تحریر: محمد نوازطاہر۔۔
بھائی جان آپ دیکھ لیں ، میں ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس امید پر دیانتداری کے ساتھ کام کررہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور ہمارے محنت کا ثمر ہمیں ملے گا لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری تنظیمیں کچھ نہیں کرتیں، عہدیدار بس مالکان کی خوشنودی کے لئے کام کرتے ہیں اور کارکنوں کا معاشی و نفسیاتی اور جذباتی قتل کرتے ہیں ، اب میں نے کبھی کسی تنظیم کی کسی ایایکٹیویٹی میں نہیں جانا ۔۔۔ نوجوان ، جفاکش ، پر عزم ، پرجوش مستنصر عباس جو معاشی استحصال کے کند چھرے سے ذبح ہورہا تھا آخر ایک وار اس کی دھڑکن پر بھی ہوا جو جسم اورروح کا رشتہ توڑ گئی اور ہمارے پاس اس کے لئے صرف انا للہ وانا الیہ راجعون کے سوا کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا۔
اس وقت پاکستان میں خاص طور ر لاہور میں صحافیوں کی درجن بھر تنظیمیں موجود ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ کارکنوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں ، جی ہاں ! لڑ رہی ہیں جنگ ، وہی جنگ جس میں مستنصر عباس شہید ہوگیا ؟
مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کی پریس گیلری میں آتے ہیں اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بولے گا۔۔ مُرشد جی پانی لاﺅں پینے کے لئے ، آپ پانی بہت کم پیتے ہیں ، اسی لئے ہر وقت لوگوں پر گرم رہتے ہیں ،۔۔۔ یہ بات وہ اکثر کیاکرتا تھا اور مجھے کارکنوں کے حقوق کے دعوے کرنے والے کئی منافقوں پر غصہ آجاتا اور میں خالص پنجابی انداز میں بکنا شروع ہوجاتا میں زبان اس کے پانی کے گلاس سے رُکتی ، گیلری سے باہر وہ اسمبلی سیکرٹریٹ کی سیڑھیوں پر بھی ہمیشہ مسکراتا ہوا ملتا ، اور مجھے وائٹ سگریٹ تھماتے ہوئے ہلکا سا قہقہہ لگاتا کہ آپ کے ہاتھ میں سید سگریٹ منی ٹیوب لائٹ کی طرح دکھائی دیتا ہے، تب تک ملاقاتیں تواتر سے رہیں جب تک اس نے پبلک نیوز ٹی وی جوائن نہیں کیا تھا ، پبلک جوائن کرنے کے بعد ملاقاتیں کم ہوگئیں ، جن دنوں وہ پبلک ٹی وی جوائین کرنے جا رہا تھا ، میں تن بھی اپنے طور پر اسے روکنے کی کوشش کی تھی کہ یہاں سے تنخواہ کی امید مت باندھنا،انتظامیہ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں صرف اپنا پیٹ دکھائی دیتا ہے اور یہ یہ ٹی وی چینل شروع ہی اس منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ چند ماہ تک کارکنوں کی تنخواہیں نہیں دیں گے تو تب تک یہ پاﺅں پر اس حد تک کھڑا ہوجائے گا کہ سکرین پر دکھائی دے گا اور سرکار سے اشتہارات لےکر کام چلایا جائے گا ، یہ بات مجھے پہلے ہی معلوم ہوچکی تھی لیکن سچ بات مانتا کون ہے ، اللہ کا شکر ہے دو ایک اور دوستوں نے بات مان لی اور اللہ کا فضل ہے کہ ابھی انہی اداروں میں برسرروزگار ہیں جہاں سے چھوڑکروہ پبلک ٹی وی جوائن کرنا چاہتے تھے ۔
مُردہ دل ساتھی کہتے ہیں مستنصر عباس مر گیا ، میں کہتا ہوں وہ قتل کردیا گیا ، وہ شہید ہے ، وہ پبلک ٹی وی کی انتظامیہ اور بااختیار ساتھیوں کی بے حسی کی تلور سے کٹا ہے ، بے بسی کی موت نہیں مرا بلکہ ہمارے منہ پر جوٹی مار کر ہم سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑ گیا ہے اور کہہ فگیا ہے کہ تم صحافت کی آزادی کی جنگ لڑ لو ، میں توتمہاری اس نام نہاد جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا جو میڈیا مالکان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے ، کارکنوں کے معاشی حقوق کی آواز دباتی ہے۔۔
مستنصر عباس! میں پوری دیانتداری سے اعتراف کررہا ہوں کہ تم سچے تھے ، ہم جھوٹے ، فریبی اور منافق ، روزِ محشر میں تو اپنا گریبان تمہیں پیش کروں گا ، اس کے باوجود کہ میں ٹریڈ یونین کا صرف کارکن ہوں عہدیدار نہیں ، جو عہدوں پرقابض ہیں ان سے تم خود نمٹ لینا ، میں گواہی دوں گا کہ مالکان کی جنگ کارکنوں کے سینوں پر پﺅں رکھ کرکون کون لڑتا رہا ، کارکنوں کو کون کون فریب اور دھوکہ دیتا رہا ، جہاں تک گدھ میڈیا مالکان کا تعلق ہے تو ان سے خدا خود ہی نمٹ لے گا ، ان مالکان کے سامنے جنہیں کارکنوں کو بروقت تنخواہ دیے جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اور اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ کارکنوں کوتنخواہیں مت دو، ہم نہیں دیتے توتم کیوں دیتے ہو، آج خدا کی زمین پر کارکنوں کا خون چوسنے والے میڈیا مالکان جس طرح اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں وہ کسی بھی وقت خدا کی پکڑ میں آجائیں گے ، سرخرو وہیں رہیں گے جو اپنے کارکنوں کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، انہیں صحافت کی آزادی کے ڈھونگ کی ضرورت نہیں ، یہ ڈھونگ صرف ان کا نعرہ ہے جنہوں نے اس مقدس پیشے کو بلیک میلنگ اور استحصال کے لئے استعمال کرنا ہے ،
مستنصرعباس! میرے دوست ، میرے بھائی ! باقی لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتا لیکن تم سے شرمندہوں ، منافقوں سے اللہ پوچھے گا ،تم سرخرو ہوئے ، کیونکہ تم اپنے پیشے اور پیشہ وارانہ دیانت سے بدیانتی کے مرتکب نہیں ہوئے ، کسی کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچائی ، ہاں اتنا ضرور کیا ہے کہ راہِ عدم پر رخصتی سے پہلے ملاقات نہیں کی ، اللہ تمہاری اگلی منزلیں آسان فرمائے ،ہم جلد ملیں گے اور استحصال کرنے والوں کا مل کر گریبان وہاں پکڑیں گے جہاں چھڑانے والا کوئی نہیں ہوگا، جہاں ہر ظلم کا حساب ہوگا۔۔۔(محمد نواز طاہر)۔۔