تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، رمضان المبارک کا ماہ مقدس اپنی تمام تر رحمتوں،برکتوں، فضیلتوں کے ہمراہ جاری و ساری ہے۔۔آدھا رمضان گزر چکا ہے، پہلا عشرہ جو کہ رحمت کا تھا ہم نے آئین کے آرٹیکلز کی تشریح میں گزار دیا، دوسرے عشرے میں قوم مداخلت اور سازش کی تشریح میں مصروف ہے، اب تیسرے عشرے میں کیا ہوگا، فی الحال کچھ کہانہیں جاسکتا۔۔کراچی میں عوام کی اکثریت بڑے اہتمام سے روزہ تو رکھ رہی ہے لیکن اکثرکی حالت ’’روز‘‘ جیسی ہی ہوتی ہے۔۔ روزوں کی کئی اقسام بھی ہمارے معاشرے میں مقبول عام ہیں، جیسے بچوں کے لئے ـ’’ چڑی‘‘ روزہ ہوتا ہے، اسی طرح کچھ لوگ جمعہ کے جمعہ روزے کو ترجیح دیتے ہیں، جیسے نماز ویسے تو پانچ وقت کی روزانہ فرض ہے لیکن پاکستانیوں کی اکثریت صرف جمعہ کے روز نماز پڑھ کر پورے ہفتے کی نماز بخشوا لیتے ہیں۔۔
زندگی بھی پل پل تیزی سے بدل رہی ہے۔۔ جیسے ان دنوں رمضان چل رہے ہیں، اگلے ماہ نہیں ہوں گے۔۔اگر زندگی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور میں حضرت انسان کا فیورٹ مشروب الگ ہی رہتا ہے۔۔ جیسے رمضان میں افطار میں لوگ لال شربت یا دودھ سوڈے کو ترجیح دیتے ہیں، سحری میں لسی ان کی فیورٹ ہوتی ہے۔۔ اسی طرح پیدائش کے وقت انسان کے لئے دودھ مکمل غذا ہوتا ہے۔۔جب وہ پرائمری لیول کا طالب علم ہوتا ہے تو والدین اسے زیادہ سے زیادہ جوس پلانے کی کوشش کرتے ہیں، ہائی سکول میں جوس تبدیل ہوکر ملک شیک کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔۔کالج میں کولڈڈرنکس ہر نوجوان کی فیورٹ ہوتی ہے۔۔یونیورسٹی میں پہنچتے ہی یہ لوگ انرجی ڈرنکس کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔۔دوران جاب یا عملی زندگی میں سارے مشروبات کی جگہ چائے لے لیتی ہے۔۔اور ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بیچارہ صرف دم کئے ہوئے پانی پہ ہی گزارا کرتا ہے۔۔
ایک صاحب نے مولوی صاحب سے مسئلہ دریافت کیا کہ، کیا روزے کی حالت میں بیوی کو ’’ آئی لویو‘‘ کہہ سکتے ہیں۔۔؟؟ ۔۔ مولوی صاحب نے انتہائی ’’فکرانگیز ‘‘ جواب سے نوازا۔۔کہنے لگے۔۔اس معاملے میں دو باتوں کا خیال رکھنا لازمی ہے۔۔اگر کسی اور کی بیوی ہواور اس کے شوہر کو پتہ چل گیا تو پٹائی کے دوران خون نکلنے سے روزہ ٹوٹ سکتا ہے۔۔اور اگر بیوی آپ کی اپنی ہے تو یاد رکھیئے کہ جھوٹ بولنے سے روزہ مکروہ ہوسکتا ہے۔۔۔رمضان المبارک میں جو لوگ روزہ نہیں رکھتے وہ بیٹھ کرروزہ رکھنے والوں کا دھڑلے سے مذاق اڑاتے ہیں۔۔رمضان المبارک میں سوشل میڈیا پر روزے سے متعلق ایسی ایسی پوسٹیں ڈالی جاتی ہیں کہ توبہ ،توبہ ہوجاتی ہے۔۔ کچھ پوسٹیں آپ بھی پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ ہمارے ایمان کاایک اہم جز ’’روزہ‘‘ ہے جس کا یہ لوگ کس طرح مذاق اڑانے میں مصروف رہتے ہیں۔۔ ہیلو جی ایسے ہی پوچھنا تھا کہ روزوں میں اتوار کی چھٹی ہوتی ہے یا نہیں یا سارے کے سارے رکھنا پڑتے ہیں۔۔۔ ایک اور پوسٹ کچھ یوں ہے کہ ۔۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ سحری ویلے اِک ہور پراٹھا کھا لیندا تے میری اے حالت نہیں ہونی سی۔ ٹائم دسو یارو کی ہویا وے، اسی میسیج کے نیچے ایک تصویر بنی ہوتی ہے، جس پر ایک آدمی بْری حالت سے دو چار اپنے بستر پر لیٹا ہوا ہے۔۔۔ایک اور پوسٹ میں لکھا ہوا ہے۔۔ ابھی صرف چند ہی روزے گزرے ہیں، ماں صدقے جاوے کیسی شکل نکل آئی ہے، اس میسج کے نیچے عجیب سا کارٹون بنایا ہوا ہے جس کا منہ ٹیڑھا دکھایا گیا ہے ۔۔یہ پوسٹ تو نماز عصر کے بعد تیزی سے روز ہی وائرل ہوتی ہے۔۔ روزے دارو حوصلہ رکھو ابھی بہت ٹائم پڑا ہوا ہے ۔۔لوگو،دیکھو سورج ڈوبا کہ نہیں ؟ لگتا ہے کہ اے سانو مار کے ای ڈوبے گا۔۔اور کچھ لوگ تو دعائے افطار کا مذاق کچھ اس طرح اڑاتے نظر آتے ہیں۔۔ اگر روزہ لگے تو یہ دْعا پڑھیں۔۔الکباب الکیچپ و سموستھ الچٹنی اِن چپس الپیزا۔۔یا پانی یا پانی یا پانی تیری مہربانی ۔۔پھر روزوں کے حوالے سے نت نئے لطیفے بھی گھڑے جاتے ہیں۔۔ جیسا کہ۔۔ایک مولوی صاحب نے سحری کے لیے دودھ میں جلیبیاں بھگو کر رکھیں۔ جب سحری کا وقت ہوا تو تو مولوی صاحب نے اپنی بیوی سے کہا کہ جا کر جلیبیوں والا پیالا لائو۔ بیوی نے دیکھا کہ وہ دودھ والا پیالا تو بلی کھا گئی ہے اْس نے مولوی صاحب کو بتایا، مولوی صاحب نے چادر اوڑھتے ہوئے کہا ، فیر روزہ وہ بلی ہی رکھے۔۔۔ اسی طرح ایک لطیفہ کچھ پیش کیاجارہا ہے کہ۔۔۔ایک مولانا صاحب بازار سے واپس آرہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی۔ راستے میں انہیں ایک صاحب ملے اور بولے: مولانا کیا لے کر جارہے ہیں؟مولانا نے کہا : ایسی چیز جس کو کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ان صاحب نے کہا، ایسی چیز کا علم مولانا لوگ اپنے پاس چھپا کر رکھتے ہیں اور ہمیں کہا جاتا ہے کچھ بھی کھاؤ تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔مولانا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور تھیلی کھول کر دکھائی۔۔اس میں زنانہ جوتے رکھے ہوئے تھے۔۔۔
ایک ہندو اور عیسائی صحرا میں بھٹک گئے۔۔ دور ایک مسجد نظر آئی۔۔ہندو کہنے لگا۔۔ دیکھو وہ مسجد ہے، اگر ہم خود کو مسلمان ظاہر کریں تو ہمیں وہاں سے کھانے کو کچھ مل سکتا ہے۔۔ میں اپنا نام احمد بتاؤں گا۔۔ مگر عیسائی نے خود کو مسلمان ظاہر کرنے سے انکار دیا۔۔مسجد کے امام نے دونوں کا خوش دلی سے استقبال کیا اور نام پوچھا۔۔ہندو نے جھٹ سے اپنا نام ’’احمد‘‘ بتایا۔۔عیسائی کہنے لگا۔۔ میرا نام پیٹر ہے۔۔امام صاحب نے ایک شخص کو بلایا اور کہا۔۔پیٹر کے لئے کچھ کھانے کو لاؤ۔۔ پھر ہندو کی طرف مخاطب ہوئے اور کہنے لگے۔۔ اور سنائیں احمد صاحب! روزے کیسے گزر رہے ہیں؟؟؟ اسی جمعہ المبارک کا ذکر ہے۔۔ ہمارے محلے کی مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر مولوی صاحب بیان فرمارہے تھے کہ۔۔کہ جتنی زیادہ تکلیف اور گرمی کی شدت زیادہ ہو روزہ کا اجر اتنا زیادہ ہے۔۔پہلی صف سے ایک نمازی بھائی اٹھے اور محراب والا پنکھا بند کردیا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔رمضان المبارک چونکہ نیکیوں کا مہینہ ہے، جتنی زیادہ ہوسکے نیکی کیجئے، ان نیکیوں کا اجر اللہ کے پاس ہے اور ہاں۔۔نیکی کرتے وقت سیلفی کا استعمال کرنے سے نیکی کا ’’نون‘‘ ضائع ہوجاتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔