تحریر: فرززانہ صدیق۔۔
میرے الفاظ ۔۔۔میرے احساسات اور کیفیت بتانے سے قاصر ہیں ۔۔کہتے ہیں یہ کیا بات ہوئی کیمرہ اور مائیک پکڑا اور پہنچ گیے۔۔ میڈیا والوں کو تو بس کوئی بات چاہیے ہوتی ہے ۔۔پتہ بھی ہے ایسی کتنی باتیں ہماری کتنی دفعہ جان نکالتی ہیں ؟؟؟دماغ شل کر دیتی ہیں ۔۔دل چیر دیتی ہیں۔۔
پیڑولنگ پولیس کی فائرنگ سے قتل ہونے والے وقاص کے گھر جب پہنچی۔۔۔اور حوصلہ دینے پر جب مقتول وقاص کی والدہ مجھ سے لپٹ کر روئی ۔ ۔ تو شاید میری چیخیں سب سے زیادہ تھیں۔۔۔ایک سیکنڈ کو زہن مین آیا ارے ہم تو میڈیا والے ہیں میں کرایم رپورٹر ہوں مجھے یہ سب زیب نہیں دیتا ۔۔مگر مجھے لگا کہ اگر میں نے خود پہ کنٹرول کیا نا روئی تو ضبط سے میرے پرخچے اڑ جائیں گے ۔۔۔اور جب اس واقعہ کو رپورٹ کرنے کے دوران مایک مقتول بے گناہ وقاص کی والدہ کے سامنے کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے دل کوکوئی سوئیوں سے چھید رہا یے۔۔۔اور چھیدے جا رہا ہے ۔۔۔اور جب مائک اس بوڑھے والد کے سامنے کیا تو لگا مجھے لگا اپنے پاؤں پر اور کھڑی نہیں ہو سکتی میں ۔۔۔اود مقتول کے جب معصوم بچوں کی طرف دیکھا تو جانا قیامت کس قدر خوفناک ہو گی ۔۔
مقتول وقاص کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پیڑولنگ پولیس اہلکاروں کا تشدد ثابت ہو چکا ہے ،،رپورٹ پڑھ کے مجھے کتنی دیر اپنا نا ہونا محسوس ہوتا رہا ۔۔
اہ۔۔۔مقتول وقاص کے والد نے جب یہ رپورٹ تھامی ہو گی تو دوسرے ہاتھ سے اپنا کلیجہ تھاما ہو گا ۔۔ہایے۔۔۔اس بوڑھے والد پر کیا گزری ہو گئ جو اس روز سے اپنے بیٹے کے کپڑے پہن کر ان گلیوں میں پھر کر اپنے بیٹے کا ہونا محسوس کرتا ہے ۔۔۔
وہ بوڑھا والد ۔۔۔۔جس کو دو دفعہ ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے ۔۔مگر اسکا حوصلہ ۔۔صبر ۔۔۔جب شیر جوان بیٹے کی تدفین کر کے اپنے ہاتھوں اسے سپرد خاک کر کے گھر لوٹا تو ہم سب میڈیا والے جو ایک لاین مین کھڑے تھے ۔۔پاس آکر بولا ۔۔صبح سے آیے ہو تھک گیے ہو گے بیٹا او بیٹھو کھانا کھاؤ۔۔ہم میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے نہین ہل سکا ،مجھ سمیت کسی میں بھی حوصلہ نہیں تھا ۔۔کہ اس باپ کی طرف دیکھتا ۔۔مجھے تب یہی لگا ہم سب پتھر کے ہو گیے ہیں۔۔اپنی جگہ سے ہلے تو موم بن کر پگھل جائیں گے ۔۔مگر ہم نے رونا تھوڑی ہے ۔۔۔ہم تو میڈیا والے ہیں ۔۔اس لیے پتھر بن کے کھڑے رہے ۔۔۔
سارا دن واقعہ رپورٹ کرنے کے بعد جب میں تھکی ہاری ۔۔انکے صحن کے ایک کونے میں بیٹھی تو مقتول کی والدہ نے پاس آکے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔اود بولیں میری جھلی دھی ۔۔تم نے خواہ مخواہ اپنی حالت خراب کر رکھی ہے او تمہیں چایے پلاؤں ۔۔۔اور میں ایک بار پھر اپنی جگہ سے ہل سکی نا اس ماں کی جانب دیکھ سکی ۔۔۔
اور اب جب مقتول وقاص کی رپورٹ ہاتھ میں ہے تو دل کرتاہے بد دعا دوں ۔۔ان ظالموں کو بد دعا دوں۔۔تو پھر وہ واقعہ یاد آتا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی زات مبارک پر جب ایک بار پتھراؤ کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہویے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود صحابی نے کہا تھا یا رسول اللہ انکے لیے بددعا کرین تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا نہیں۔۔۔اے خدا انہیں ہدایت دے ۔۔۔
تو میں بھی اللہ پاک سے دعا مانگتی ہوں ۔۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتی۔۔۔۔اللہ سے دعا مانگتی ہوں کہ ام ظالموں کو ہدایت دے اور ہر ایک کو انکے ظلم سے محفوظ رکھ۔۔۔۔
میں باحوصلہ۔۔۔باہمت۔۔با اعتماد نظر آنے والی کرایم رپورٹر اس قدر بزدل ہوں کہ میں چاہتی ہوں میرا اب وقاص کے والدین سے کبھی سامنا نا ہو مین انہیں کبھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔
اس لیے اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ہر وقاص کو ۔۔۔ظالموں کے ظلم سے باز رکھے ۔۔۔
حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کے دکھ دکھانے کے لیے نارمل ہونا پڑتا ہے ۔۔۔
اور ہم جیسے لوگ انہیں محسوس کر کے ہمیشہ ابنارمل رہتے ہین ۔۔
میں چاہتی ہوں ۔۔میں ابنارمل رہوں۔۔۔کہ ابنارمل سے نارمل ہو کے مقتول وقاص جیسے بیانات کورپورٹ کرنا بڑا حوصلے کا کام ہے ۔۔۔
یہ دکھ ہم سے نارمل ہونے کا حق چھین لیتے ہیں ۔۔۔۔
آہ۔۔مقتول وقاص کے والدین ۔۔۔آہ۔۔۔ہم میڈیا والے(فرزانہ صدیق)۔۔
(فرزانہ صدیق کا تعلق فیصل آباد سے ہیں اور وہ فیصل آباد پریس کلب کی حال ہی میں نائب صدر بھی منتخب ہوئی ہیں، یہ تحریر ان کی فیس بک ٹائم لائن سے لی گئی ہے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔