٹا اٹ بھر دیا گیا ہے حتیٰ کہ اس سیزن میں موم پھلی والے کو صرف دیکھنا تک بہت لذت بخش اور باعث گرمائش ہوتا ہے اور خود گرما گرم مونگ پھلی تو سراسر بہشتی میوہ معلوم ہوتی ہے- ٹھنڈ پڑتے ہی گرم مشروبات جسم میں ایسی چونچالی سی بھر دیتے ہیں کہ کسی قدر چھچھور پن بھی قابل معافی ہوجاتا ہے – ان دنوں گرم چکن سوپ بھی خوب فروخت ہوتا ہے جو دراصل اس مرغی کا غسل میت ہوتا ہے کہ جسے گاہک کے تصور کو ذائقے اور اشتہاء کے امکانات سے بھر دینے کے لیے سوپ کے عین اوپر کئی دن مسولینی کی مانند لٹکاکے رکھا جاتا ہے ، اس موسم کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ یہ بھانت بھانت کی کولڈ کریمیں ، لوشنز ، ویسلینیں اورتیز خوشبوؤں والے پاؤڈروں کے انبار بھی ہمراہ لیے آتا ہے جوکہ درحقیقت دکانداروں کی جانب گاہکوں کی جیب پہ خوشبو دار ڈاکے ڈالنے کا موجب ہوتا ہے کیونکہ یہی سامان تو جھریوں سے اٹی نہایت کھردری بڑھیا کو بھی چکنی و ملائم سی جاپانی گڑیا بناتا ہےاور وفا واشتہا کے نئے امکانات جگاتا ہے-
موسم سرماکی خوبیوں میں ایک نمایاں تر یہ بھی ہے کہ یہ کھانے کے لیے بہت سی ایسی ورائٹیوں کی غذائیں اور ماکولات و مشروبات بھی حاضر کرتا ہے کہ جن کے سامنے کسی بھی طرح کے بہت پوشیدہ و بیحد محتاط ندیدے کا پردہ بھی چاک ہوکے رہتا ہے – تاہم موسم سرما واضح طور پہ دولتمندوں کا موسم ہے کیونکہ اہل ثروت خشک میووں سے دل بہلاتے ہیں اور حسب اصرفیمان برانڈی یا قیمتی کافیاں پی پی کے اپنا خون گرماتے ہیں جبکہ رہاغریب ۔۔۔ تو اس کا خون کھولانے کے لیے بجلی کا بل دیکھنا یا پھرعابدہ پروین کی کافی سننا ہی کافی رہتا ہے- اس موسم کی اور کیا توصیف بیان کروں بس چلتے چلتے یہ اور سن لیجیے کہ اپنے آغا اس موسم کی ایک اضافی خوبی یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سردی کا موسم ہی تو وہ خاص زمانہ ہے کہ جس میں کف افسوس بڑے دھڑلے سے سب کے سامنے ملا جاسکتا ہے۔۔(سیدعارف مصطفیٰ)۔۔!