نائنٹی ٹو نیوزاخبار کے کراچی اور لاہور اسٹیشن بند کئےجانے پر کراچی سمیت ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نےمذمت کی ہے۔۔کراچی یونین آف جرنلٹس کے صدر طاہر حسن خان، جنرل سیکرٹری سردار لیاقت اور مجلس عاملہ کے دیگر اراکین نے نائنٹی ٹو اخبار بند اور صحافیوں سمیت تمام عملے کو زبردستی برطرف کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جاری بیان میں کہا ہے کہ یہ غیر منصفانہ اقدام اس وقت کیا گیا ہے جب صحافی پہلے ہی شدید اقتصادی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔کے یوجے کے صدر طاہر حسن خان کا کہنا ہے کہ اس طرح بیک جنبش قلم کسی اخبار کا بند کرنا اور تمام عملے کو جبری برطرف کرنا نہ صرف لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق انسانی کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان مشکل اقتصادی حالات میں، جب کہ مہنگائی کا جن بے قابو ہےجب صحافی پہلے ہی گزر بسر میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، 92 نیوزپیپر کا یہ بے رحم فیصلہ نہ صرف صحافیوں اور میڈیا ورکرز بلکہ ان کے اہل خانہ پر بھی ذہنی اذیت کا باعث ہے۔کے یوجے کے جنرل سیکرٹری سردار لیاقت نے کہا ہے کہ زبردستی برطرفیاں ملک کے کسی قاعدے قانون میں نہیں، نکالے گئے صحافیوں اور میڈیا ورکرز پر برطرفی کی خبر بجلی بن کر گری ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور نائنٹی ٹو کی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام برطرف ملازمین کو فوری بحال کیا جائے۔کراچی یونین آف جرنلٹس نے وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطا تارڑ،سندھ کے وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن اور دیگر متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ نائنٹی ٹو اخبار کی انتظامیہ کے اس ظالمانہ اور غیرقانونی اقدام کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس پر کارروائی کی جائے اور تمام برطرف ملازمین کی بحالی اور ان کے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنایاجائے۔کے یوجے کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے حقوق کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں گے،نائنٹی ٹو اخبار کے برطرف ملازمین کے ساتھ کھڑے ہیں ان کی قانونی معاونت سمیت ہر پلیٹ فارم پر ان کیلئے آواز اٹھائیں گے۔۔دوسری طرف کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور)کے صدر حامد الرحمن، جنرل سیکریٹری سید نبیل اختر اور گورننگ باڈی کے اراکین نے 92 اخبار سے صحافیوں کی جبری برطرفی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ غیر منصفانہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب صحافی پہلے ہی شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں، یہ برطرفی ایک غیر انسانی عمل ہے۔صدر حامد الرحمن نے اس فیصلے کے نتیجے میں متاثرہ صحافیوں اور ان کے خاندانوں پر پڑنے والے سنگین اثرات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، “اس مشکل معاشی دور میں، جب صحافی اپنی تنخواہوں اور روزگار کے لیے پہلے ہی پریشان ہیں، 92 اخبار انتظامیہ کا یہ ظالمانہ اقدام ملازمین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انتظامیہ فوری طور پر فیصلے کو واپس لے۔ـ”جنرل سیکریٹری سید نبیل اختر نے بھی برطرفی کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی اور اسلام آباد اسٹیشنز سے درجنوں ملازمین کی جبری برطرفی سے صحافیوں کا معاشی قتل عام کیا گیا ہے، اخبارات کو ڈمی کرکے اشتہارات اورانتظامی مفادات جاری رکھنے کی یہ روایت اب برداشت نہیں کی جائے گی۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ 92 اخبار فوری طور پر برطرف کیے گئے صحافیوں کو بحال کرے۔کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور) کی گورننگ باڈی کے اراکین نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان مشکل حالات میں صحافیوں کا کردار بہت اہم ہے، اور ان کو غیر منصفانہ پالیسیوں کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی حفاظت کی جانی چاہیے اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔صدر حامد الرحمن، سیکریٹری سید نبیل اختر اور گورننگ باڈی کے اراکین نے وفاقی وزیر اطلاعات، وزیر اعظم اور دیگر متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اخبار کی انتظامیہ کے اس ظالمانہ اور غیر قانونی اقدام کے خلاف فوری کارروائی کریں اور متاثرہ صحافیوں کے روزگار کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کریں ۔کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور) صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیشہ پرعزم رہے گی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی کہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ یونین نے متنبہ کیا کہ میڈیا اداروں کے ایسے اقدامات کو چیلنج کیا جائے گا۔دریں اثنا کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور گروپ نے 92 اخبار اسلام آباد اسٹیشن کی بیک جنبش قلم بندش اور درجنوں صحافیوں فوٹو گرافروں اور میڈیا ورکرز کے معاشی قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے وفاقی حکومت وزیر اعلیٰ پنجاب مریم صفدر اور وزیر اطلاعات و نشریات پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ اخبارات کے اسطرح بیک جنبش قلم بندش اور صحافیوں کے معاشی قتل عام کو فی الفور روکیں جبکہ 92 اخبار اسلام آباد اسٹیشن کی بحالی یا بےروزگار ہونے والے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے واجبات کے فوری ادائیگی کو یقینی بنائیں۔۔پنجاب یونین آف جرنلسٹس(دستور)کے صدرصابر اعوان ،جنرل سیکرٹری رحمان بھٹہ،نائب صدورشہزادہ خالد،احسان بھٹی، میاں علی افضل ،فنانس سیکرٹری طارق جمال ،جوائنٹ سیکرٹریزعباداللہ بابر بٹ،خواجہ سرمد فرخ،جاوید حاکم اور اراکین مجلس عاملہ نے اسلام آباد میں اخبار 92 نیوز کی بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صحافتی کارکنوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ مالکان اخبارات کو ڈمی کر کے کروڑوں کے سرکاری اشتہارات ھڑپ کریں گے جبکہ کارکنوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے ھم ان اقدامات کی کڑی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافتی کارکنوں کو بےروزگاری سے بچایا جائے اور مالکان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے ۔۔کے یو جے دستور گروپ کے صدر محمد عارف خان جنرل سیکرٹری محسن شبیر سومرو نائب صدر قسیم رحیم جوائنٹ سیکرٹری طارق اسلم خازن عمران پیرزادہ اور ممبر ایگزیکٹو کونسل نے اپنے مذمتی بیان میں صحافی تنظیموں بالخصوص پی ایف یو جیز سے مطالبہ کی ہے وہ اس طرح بیک جنبشِ قلم میڈیا ہاؤسز اچانک بند کر کے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے معاشی قتل عام کو روکنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی بنائیں۔۔پاکستان میں یہ المیہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے مالکان گھی والے دودھ والے مٹھائی والے اور ٹرانسپورٹرز ہیں جو اپنا کالا دھن سفید کرنے کے لیے میڈیا ہاؤسز کھولتے ہیں جبکہ حکومت اور پیمرا بھی پیسے بنانے کے لیے آنکھیں بند کر کے ایسے نااہل لوگوں کو میڈیا ہاؤسز کھولنے کے لیے لائسنس جاری کر رہی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔۔علاوہ ازیں پاکستان ایسوسی ایشن آف پریس فوٹو گرافرز نے روزنامہ 92اخبار سے جبری نکالے جانیوالے صحافیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کی جبری برطرفی سے ایک نیا معاشی بحران پید ہوگیا گیاپہلے ہی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بے روز گار ہے جبکہ92کی انتظامیہ کی جانب سے اس عمل کے بعد بے روزگاروں کی تعدادمیں مزید اضافہ ہو جائے گا، یہ ایک انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے اگر ادارے کو مالی بحران کا سامنا ہے تو وہ اس صنعت کو خیرباد کہہ دیں۔ دوسری طرف کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن نے بھی نائنٹی ٹواخبار کی بندش اور صحافیوں کی جبری برطرفیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔۔کسی وجہ اور نوٹس کئے بغیر تمام ملازمین کو یک جنبشِ قلم برطرفی کرنا انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔۔کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ جبری برطرف کئے گئے تمام صحافیوں کو فی الفور بحال کیا جائے بصورت دیگر ہم نائنٹی ٹو آفس کے باہر بھر پور احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے اور برطرف صحافیوں کے بحالی تک یہ احتجاج جاری رہے گا۔۔