تحریر: مظہر عباس۔۔
بارہ مئی 2007 سے ایک رات پہلے انسانی حقوق کی ایک بڑی آواز عاصمہ جہانگیر نے لندن فون کر کے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے چالیس منٹ گفتگو میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کل (یعنی 12مئی کو) کیا کھیل کھیلا جانے والا ہے۔ جس کا سارا الزام آپ لوگوں پر ہو گا اس چال میں نہ آئیں۔ ابھی یہ کال ختم ہوئی تھی کہ ایک اعلیٰ افسر کی کال آئی اور اس نے ایم کیو ایم کی قیادت سے کہا ’’ابھی ابھی جو عاصمہ نے آپ سے کہا ہے اس پر توجہ نہ دیں وہ جسٹس افتخار چوہدری کی حامی ہیں‘‘۔ یہ انکشاف ایم کیو ایم کے ایک ایسے لیڈر نے مجھ پر کیا ، جس کے بقول اس کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں اور وقت آنے پر وہ منظر عام پر بھی آ جائیں گے۔ ’’ میں اس بات چیت کا عینی گواہ ہوں، 12مئی پر اختلاف تھا پارٹی میں‘‘۔
صرف یہی نہیں اس واقعہ سے کچھ دن پہلے اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ایک قریب ترین جنرل لندن گئے اور متحدہ کےقائد بشمول بانی متحدہ کو قائل کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد اور ریلی کو روکنا کیوں ضروری ہے‘‘۔ 12 مئی کو جو کچھ ہوا اس کی کیا ضرورت تھی یہ بات آج تک سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ افتخار چوہدری کی ریلی تو ملک کے دیگر شہروں میں بھی نکالی گئی۔ شاید ہی ملک کی کوئی بڑی بار ایسوسی ایشن ہو جہاں انہوں نے خطاب نہ کیا ہو۔ جو دبائو الطاف حسین پر ڈالا گیا وہ مشرف کے کسی اور اتحادی پر کیوں نہیں ڈالا گیا۔ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو کہا گیا کہ لاہور میں خطاب نہیں کرنے دینا یا پنڈی میں، لانگ مارچ بھی ہوا ڈی چوک تک اور کراچی تا خیبر جلوس پہنچے۔ ارادہ تو دھرنے کا تھا چوہدری صاحب کی بحالی تک مگر پھر کیا ہوا یہ چوہدری اعتزاز احسن ہی بتا سکتے ہیں، مگر کراچی میں ایسا لگ رہا تھا کہ جنرل مشرف اور جنرل ندیم اعجاز نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ گورنر عشرت العباد اور پوری سندھ کی انتظامیہ نے درخواست بھی کی اگر وہ (افتخار چوہدری) نہیں مانتے تو ریلی نکلنے دیں۔ خطاب کرکے چلے جائیں گے۔ مگر بادشاہ سلامت کو تو جشن بھی منانا تھا ۔ اسلام آباد میں تیاری بھی تھی اور پھر اسی رات مکے لہرا کر ’’فتح‘‘ کا جشن منایا یہ سوچے بغیر کے یہ زوال کی ابتدا تھی۔ اس روز شہر میں پولیس نہ رینجرز، شائد ان کیلئے آرام کا دن تھا۔ 27 دسمبر 2007 کو بھی کراچی سمیت پورا سندھ جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کراچی کو اس بے دردی سے جلتے نہیں دیکھا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ بڑے ہائی پروفائل کیسوں کی فائلیں بند ہوجاتی ہیں اور کیس مکمل نہیں ہو پاتا۔ یہ کارروائی وقتی ہوتی ہے تاکہ جب بھی ضرورت پڑے کیس دوبارہ کھول دو ورنہ بند رہنے دو۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں پر تو مقدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جو ہزاروں پر مشتمل ہے مگر اس تلوار کو لٹکا کر ان سے حکومتوں میں جانے اور نکلنے کا کام لیا جاتا رہا۔ 12 مئی کی تحقیقات اسی لیے نہیں کرائی گئیں کہ اگر وہ غیر جانبدارانہ ہو جاتیں تو بات بہت دور تک جاتی مگر اس روز جو سیاسی کارکن ،چاہے ان کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے ہو یا ایم کیو ایم یا کسی اور پارٹی سے، مارا تو وہی گیا اور یہی بات عاصمہ جہانگیر سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اب اسے کیا پتا تھا کہ شائد اس کی بات کہیں سنی جارہی ہے ورنہ فون رکھنے کے فوراً بعد کال کیوں آتی۔
مئی کے مہینے کی کئی نامکمل کہانیاں ہیں جو شائد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آ جائیں گی جیسے یکم مئی 1993کو ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق کا قتل۔ عظیم بھائی جب منظر عام پر آئے تو وہ ایجنسیوں کی نگرانی میں تھے ۔ حاجی شفیق الرحمان مرحوم کے گھر سے لے کر گلشن اقبال تک مشہور زمانہ پولیس افسر رائو انوار نے یہ بات مجھے خود بتائی کہ گلشن والا گھر بھی اس نے دلوایا تھا اور اکثر رات کے کھانے کا انتظام بھی وہ کرواتا تھا۔ ’’پتا نہیں اس رات وہ اپنے عزیز آباد والے گھر کیوں چلے گئے اور کس کے کہنے پر وہاںان کا قتل ہوا‘‘۔ اس سے ایک روز پہلے کی پریس کانفرنس بہت سخت تھی اور بقول آفاق احمد اس نے عظیم بھائی کو اسکے بعد مشورہ دیا تھا کہ لانڈھی آجائیں ہم حفاظت کریں گے۔ بعد میں کہتے ہیں کہ ان کے مبینہ قاتل بھی مارے گئے مگر یہ فائل ابھی نامکمل ہے۔
دومئی 2011 کے واقعہ نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا اس کے اثرات شائد ہم اب بھی محسوس کر رہے ہیں۔ یہ دنیا کے سب سے مطلوب شخص اور القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک گھر میں ہلاکت تھی۔ یہ اندرونی مداخلت نہیں، بیرونی مداخلت تھی۔ کیا کیا نہیں ہوا اس ملک میں اور اس ملک کے ساتھ۔ وہ آئے ، کبھی رمزی یوسف کو لے گئے، ایمل کانسی کو لے گئے ، ریمنڈ ڈیوس کو لے گئے، ڈاکٹر عافیہ کو لے گئے اور اسامہ کو ہلاک کر کے لے گئے اور شائد کسی دن شکیل آفریدی کو بھی لے جائیں۔ آخر جنرل مشرف خود اپنی کتاب، ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں اعتراف کر چکے ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کے المناک واقعات ہیں اور میں آرٹیکل 19 کے تحت یہ سوال بھی نہیں کر سکتا کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا کیا بنانہ ہی آرٹیکل 19-A کے تحت اس کی فائل مانگ سکتا ہوں۔ پارلیمنٹ میں ان کیمرہ بریفنگ میں اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے استعفیٰ کی بھی شائد پیش کش کی تھی مگر محب وطن پارلیمنٹ نے اسے قبول نہ کیا مگر 12؍ اکتوبر1999کو دو تہائی اکثریت والے وزیر اعظم کو کان سےپکڑ کر وزیر اعظم ہائوس سے چند افسران نے باہر نکال دیا اور پھر ہماری عدلیہ نے اس اقدام کو آئینی قرار دیا کیونکہ اقتدار اس طرح بدلتا ہے تو عدلیہ بھی بدل جاتی ہے اور اس کے تیور بھی۔
نو مئی کے واقعہ کی پہلی برسی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک غیر معمولی دن تھا اور آج تک یہ کیس آگے نہیں بڑھا اب بھی انتظار ہے کہ کب یہ اوپن اور شٹ، کیس اوپن ہوتا ہے اس لیے کیس کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ سازش تھی تو کیسے ہوئی کوئی ایک دو جگہ حملےہوتے ریڈ زون، میں تو سمجھ میں آتاکہ ہجوم کا جذباتی ردعمل مگر یہ تو ایک منظم انداز نظر آتا ہے۔ جس کے بظاہر کچھ پس پردہ کردار بھی تھے یہ کہانی اب کھلنی چاہئے اور جو ملوث ہو اسے قانون کے تحت سزا دیں۔ مگر ابھی تو اس فائل کو سال بھر ہی ہوا ہے۔ دیکھتے ہیں فائل کھلی رہتی ہے یا وقت کے ساتھ ساتھ بند ہو جائے گی، کسی اور وقت کیلئے۔(بشکریہ جنگ)۔۔