تحریر: جاوید احمد ادریسی
خدا کی کتاب کہتی ہے کہ وہ اُس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے مگر افسوس! یہاں ہرفرد ایک مسیحا کا منتظر دکھائی دیتا ہے۔رحمت اللعالمین ﷺ کی بہترین نصیحت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے اسباب پھر توکل ، لیکن اِس کے معنی ومفہوم سے نا آشنایہ لوگ جانے کس بھرم میں جی رہے ہیں کیا معلوم۔
کئی بار سوچا کہ غفلت میں سوئے اِن لوگوں کوجگایا جائے لیکن ہر بار صرف سوچ کر ہی رہ جایا کرتاتھالیکن کراچی پریس کلب میں پلاٹس کی تقسیم اور آگاہی ایوارڈ جیسی خبروں نے بالآخرراقم کو مجبور کرہی دیا۔ایک طرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہزاروں ملازمین کا ذریعہ معاش چھینے جانے کایہ گورکھ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور دوسری جانب اِس قسم کی ڈرامے بازیاں عروج پر ہیں ۔یہ بات کسی گھناؤنے مذاق سے کم نہیں کہ مقررہ اوقات سے زیادہ دیر تک نوکری کر کے چند ہزار ماہوارکمانے والے طبقے کو ملازمتوں سے بے دریغ فارغ کرکے لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے اینکرزکو سیٹھ ہنس کھیل کر برداشت کر رہا ہے۔اخبارات، ٹیلی ویژن کی زینت بننے والی ہر خبر کے پیچھے طویل محنت پوشیدہ ہوا کرتی ہے خواہ وہ ٹِکر کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اور وہ انہی نامعلوم افراد کی بدولت نشر ہوا کرتی ہے حالات ِ حاضرہ پر مبنی پروگرام ہو یا خبر نامہ اِنہیںنشر ہونے سے قبل مرتب ہونے کے لئے کتنے ہاتھوں سے گزرنا پڑتا ہے اِس کا اندازہ شاید ہی قارئین و ناظرین کو ہو۔
کمی بیشی معاف غالباًامام العادلین ؓ کے حضور مقدمہ پیش ہوا ایک شخص پر چوری کا الزام ثابت ہواحق چونکہ زبانِ عمری کا محتاج ٹہرا، امیر المومنینؓ کے پوچھنے پربتایا گیاکہ غریب نے فاقہ کشی سے مجبورہو کر چوری کی مورخ نے جواب آبِ زرسے لکھا فرمایا جس ریاست میں غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری کی جائے وہاں قاضی کو سزادینے کا کوئی حق نہیں۔ روزگار کی فراہمی کسی بھی فلاحی معاشرے کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جو جرائم کا قلع قمع کرنے کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے لیکن ریاستِ مدینہ کے موجودہ دعویداروں سے یہ اُمید نہ باندھی جائے تو بہتر ہے یہ عمل ناگزیر ہے کوئی پوچھے ذرا یہ وقت کے فرعونوں سے خوفِ خدابھی ا ٓخرکچھ ہے کہ نہیں؟ وزارتِ اطلاعات ،پیمرا ، نام نہاد صحافتی تنظیمیں و دیگرمیں سے کسی کوکیا اِس بات کاذرا بھی احساس ہے کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی کی زد میں آنے والے یہ ہزاروں افراد ، اور اُن کے اہلِ خانہ آخر کس حال میں گزر بسر کر رہے ہیں؟روٹی سے لیکر دوائی تک ، پڑھائی سے لیکر شادی تک، پیدائش سے لیکرموت تک حیاتِ فانی کے جتنے مراحل ہیں اُن تما م سے یہ لوگ کِس طرح گزر رہے ہوں گے؟ اوسطاً حساب لگا یا جائے تو بھی متاثرین کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ کہاں جا کر رُکتی ہے الامان الحفیظ۔قبلِ محشر نفسی نفسی کایہ عالم ہے پلاٹ ، ایوارڈ ملنے سے فرصت ملے اور توفیق نصیب ہو تو ہی دوسروں کا سوچا جائے ۔
بقول شخصیت کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجا کرتی ہے شکوہ اِن متاثرہ افراد سے بھی کرنا بنتا ہے جوخود کوئی قدم اُٹھانے کے بجائے بزدلوں اوربے حسوں کے طرح مسیحا کے انتظار میں ہیں ۔ایسا منظر ہندی فلموں میں تو ضروردیکھا جا سکتا ہے لیکن حقیقت اِس کے بلکل بر عکس ہے۔ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں اپنے حق کے لئے خود ہی نکلنا پڑتا ہے بنا اسباب کے توکل کرنا عقلمندوںکی نشانی نہیں۔ہم کوشش کئے بنا ہی نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا، کیسے ہوگا، ارے یار کون سُنے گا ہماری جیسے بزدلانہ الفاظ کم ظرفوں کوہی زیب دیتے ہیں یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ مایوسی کفرکے در پر دھکیل دیتی ہے حکومت نشست پر براجمان ایک انتہائی ذمہ دار شخصیت سے اِس بارے میں گفتگو ہوئی خاکسار نے استفسار کیا کہ حکومت اِس معاملے میں آخرکر کیا رہی ہے جواب میں صاحب کی خاموشی سے یہ ثابت ہوا کہ حکومت اِس معاملے پر آپ کی داد رسی نہیں کر سکتی تو صاحبو! ماضی کے مقابلے موجودہ عدالتِ عظمیٰ جتنی آزاد، مضبوط اور طاقت وردکھائی دے رہی ہے اتنی پہلے نہ تھی اور موجودہ چیف جسٹس صاحب جس برق رفتاری سے انصاف کی فراہمی کے لئے موثر عملی اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں یقینا بے مثل ہے۔وزرائے اعظم تک کو کٹھرے میں کھڑاکر کے اعلیٰ عدالتوں نے عوام الناس میں جو اُمیدیں پیدا کی ہیں وہ یقیناقابلِ تحسین عمل ہے موجودہ عدالتی نظام میں تبدیلی کے باعث جہاں انصاف کی فراہمی کا عمل شفاف ہوتادکھائی دے رہا ہے وہاں اگر تمام متاثرہ افراد اجتماعی شکل میں انصاف کے حصول کے لئے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا ۔اگر تمام متاثرین یک آواز ہو کراپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے خلاف صدا بلندکریں تویہاںانصاف ملنے کا قوی امکان ہے بجائے اِس کے کہ دوسروں کو کوستے ہوئے زندگی گزاری جائے بقول اُستادِ محترم ہزار سال کا فاصلہ طے کرنے کے ضروری ہے کہ پہلا قدم اُٹھایا جائے۔(جاوید احمد ادریسی)