پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل (ر) شجاع پاشا اور جنرل (ر) ظہیر الاسلام کے دور میں اسلام آباد میں اغوا برائے تاوان کی ’ڈاکٹرائن‘ بڑے زور و شور سے جاری تھی۔ویب سائٹ پاکستان 24 کیلئے لکھے گئے اپنے کالم میں ابصار عالم نے کہا ’جنرل پاشا اور جنرل ظہیر کے سُنہری دور میں اغوا برائے تاوان کی ڈاکٹرائن اسلام آباد میں بڑے زور و شور سے جاری رہی اور اُس کا کوئی توڑ نہ کر سکا۔ ایک بزنس مین جس کا غذائی اجناس کا کاروبار ہے اور وہ پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں میں بھی شامل ہے ایک دن شام کو دفتر سے ایف 8 گھر جانے کے لیے نکلا تو اچانک راستے سے غائب ہو گیا۔ڈُنذھیا مچی تو گاڑی رات کو ایک ویران سی سڑک سے ملی لیکن گاڑی والا غائب۔ گھر والوں سے کسی نے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر اُسے لاش کی بجائے زندہ حالت میں وصول کرنا ہے تو 40 کروڑ روپوں کا بندوبست کر لیں۔اُس کاروباری شخص کو بغیر کسی رُکاوٹ کے اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا دیا گیا تھا۔ اس دوران بات چیت ہوتی رہی اور آخر کار اغوا کار جو اپنا تعلق ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم سے بتا رہے تھے، مُختلف طاقتور سرکاری، اور مذہبی شخصیات کی سفارش، مہارت اور گارنٹی سے ساڑھے آٹھ کروڑ روپوں کے تاوان لینے پر راضی ہوگئے.یاد رہے کہ اُس وقت ایک ڈالر صرف 80-90 روپے کے درمیان تھا۔ ایک ویران اور محفوظ جگہ پر مغویان کو رقم ادا کر کے بزنس مین کو زندہ وصول کر لیا گیا۔جس گھر کے جس کمرے میں اس بزنس مین کو رکھا گیا تھا وہیں اُسی جگہ کُچھ دن پہلے اسلام آباد کے ایک مشہور منی چینجر کو بھی اغوا کر کے مہمان بنایا گیا تھا وہ بھی دو کروڑ روپے ادا کر کے رہا ہوا۔ ابصار عالم نے دعویٰ کیا ہے کہ جب لیفٹیننٹ جنرل (ر) رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو اس وقت چار ٹی وی چینلز کے مالک کو اٹھا کر تشدد کرکے تمام چینلوں کی ملکیت ٹرانسفر کروائی گئی۔ویب سائٹ پاکستان 24 کیلئے لکھے گئے اپنے کالم میں ابصار عالم نے لکھا ’’ جب جنرل رضوان ڈی جی آئی ایس آئی تھا تب چار نجی ٹی وی چینلز کے مالک کو اسلام آباد سے رات کی تاریکی میں اُٹھا لیا گیا اور اُس کو ایک “سیف ہاؤس” کے تہہ خانے میں بند رکھ کر تب تک ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا جب تک اُس نے اپنے ٹی وی چینلز کی ملکیت کی ٹرانسفر کے کاغذات پر دستخط نہیں کر دیے۔ جب تک وہ میڈیا اونر یرغمال رہا، اُس کے گھر والوں کو کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہے، فیملی ہمیشہ کے لئے خوفزدہ اور نفسیاتی مریض ہو گئی۔اُن ٹی وی چینلز کا قبضہ پہلے ایک ہوٹل چین کے مالک اور اُس کے مُلازم (جو آج کل تمام ٹی وی چینلز پر اپنا اسٹیبلشمنٹی-عمرانی تجزیاتی گیان بانٹتا ہے) اور پھر بعد میں ایک پراپرٹی ٹائکون کو دے دیا گیا جس نے ایک اور اسٹیبلشمنٹی-عمرانی گیان بانٹنے والے اینکر کو اُس کا مُختارِ کُل بنا دیا اور پھر کُچھ عرصے بعد پیسہ ہضم اور کھیل ختم۔
چار ٹی وی چینلز کی ملکیت کیسے تبدیل کرائی گئی؟
Facebook Comments